عقیل احمد
تاریخی بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔ رام جنم بھومی ٹرسٹ نے ایودھیا میں ہی واقع کارسیوک پورم میں مجوزہ رام مندر کے لئے ہزاروں کی تعداد میں کالم تعمیر کرلئے ہیں۔ سادھوؤں، آر ایس ایس وشوا ہندو پریشد اور خود برسر اقتدار جماعت بی جے پی کے قائدین کا کہنا ہے کہ بہت جلد رام مندر کی تعمیر شروع ہو جائے گی کیونکہ وزیر اعظم نریندر مودی بڑی خاموشی کے ساتھ ایودھیا میں ایک شاندار مندر کی تعمیر کے لئے ٹھوس اقدامات کررہے ہیں۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ حکومتی سطح پر اس طرح کی باتیں نہیں کی جارہی ہیں اس مسئلہ پر اُس نے بالکل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ تاہم رام جنم بھومی نیاس کے سربراہ نرتیا گوپال داس کا کہنا ہے کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی بہت جلد فیصلہ لیں گے۔ اس بات کا اشارہ دیتے ہوئے کہ ہندو تنظیمیں اس مسئلہ کا عدالت کے باہر حل تلاش کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہی ہیں اور مرکز میں بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے حکومت اس ضمن میں پارلیمنٹ کے ذریعہ ایک قانون متعارف کرانے کی تیاریوں میں مصروف ہے نرتیا داس نے پرزور انداز میں کہا کہ اب ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا وقت آگیا ہے۔ داس نے کہا ’’بھگوان رام کے خیمے کے تلے رہنے کا وقت ختم ہوچکا ہے، مودی بہت جلد ایودھیا میں ایک پرشکوہ رام مندر کی تعمیر کے لئے ٹھوس اقدامات کررہے ہیں۔ رام جنم بھومی نیاس نے جو وشوا ہندو پریشد کے تحت کام کرتی ہے کارسیوک پورم ایودھیا میں مندر کے ہزاروں کالم تیار کرلئے ہیں۔ تعمیر مندر کی اجازت ملتے ہی چند دنوں میں مندر تعمیر کردی جائے گی۔ داس کے مطابق توقع ہے کہ رام مندر مودی کی میعاد میں ہی تعمیر ہو گی اور ٹرسٹ کو یہ بھی توقع ہے کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتیں اس مسئلہ پر مودی حکومت کی تائید و حمایت کریں گے۔ ڈیلی میل میں شائع رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کہتے ہیں کہ پارٹی اس مسئلہ کو دوبارہ کریدنے کی خواہاں نہیں ہیں کیونکہ رام مندر ایک حساس مسئلہ ہے جبکہ حکومت فی الوقت موافق اصلاحات ایجنڈہ اور حصول اراضیات بل پر ساری توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ اس دوران سادھوؤں کی سب سے بڑی تنظیموں میں سے ایک اکھاڑہ پریشد کا دعویٰ ہے کہ رام مندر اس کے قلوب سے جڑا ہوا مسئلہ ہے اور وہ اس سلسلہ میں مرکزی حکومت کو یکطرفہ فیصلہ کرنے نہیں دے گی۔ پریشد کے نومنتخب صدر مہنت نریندر گری کے مطابق اکھاڑہ پریشد مسلمانوں کی قیمت پر کوئی بھی چیز ہونے نہیں دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ اکھاڑہ سادھوؤں اور علماء سے بات چیت کے ذریعہ ایک ایسا فارمولہ پیش کرے گا جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔ گری کا کہنا ہے کہ بابری مسجد رام جنم بھومی مقدمہ کے اصل فریق و درخواست گذار ہاشم انصاری سے وہ ملاقات کریں گے تاکہ منصوبہ کو حتمی شکل دی جاسکے۔ اکھاڑہ پریشد کے مطابق مسلمانوں کے مذہبی قائدین کو ترغیب دی جائے گی کہ وہ متنازعہ مقام پر رام مندر تعمیر کرنے میں رام جنم بھومی نیاس سے تعاون کریں۔ گری نے بتایا کہ تمام چاروں شنکر اچاریہ اہم مسلم علماء مندر کی تعمیر کے لئے ہونے والی بھومی پوجا میں حصہ لیں گے۔ بعد میں ہندو مذہبی قائدین کی مدد سے ایک مسجد کی تعمیر عمل میں آئے گی۔ وہ مزید کہتے ہیں ’’اس سلسلہ میں اگست تک ہم ایک ٹھوس منصوبہ تیار کرلیں گے اور اسے ناسک کمبھ کے دوران ملک کے سادھوؤں کو پیش کیا جائے گا۔ اس بارے میں پوچھے جانے پر ہاشم انصاری نے کہا کہ وہ رام للا کو ایک خیمے میں چھوڑ دیئے جانے کے خلاف ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم حکومت کو مسلمانوں کو نظر انداز کردینے کی اجازت دیں گے۔ ہاشم انصاری کے مطابق انہوں نے اس مسئلہ پر تبادلہ خیال کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کا وقت طلب کیا ہے اور ہم اس مسئلہ پر تبادلہ خیال سے متعلق نریندر گری کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہاشم انصاری کے خیال میں اکھاڑہ پریشد ایک اہم تنظیم ہے جو ہندوؤں کے کسی بھی مذہبی مسئلہ پر فیصلہ لینے کی اہل ہے۔ بابری مسجد رام جنم بھومی ایک مذہبی مسئلہ ہے اور اسے فضاء کو مکدر کرنے کے لئے غیر ضروری طور پر اچھالا جارہا ہے۔ ہاشم انصاری کے مطابق اس تنازعہ کی باہمی بات چیت کے ذریعہ ہی یکسوئی کی جاسکتی ہے۔ دوسری جانب اترپردیش کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل اور سنی وقف بورڈ کے وکیل ظفر باب جیلانی نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ مسلمان اس مقدمہ کے فیصلہ کے لئے سپریم کورٹ کو ترجیح دیں گے۔