شہر کی ترقی کے دعوؤں کی قلعی کھل گئی

صرف سات سنٹی میٹر بارش سے معمول کی زندگی مفلوج

محمد نعیم وجاہت
گریٹر حیدرآباد کے حدود میں آبادی کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تاہم بڑھتی ہوئی آبادی کے لحاظ سے عوام کو بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔ صرف 7 سنٹی میٹر بارش سے شہر حیدرآباد میں عام زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی۔ تیز ہوائیں چلنے سے جہاں بڑے بڑے ہورڈنگس گر گئے وہیں درخت بھی اُکھڑ گئے۔ ایک تیز بارش سے شہر حیدرآباد جھیل میں تبدیل ہوگیا۔ ڈرینج نظام باقاعدہ نہ ہونے سے پانی بستیوں میں داخل ہورہا ہے۔ سڑکوں کی ابتر صورتحال ہے بارش سے اور بھی خراب ہوگئی ہیں۔ پینے کے پانی کی قلت عام بات ہوگئی۔ ان میں کسی ایک مسئلہ کا بھی مستقل حل نہیں نکالا جارہا ہے۔ ان مسائل پر خصوصی توجہ دینے کے بجائے حکمراں طبقہ کی جانب سے حیدرآباد کو سنگاپور، پرانے شہر کو استنبول کی طرز پر ترقی دینے کے اعلانات کئے جارہے ہیں۔ ابھی عوام کے اتنے مسائل ہیں اس کو عالمی طرز پر ترقی دینے سے مزید کتنے مسائل پیدا ہوں گے۔ اس کے بارے میں عوام فکرمند ہیں۔ حالیہ بارش کے بعد شہر حیدرآباد اور اس کے کئی نشیبی علاقوں کے گھروں میں پانی داخل ہوگیا۔ کئی مقامات پر عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا پڑا۔ کالونیوں اور سڑکوں پر گھٹنے برابر پانی جمع ہوگیا۔ سارے شہر میں کہیں بھی ایک کیلو میٹر سڑک کی حالت اچھی ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ حیدرآباد کو ترقی دینے کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوچکے ہیں۔ کیوں کہ حقائق ہمارے سامنے ہیں۔ کب تک عوام کو تسلی دی جائے گی اور کب تک دنیا کی نظروں میں دھول جھونکی جائے گی۔ ریاستی وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی آر شہر میں ترقی کا دعویٰ کررہے ہیں لیکن صرف 4 گھنٹوں کی بارش نے تمام دعوؤں کی قلعی کھول دی۔

حضور نظام نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع کے دور میں تیار کردہ ڈرینج نظام سے اب تک بھی کام لیا جارہا ہے۔ آزادی کے 75 سال بعد شہریوں کو وہ سہولتیں دستیاب نہیں ہیں جو حضور نظام کے دور میں تھیں۔ نظام حیدرآباد نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حیدرآباد کی پانچ لاکھ آبادی کو پینے کے پانی کی سہولت فراہم کرنے کے لئے عثمان ساگر اور حمایت ساگر تعمیر کرتے ہوئے پختہ ڈرینج نظام اور حمل و نقل کے لئے عمدہ سڑکیں تعمیر کی تھیں۔ 75 سال کے طویل عرصہ میں کسی حکمراں نے عوام کو مؤثر بنیادی سہولتیں کی فراہمی پر توجہ نہیں دی صرف وعدے اور اعلانات پر اکتفا کیا گیا۔ حکمرانوں نے بڑھتی آبادی کو مناسب و بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے اقدامات نہیں کئے جس کا نتیجہ ہے کہ صرف معمولی بارش سے شہر حیدرآباد کی عام زندگی مفلوج ہوگئی۔ ان حالات کے لئے کوئی ایک سیاسی جماعت یا قائد کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا بلکہ ریاست اور بلدیہ حیدرآباد پر حکمرانی کرنے والی تمام جماعتیں اور منتخب عوامی نمائندے سبھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ تمام جماعتیں اور قائدین انتخابات کے دوران بن بلائے بستیوں کے دورے کرتے ہیں۔ کامیابی کے بعد اپنی جانب سے کئے گئے وعدوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ گزشتہ 20 سال سے ریاست پر حکمرانی کرنے والی جماعتوں نے شہر حیدرآباد کی ترقی کے لئے سو نہیں ہزار نہیں لاکھوں کروڑ روپئے خرچ کرنے کے دعوے کئے۔ اتنی بھاری رقومات خرچ کرنے کے باوجود شہر کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آسکا اور نہ ہی عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا ہوئی ہیں۔ شہر کی عالیشان کالونی سے نشیبی علاقوں کے سلم بستیوں تک یکساں صورتحال ہے کیوں کہ تبدیلی صرف حکمرانوں میں آئی ہے۔ عوام کی حالت جوں کی توں برقرار ہے۔ شہر حیدرآباد کے ایک کروڑ عوام کے لئے حکومت کے پاس کوئی جامع منصوبہ نہیں ہے۔ تعجب کی بات ہے۔ شہر حیدرآباد کو سلم بستیوں سے پاک کرنے کا نعرہ صرف نعرہ کی حد تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ حکمرانی کی غلطیاں عوام کے لئے مصیبت بن رہی ہے۔ دونوں شہروں میں ایک ہزار سے زائد مخدوش عمارتیں ہونے کے ریکارڈ کے باوجود بلدیہ کے عہدیداروں نے کوئی احتیاطی اقدامات نہیں کئے جس کے نتیجہ میں حالیہ بارش سے عمارتوں کے منہدم ہونے سے بشمول 4 بچے جملہ 7 افراد کی موت واقع ہوگئی۔ شہریوں کے لئے یہ المناک واقعہ ہے۔ شہر میں رہنے کے باوجود چیف منسٹر کے سی آر نے رامنتاپور اور بھولکپور کا دورہ کرتے ہوئے متاثرین کے ارکان خاندان سے ملاقات کرتے ہوئے انھیں پرسہ دینے کے بجائے صرف پریس ریلیز سے رنج و غم کا اظہار کیا اور مہلوکین کے افراد خاندان کے لئے فی کس 2 لاکھ روپئے کا اعلان کیا۔ میئرحیدرآباد نے پہلے بلدیہ کی جانب سے مہلوکین کے ورثاء کو فی کس ایک لاکھ روپئے ایکس گریشیاء دینے کا اعلان کیا تھا تاہم وزیر بلدی نظم و نسق مسٹر کے ٹی راما راؤ نے بلدیہ سے ادا کئے جانے والے ایکس گریشیاء کو ایک لاکھ سے بڑھاکر 2 لاکھ کردیا۔ اس طرح مہلوکین کے ورثاء میں فی کس 4 لاکھ روپئے ایکس گریشیاء دینے کا فیصلہ کیا گیا۔

اگر مان لیا جائے کہ یہ قدرتی آفات ہے۔ باوجود اس کے جانی و مالی نقصانات کو ٹالا جاسکتا ہے۔ شہر کے کئی نالوں پر ناجائز قبضے سے ماضی میں ناگہانی صورتحال سے حیدرآباد کو بچانے کا جائزہ لینے کے لئے کرلوسکر کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جن کی رپورٹ کچرے دان کی نذر کردی گئی۔ اس رپورٹ پر عمل آوری سے شہر حیدرآباد کی صورتحال تبدیل ہوسکتی ہے۔ مگر 15 ہزار کروڑ روپئے کے مصارف کا امکان ہے۔ شہر کی ترقی پر لاکھوں کروڑ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔ مگر کرلوسکر کمیٹی کی رپورٹ کو عملاً نظرانداز کیا جارہا ہے۔ شہر میں ابھی تک 1925 ء میں قائم کردہ ڈرینج نظام کئی علاقوں میں موجود ہے۔ گزشتہ 90 سال سے اس کو مکمل تبدیل کرنے کے بجائے ضرورت کے مطابق توسیع کی جارہی ہے۔ شہر میں فی الحال 4600 میٹر ڈرینج نظام اور 1500 کیلو میٹر نالے موجود ہیں جو ایک کروڑ آبادی کی ضروریات کے لئے ناکافی ہے۔ تھوڑی سی بارش سے ڈرینج اور نالوں کا پانی سڑکوں اور بستیوں میں آجاتا ہے۔ جس وقت کرلوسکر کمیٹی نے اپنی رپورٹ دی تھی اُس وقت ڈرینج نظام کو باقاعدہ بنانے اور نالوں کی توسیع کے لئے تقریباً 7000 کروڑ روپئے کا تخمینہ تیار کیا گیا تھا۔ جس میں اب مزید ایک ہزار کروڑ روپئے کا اضافہ ہوگیا ہے۔ کرلوسکر کمیٹی نے اپنی سفارش میں بلدیہ کو بتایا تھا کہ نالوں کی توسیع کے دوران مکانات سے محروم ہونے والے متاثرین کی معاوضہ یا متبادل انتظامات کئے جائیں۔ جن کا مکان مکمل منہدم ہوگیا انھیں نیا مکان تعمیر کرکے دیا جائے۔ سرکاری اراضیات پر بھی قبضوں کے باوجود متاثرین کو معاوضہ دیا جائے۔ خانگی اراضیات کو نئے قانون کے تحت معاوضہ دیا جائے۔ حصول اراضی کے لئے ڈپٹی کلکٹر، ٹاؤن پلاننگ اور انجینئرنگ عہدیداروں پر مشتمل خصوصی ادارہ تشکیل دیا جائے۔ جائیدادوں سے محروم ہونے والے افراد کو 223 کروڑ روپئے معاوضہ ادا کیا جائے۔ نالوں میں سیوریج کو ملنے سے روکنے کے لئے خصوصی اقدامات کئے جائیں۔ نالوں کی صفائی کے لئے سالانہ کروڑہا روپئے خرچ کئے جارہے ہیں مگر نالوں میں کچرا ڈالنے سے روکنے کے لئے درکار اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں اس پر توجہ دینے اور مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل نہیں کیا گیا۔ مستقبل میں اس کی قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ ماضی کے تجربات بھی یہی بتاتے ہیں۔ شہر مییں بارش سے جو تباہ کاریاں ہوئیں وہ پہلی مرتبہ نہیں ہوئیں اور نہ ہی عوام پہلی مرتبہ پریشان ہوئے اور ہرگز ایسا نہیں کیا جاسکتا کہ یہ مصیبت آخری تھی۔ لہذا مستقبل میں عوام کو مسائل سے بچانے کے لئے ابھی سے منصوبہ بندی ضروری ہے جس کے لئے حکمرانوں کو اور اعلیٰ عہدیداروں کو آپسی تال میل سے حل نکالنا چاہئے۔ حالیہ بارش کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ 5 سنٹی میٹر بارش سے موجودہ نظام حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگیا۔ ملک کے کسی بھی دوسرے شہر کو نہ ہونے والی سہولت شہر حیدرآباد کو حاصل ہے۔ جنوبی حیدرآباد میں بارش سے پانی بہہ کر موسیٰ ندی اور شمالی حیدرآباد میں بارش ہونے سے مانجرا ندی میں پانی بہہ جاتا ہے۔ تاہم ترقی کے نام پر اس نظام کو نقصان پہنچایا گیا۔ شہر کے کئی علاقوں میں ناجائز قبضے ہوگئے ہیں اور اس کی سیاسی طور پر حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں عوام کو سزا بھگتنی پڑرہی ہے۔ 5 ہزار کیلو میٹر تک رہنے والی موسیٰ ندی ناجائز قبضوں کے بعد گھٹ کر 1000 کیلو میٹر تک محدود ہوگئی ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا جب حیدرآباد میں تالابوں کی تعداد 1000 تھی۔ ناجائز قبضوں کے بعد اب 200 تک ہوگئی ہے۔ شہر کی سڑکوں کی ابتر صورتحال سے نئی سڑکوں کی تعمیر اور مرمت کے نام پر سالانہ 600 کروڑ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔ لیکن سڑکوں کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آرہا ہے۔ شہر کے سلم علاقوں میں 5 ہزار خاندان زندگی بسر کررہے ہیں۔ انھیں ڈبل بیڈ روم فلیٹس سے فائدہ پہنچانے کا وعدہ کیا گیا مگر گزشتہ دو سال میں کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔ 2008 ء کے دوران حیدرآباد میں بارش سے 14 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ باوجود اس کے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کی جانب سے نقصانات کو ٹالنے کے لئے کوئی جامع منصوبہ تیار نہیں کیا گیا۔ جاریہ سال فروری میں منعقدہ جی ایچ ایم سی کے انتخابات میں حکمراں ٹی آر ایس نے عوام کو ہتھیلی میں جنت دکھائی۔ 100 دن میں ترقیاتی حکمت عملی تیار کرنے کا اعلان کیا مگر 230د ن گزرنے کے باوجود حکومت کی جانب سے شہر کے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔ بلدیہ حیدرآباد کو حکومت کی جانب سے دی جانے والی گرانٹ کو روک دیا گیا اور گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے بجٹ سے نقصان میں چلنے والی تلنگانہ آر ٹی سی کو مالی امداد دی گئی۔ جی ایچ ایم سی انتخابات میں عوام نے حکمراں ٹی آر ایس اور مجلس پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔ وعدے کے مطابق حکومت نے حیدرآباد کی ترقی کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے اور نہ ہی مجلس نے مسائل کی یکسوئی کے لئے حکومت پر کوئی دباؤ بنایا۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پہلے خستہ حالت کا شکار ڈرینج سسٹم کو عصری تقاضوں سے پورا کرنے کے عملی اقدامات کرے۔ ڈرینج اور پینے کے پانی کے پائپ لائن کو ایک دوسرے سے علیحدہ کریں۔ آلودہ پانی کے استعمال سے بھولکپور، مشیرآباد میں کئی افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ٹریفک مسائل کی یکسوئی کے لئے سڑکوں کی توسیع کو یقینی بنائے۔ نالوں کی توسیع کی جائے۔ ضرورت پڑنے پر گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کا دو روزہ خصوصی اجلاس طلب کرے اور 150 کارپوریٹرس سے مسائل کی نشاندہی کرنے اور اس کے حل کے لئے تجاویز طلب کریں۔ بعدازاں ماہرین کی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے ان سے رپورٹ طلب کریں اور مسائل کو حل کرنے کے لئے قلیل اور طویل مدتی منصوبہ بندی تیار کریں اور حکومت کی جانب سے مسائل کو جنگی خطوط پر حل کرنے کے لئے کم از کم 20 ہزار کروڑ روپئے خرچ کریں۔ ملنا ساگر اور کالیشورم پراجکٹ کو جس طرح حکومت وقار کا مسئلہ بناتے ہوئے کام کررہی ہے اسی طرز پر حیدرآباد کی ترقی، عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے کام کریں۔ بصورت دیگر شہر حیدرآباد کو نظرانداز کرنے کے معاملہ میں کانگریس اور تلگودیشم کی فہرست میں ٹی آر ایس کا بھی نام شامل ہوجائے گا۔