شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری      خیر اللہ بیگ
حیدرآباد کے عوام کیا آئندہ ایسے کسی ظالم کو اجازت دیں گے کہ وہ اس شہر کا نام لے کر ان پر مسلط ہونے کی کوشش کرے۔ شہریوں کو یہ خبر پڑھ کر افسوس ضرور ہوا ہوگا کہ ریاستی  تلنگانہ حکومت نے شہر حیدرآباد کو اسمارٹ سٹیز بنانے کے لئے تیار کردہ فہرست میں سے حذف کردیا ہے۔ تلنگانہ کے حصول کے لئے سب سے زیادہ زخم اسی شہر نے کھائے ہیں کیونکہ ہڑتالوں اور ہنگاموں کے ذریعہ اس شہر کے مکینوں نے اپنے روٹی روزگار کو کھویا ہے۔ سکھ و چین کو قربان کرکے تلنگانہ تحریک کو قوی بنانے میں مدد کی تھی، مگر آج جب ترقیات کا معاملہ ہوتا ہے تو شہر حیدرآباد کو ہی نظرانداز کردیا جارہا ہے۔ اس خبر میں کس حد تک صداقت ہے اس کا اندازہ شہریوں کو شہر کی دن بہ دن بگڑتی کیفیت سے ہی ہوجانا چاہیئے ۔ شہر ی بہت دھوکے کھاچکے ہیں۔ مقامی جماعت نے حکمراں پارٹی سے خفیہ ہاتھ ملاکر اسے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں بھی دھوکہ دینے کا مورچہ تیار کرلیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا عوام پھر ایک بار دھوکہ کھانے کی گنجائش رکھتے ہیں یا نہیں۔ شہر کے غریب اور متوسط لوگ پہلے ہی سے مقامی جماعت اور اس کے کارپوریٹرس کی لوٹ کھسوٹ سے مظلومیت کا شکار ہیں۔

جس بلدیہ میں ہزاروں کروڑ روپئے کی لوٹ کھسوٹ ہوئی ہے وہاں اچھے کاموں کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ شہر کو برباد کرکے رکھ دیا گیا، اس لئے ’’ شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا ‘‘ کی طرح یہ لوگ شہریوں کا نام لے کر ہی ان پر مسلط ہوتے چلے آرہے ہیں۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کی تیاری کرنے والے یہ قائدین عوام کو بے وقوف بنانے والی تقریر اور ایک دو اقوال یاد کرلیتے ہوئے ان کے سامنے حاضر ہونے والے ہیں۔ حیدرآباد کی شناخت واضح اور تاریخی حقیقت ہے لیکن اس شہر کے منافقین نے عوام کی اُمیدوں کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ جن لوگوں نے کھل کر قیام تلنگانہ کی مخالفت کی تھی اب وہی تلنگانہ میں خود کو سرخ رو کرنے کے بہانے تلاش کر فائدہ اُٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ حکومت وقت بھی اتنی مطلبی بن چکی ہے کہ وہ تلنگانہ کے قیام کی مخالفت کرنے والوں سے ہاتھ ملا کر شہر میں من مانی کررہی ہے۔ سرکاری محکموں میں بدعنوانیوں کا عفریت اب تمام شہریوں کے وسائل کو بھی کھارہا ہے۔ اس لئے شہریوں کی زندگی اجیرن بنتی جارہی ہے۔ نئے نئے محلے وجود میں آرہے ہیں لیکن ان کیلئے کوئی تعمیراتی منصوبہ نہیں ہے۔ حکومت اور مقامی جماعت کی خفیہ پالیسی یا سانٹھ گانٹھ یہ ہے کہ اوپر سے شور کرتے رہو اور نیچے خاموشی سے اپنے کام کرتے رہو، یعنی بدعنوانیوں ، خرابیوں پر اسمبلی میں شور کیا جائے اور باہر نکل کر اپنا کام خاموشی سے کریں۔ اب گریٹر حیدرآباد کے انتخابات کیلئے نئے سرے سے ڈرامے شروع ہوں گے جس میں ریاست اور شہر میں ترقی اور تعیناتی، ذاتی پسند اور ذاتی وفاداریوں کی بنیاد پر ناقص نظام بدعنوانی کو ہی پھیلائے گا، بلدی کام کچھ نہیں ہوں گے لیکن دعوے کروڑہا روپئے کے کئے جائیں گے۔ اپنے بلدی حلقوں میں کروڑ ہا روپئے کے کام انجام دینے کا دعویٰ کرنے والوں کو دوبارہ منتخب کریں گے یا مسترد کردیں گے، یہ ان کی قوت فیصلہ پر منحصر ہے تاہم عوام کی بڑی تعداد اتنی سادہ لوح ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی ہر خطاء اور ہر غلطی کو معاف کرکے ووٹ دیں گے جو حکمراںشہروں کی ترقی سے زیادہ ذاتی مقاصد کے لئے پوجا پاٹ میں مصروف رہ کر کروڑہا روپئے خرچ کرتے ہوں اور چنڈی یگنم کے لئے ضلع میدک میں اپنے فارم ہاوز پر زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ شخصیتوں کو مدعو کرکے وقت ضائع کرتے ہوں ایسے حکمرانوں کی ریاست میںخوشحالی کی توقع کرنے والے عوام یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی پوجا پاٹ میں کس حد تک شردھا پائی جاتی ہے۔ یہ کسی شخص کا معاملہ ہوتا تو اسے ذاتی قرار دیا جاتا تھا لیکن جب کسی ریاست کا حکمراں عوام کی اُمیدوں سے منتخب ہوکر آتا ہے تو وہ تلنگانہ کی ترقی پر توجہ دینے کے بجائے اس کے قیام کا جشن منانے کیلئے بے دریغ دولت خرچ کرے تو پھر ایسے اظہار تشکر والے اجتماعات سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر نے اپنے چنڈی یگنم کیلئے تقریباً 1500 پجاریوں کو مدعو کیا ہے اور اس یگنم میں شرکت کرنے والے مہمانوں کے طعام کیلئے 150 باورچیوں کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔ اس پانچ روزہ تقریب میں 50,000 سے زائد افراد شرکت کریں گے اور ان 50ہزار مہمانوں کیلئے تین وقت کا پیٹ بھر کر کھانے کا انتظام ہوگا۔ جب تلنگانہ کا غریب بھوکا رہے گا تویہی تلنگانہ ان امیروں کاپیٹ بھرے گا، بھگوانوں کو خوش کرنے کیلئے پیٹ بھروں کو جمع کرنا حقیقی شردھا نہیں کہلاتی بلکہ غریبوں کی مدد کرنے پر بھگوان خوش ہوتے ہیں۔ اس ریاست کا غریب کے سی آر کو بھگوان سمجھ کر منتخب کیا ہے تو اپنے عوام کے سکھ چین کا خیال رکھنا ان کا فرض ہے، لیکن فرض اور ذمہ داری کا درس اب پرانا ہوچکا ہے، عوام کو درس دینا بھی آتا ہے اور سبق سکھانا بھی جانتے ہیں۔ اگر انہیں یہ محسوس ہوکہ ان کا حکمراں انہیں خاطر میں نہیں لارہا ہے تو پھر گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات واقعی ٹی آر ایس کے لئے گریٹر شکست کا باعث ہوں گے۔ حیدرآباد کیلئے جو وعدے کئے گئے تھے اور مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات کا جو انگوٹھا دکھایا گیا ہے اس کا غم و غصہ فروغ پاجائے تو حالات کا رُخ بدل سکتا ہے۔ فی الحال ٹی آر ایس تلنگانہ کی ناقابل تسخیر پارٹی بنی ہوئی ہے۔ درحقیقت کے سی آر کے اندر چیلنجس سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے، انہوں نے حصول تلنگانہ کیلئے 12سالہ جدوجہد کے دوران جس صبر و تحمل کا درس حاصل کیا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کی شدید نکتہ چینی کو بھی صبر و تحمل سے ہضم کرجارہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ورنگل لوک سبھا ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد کے سی آر کے رویہ میں بھی بڑی تبدیلی اور وہ خود کو اب ناقابل شکست لیڈر تصور کرنے لگے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اگر وہ اپنے ترقیاتی ایجنڈہ کو شدت کے ساتھ انجام دیں تو عوام کا بھلا ہوسکتا ہے۔بلا شبہ اقلیتوں کو ان کی اسکیمات سے فائدہ ہورہا ہے۔ ’شادی مبارک‘ اسکیم کے بجٹ میں اضافہ، اوورسیز اسکالر شپ کے دوسرے مرحلے کی درخواستوں کی طلبی اور ضلع میدک میں اردو گھر اور شادی خانہ کے لئے رقم کی اجرائی جیسے فیصلے نظرانداز نہیں کئے جاسکتے۔ اسی طرح 12فیصد تحفظات کا وعدہ بھی پورا کردیتے ہیں تو مسلمانوں کی بڑی تعداد کو زبردست نہ سہی لیکن کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوگا۔آنے والے دنوں میں اگر کے سی آر نے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن انتخابات میں بازی مارلی تو پھر آئندہ چار سال تک کوئی پرندہ بھی پر نہیں مارسکے گا۔

حیدرآبادکو اسمارٹ سٹیز کی فہرست سے نکال دینے کے حکومت تلنگانہ کے فیصلہ کی مدافعت کرتے ہوئے چیف منسٹر نے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ حیدرآبادکو اسمارٹ سٹی نہیں بلکہ اے ون سٹی بنانے کی تجویز رکھی گئی ہے اس لئے مرکز سے مزید فنڈس مختص کرنے کی درخواست کی جارہی ہے۔ مرکزی حکومت اسمارٹ سٹیز کی ترقی کیلئے100 کروڑ روپئے سالانہ فراہم کرے گی جبکہ حیدرآباد کو اے ون سٹی کا درجہ دیا جائے تو اس سے زائد رقم مل سکتی ہے۔ تلنگانہ حکومت نے حیدرآباد کے بجائے کریم نگر کو اسمارٹ سٹی بنانے کی تجویز رکھی ہے۔ حیدرآباد پہلے ہی سے حکمراں پارٹی کی بے توجہی کا شکار ہوا ہے یہاں شہریوں کو نت نئے مسائل درپیش ہیں۔ کئی علاقے پینے کے پانی کی قلت سے دوچار ہیں تو سڑکوں کی مرمت کا کام نہیں ہورہا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے 625مربع کیلو میٹر تک پھیلے ہوئے شہر کیلئے ایک بہترین نظم و نسق کی ضرورت ہے۔ موجودہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کو دونوں شہروں کی تمام آبی و ڈرینج سہولتوں کی فراہمی کیلئے 15000 کروڑ درکار ہیں جبکہ مرکزکی جانب سے صرف 100کروڑ روپئے کا فنڈ اسمارٹ سٹیز پراجکٹ کے تحت دیا جائے گا۔ جی ایچ ایم سی کے 50فیصد علاقہ میں ڈرینج کے ناقص انتظامات ہیں۔ حیدرآباد میں بلدی سہولتوں کامسئلہ دیرینہ ہے۔ ہر دور میں حکمراں پارٹی خود کو حیدرآباد کی ترقی کی ہمدرد کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مقامی جماعت سے ہاتھ ملا کر من مانی کام انجام دیتے ہوئے کھوکھلے دعوے کئے جاتے رہے ہیں۔ مرکزی حکومت نے حیدرآباد میں بنیادی بلدی سہولتوں کا جائزہ لیتے ہوئے2011 میں ڈاکٹر اہلوالیہ کمیٹی بنائی تھی اس کمیٹی نے شہر کو ترقی دیتے ہوئے 30,370 کروڑ روپئے کے فنڈس کی سفارش کی تھی لیکن اس سفارش کا کوئی اثر نہیں ہوا تاہم گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کا بجٹ ہی 5500 کروڑ روپئے کا ہے لیکن وہ اپنے اس بجٹ کے ذریعہ شہریوں کو بہتر خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
kbaig92@gmail.com