تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
دو تلگو ریاستوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کے مشترکہ گورنر کی حیثیت سے اپنی میعاد پوری کرنے والے ای ایس ایل نرسمہن کو دوبارہ گورنر مقرر کرنے کی مہم جاری ہے۔ حکومت تلنگانہ اور مرکز سے ان کی میعاد میں توسیع کے فیصلہ کا انتظار کررہی ہے۔ آندھرا پردیش کی تقسیم کے عمل کو پُرامن بنانے میں ان کے رول کی ستائش کرتے ہوئے سیاسی صفوں میں جو خیال پیدا ہوا ہے اب اس کی ایک سیاسی پارٹی مخالفت کررہی ہے۔نائب صدر جمہوریہ کیلئے بھی ان کے نام کو زیر غور لایا جارہا تھا لیکن اپنے اپنے مفاد کے زیر اثر اپنی اپنی خواہشات کے تابع سیاسی پارٹیوں نے سچے اور جھوٹے کی پہچان ختم کردی ہے۔ کسی بھی عاقل بالغ کے بارے میں گمراہ کن باتیں پھیلائی جائیں تو اس کے اثرات نہیں ہوتے البتہ کسی نادان کے بارے میں گمراہ کن مہم چلائی جائے تو اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ کسی ریاست میں سیاسی نظم و نسق لاپرواہی کا شکار ہوتی ہے تو اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ گورنر کی میعاد میں توسیع کے لئے کوشاں حکمراں طبقہ اپنے عوام کو راحت پہنچانے میں اس طرح ناکام ہوگیا ہے۔ تلنگانہ میں خاص کر دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں بارش سے شہریوں کو ماضی سے بھی زیادہ بھیانک تجربات سے گذرنا پڑا ہے۔ جگہ جگہ کھڈ اور زیر آب سڑکوں نے راہروؤں کو مسائل سے دوچار کردیا۔ شہر کے کئی علاقوں میں سڑکیں ہی غائب دیکھی گئیں۔ اگرچیکہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے سڑکوں کو کھودنے پر پابندی لگادی ہے لیکن اس نے میٹرو ریل کے لئے کھدائی کی اجازت دے کر اہم شاہراہوں کو کھڈ میں تبدیل کرلیا ہے۔ سکندرآباد، حیدرآباد اور سائبر آباد کے علاقے موٹر رانوں کے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔
مدینہ، بیگم بازار، نامپلی، ایک مینار مسجد، نامپلی ریلوے اسٹیشن، مانصاحب ٹینک، لکڑی کا پُل، این ایم ڈی سی، ہائی ٹیک سٹی، آصف نگر اور منگل ہاٹ کے علاقے عبورو مرورکے قابل نہیں رہے۔ شہریوں نے بارش اور بلدیہ کی لاپرواہی کی منہ بولتی تصاویر کو سوشیل میڈیا پر پیش کیا ہے۔ پنجہ گٹہ فلائی اوور میں سوراخ پڑ چکے ہیں جس میں بارش کا پانی ٹپک رہا ہے۔ جی ایچ ایم سی نے سڑکوں کی تعمیر کیلئے1611.45 کروڑوروپئے مختص کئے تھے۔گزشتہ سال ہی اس نے 110.73کروڑ روپئے خرچ کئے گئے تھے اس کے باوجود سڑکیں شہریوں کی زندگیوں کے لئے خطرہ بنتی جارہی ہیں۔ سیاستدانوں کو اس کی خبر ہی نہیں ہے اور نہ ہی اپوزیشن پارٹیوں نے اس کا نوٹ لیا ہے۔ اپوزیشن پارٹی کی حیثیت سے کانگریس نے صرف بیان بازی کا ہی سہارا لیا ہے۔ اس کے قائدین نے ٹی آر ایس حکومت اور اس کے لیڈروں کو تنقید کا نشانہ بنایا ۔ وزیر آئی ٹی و بلدی نظم و نسق کے ٹی آر کو ’’ پھیکو راؤ ‘‘ کا لقب دیا ہے کیونکہ حکومت اور ان کی وزارت نے شہر حیدرآباد کی ترقی کا وعدہ کیا تھا۔ بلدی انتخابات میں سب سے زیادہ کارپوریٹرس کو منتخب کرنے میں کامیاب ٹی آر ایس نے شہر کوکھنڈر اور کوڑے دان میں تبدیل کردیا ہے۔ اتنا ہی نہیں ٹی آر ایس حکومت میں شہر حیدرآباد منشیات کا اڈہ بن گیا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے علاوہ تلگو فلمی صنعت سے وابستہ اہم شخصیتوں کی ڈرگ مافیا سے وابستگی نے حکمراں طبقہ کی جانب انگلیاں اٹھنے کا موقع دیا ہے۔ اکسائیز ڈپارٹمنٹ کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے تلگو فلمی صنعت سے وابستہ 12 آرٹسٹوں کو سمن جاری کیا اور اس دوران منشیات کے مزید دو ریاکٹ کو بے نقاب کیا گیا۔ اسکولی بچوں کے بیاگس کے بوجھ کو کم کرنے کی فکر رکھنے والی حکومت کو اسکولوں میں منشیات کے چلن کی فکر بھی کھائی جارہی ہے۔ شہر میں سرمایہ کاروں کو لانے میں ناکام حکومت منشیات کے ریاکٹس سے بے خبر ہے۔ بارش، گندگی، کچرا، تعفن اور بیماریاں شہر کی نشانی بنتے جارہے ہیں۔ بیرونی ملک مقیم حیدرآبادی جب اپنے شہر واپس ہوتے ہیں تو انھیں طرح طرح کی باتیں اور مسائل کے بارے میں دوران سفر ہی معلوم ہوتی ہیں۔ اسی طرح ایک غیر مقیم شہری اپنے وطن واپس ہورہا تھا تو اسے دوران سفر طیارہ میں مکھی تنگ کررہی تھی۔ اس نیے اپنے بازو بیٹھے دوسرے مسافر سے سوال کیا کہ وہ حیدرآباد کیوں واپس ہورہا ہے تو اس نے کہا کہ سنا ہے حیدرآباد میں نوکریاں بہت ہیں، دوسری جانب بیٹھے شخص سے بھی سوال کیا تو اس نے کہا کہ سنا ہے حیدرآباد میں بزنس بہت ہے کاروبار کرنے جارہا ہوں۔ پھر اچانک مکھی اس مسافر کی ناک پر بیٹھ گئی تو وہ جھلا گیا۔ اس نے سوال کیا کہ وہ حیدرآباد کیوں جارہا ہے تو اس نے کہا سنا ہے حیدرآباد میں کچرا بہت ہے۔ صاف ستھرا شہر اب کوڑادان، کھڈوں، نالوں میں تبدیل ہوگیا ہے۔
جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد شہریوں کو ہر شئے پر زائد رقم ادا کرنی پڑرہی ہے۔ جی ایس ٹی کے باوجود شادی خانوں میں مہمانوں کی تواضع میں کوئی کمی نہیں آئی، اور دسترخوان پر سیر ہوکر کھانے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ حیدرآباد کے شادی خانوں کی دعوت کھانے کیلئے دوسری ریاستوں کے دوستوں اور مہمانوں کو بھی مدعو کیا جارہا ہے۔ ممبئی سے ایک دوست آیا تو حیدرآبادی دوستوں نے روایتی محبت کا مظاہرہ کیا۔ دستر خوان پر ملائی پایہ سے برتن بھردیا ، پھر چکن تکہ، تندوری چکن کی سیر کروائی، فروٹ کا میٹھا، آئسکریم، ربڑی ملائی کے ساتھ کھلایا۔ اس کے بعد دوستوں نے گرما گرم چائے اور مزیدار میٹھے پان سے بھی تواضع کی۔اتنا محبت بھرا کھانا کھاکر ممبئی کا دوست پیٹ پکڑ کر بے ہوش ہوگیا تو اسے ہاسپٹل لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس کے کھانے کے آئٹم کی فہرست تیار کرکے علاج معالجہ کا جوبل بنایا اس میں میں جی ایس ٹی بھی لگادی۔
وقف بورڈ کے نئے چیرمین نے جب سے چارج لیا ہے ہر روز نئی خبریں آرہی ہیں۔ وقف بورڈ کی آمدنی بڑھانے کی فکر نے سڑکوں پر پہنچادیا ہے۔کرایہ وصول کرنے کیلئے وہ وقف بورڈ کے ڈھٹ کرایہ داروں کو نوٹس دے چکے ہیں۔ مگر وہ کرایہ وصول کرسکیں گے یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ کرایہ وصولی کیلئے جب بورڈ کے چیرمین کو در در بھٹکنے کی نوبت آچکی ہے تو وقف اراضیات پر قابض لینڈ مافیا کے قبضہ سے یہ جائیدادیں کس طرح حاصل کی جاسکیں گی۔ حیدرآباد میں حضور نظام کی عطیہ کردہ وقف جائیدادوں پر قبضے کرنے والوں نے سرکاری ریکارڈز بھی غائب کردیئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ شہر میں 62 بڑی جائیدادیں ایسی ہیں جن میں سے 26 پر ناجائز قبضے ہیں۔ نظام اسٹیٹ کی اراضیات پر اب ریاستی حکومت نے قبضہ کرلیا ہے۔پہاڑی شریف کے قریب 2,132 ایکڑ اراضی کا اب سرکاری ریکارڈ ریاست حکومت کی ملکیت بتارہا ہے۔ ریاستی وقف بورڈ میں اراضیات حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ جب حکومت ان وقف جائیدادوں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے تو حکومت کے نور نظر بن کر وقف بورڈ کی ذمہ داری سنبھالنے والے بھی وقف اراضی پر سے حکومت کے قبضہ کو برخاست کیونکر کرلیں گے۔
ان دنوں پارٹی کے وفادار کارکنوں کی چاندی ہے۔ حکمراں پارٹی کا وفادار کارکن کونسا بھی عہدہ حاصل کرسکتا ہے یا پھر کسی بھی کارپوریشن کا ذمہ دار بنادیا جاتا ہے ۔کارکن کو حکومت میں مرکزی مقام ملنا مشکل ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا عہدہ لے کر خوش ہوتا ہے۔ ایک صحافی کے دوست کے ہاتھ میں سونے کا لوٹا تھا، واہ بہت خوبصورت ہے ، اس نے تعریف کی۔ دوست نے کہا کہ یہ واقعی خوبصورت ہے ، وہ مسکرایا اور لوٹا سنبھال کر چل پڑا ۔ صحافی نے سوال کیا کہ کہاں جارہے ہو،دوست نے کہا واش روم ، اور کہاں، صحافی کو حیرت ہوئی اور چیخ اٹھاباؤلے انسان واش روم کیوں لے جارہے ہو ؟ ڈرائینگ روم میں سجاکر رکھو، یہ لوٹا منفرد ہے۔ یہ قیمتی لوٹا ہے، یہ سونے کا لوٹا ہے۔ دوست نے حیرت سے اپنے صحافی دوست کو دیکھا پھر منہ بناکر کہا ’’ بے شک سونے کا ہے لیکن ہے تو لوٹا ہی نا … ‘‘۔
kbaig92@ gmail.com