شہریار 1936-2012

میرا کالم مجتبیٰ حسین
شہریارؔ سے میری شخصی دوستی کچھ زیادہ پرانی نہیں ہے ۔ پانچ سال پہلے میرے دوست ڈاکٹر حسن عسکری علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ سماجیات میں ریڈر بن کر حیدرآباد سے علی گڑھ آئے تو ایک دن میں اُن سے ملنے کیلئے یونہی علی گڑھ چلا گیا ۔ شہریار بھی حسن عسکری کے یہاں یوں ہی چلے آئے اور میری اُن سے یونہی ملاقات ہوگئی۔ جو دوستیاں بس یونہی شروع ہوجاتی ہیں ، وہ ہمیشہ اچھی ہوتی ہیں۔ حسن عسکری اگرچہ اب لندن چلے گئے ہیں لیکن جو لوگ حسن عسکری سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ حسن عسکری سے ملنے کے بعد آدمی کو کسی اور سے ملنے کی حاجت نہیں رہ جاتی ۔ بڑی دل نواز اور سحر انگیز شخصیت کے مالک ہیں مگر شہریار غالباً وہ واحد شخصیت ہیں جن سے حسن عسکری کی موجودگی میں بھی ملنے کو جی چاہا ۔ رات حسن عسکری کے گھر پر محفل سجی ۔ عسکری نے اپنی باتوں کا جادو جگایا ۔اس کے بعد شہریار نے اپنی شاعری کا جادو کچھ اس طرح جگایا کہ ہم لوگ ساری رات جاگتے رہے۔ صبح ہونے لگی تو شہریار جانے لگے ۔ میں نے پوچھا ’’کہاں جایئے گا ؟ ‘‘ بولے ’’یونیورسٹی کلب جارہا ہوں ‘‘۔
معلوم ہوا کہ یہ اب کلب جائیں گے اور تاش کھیلیں گے ۔ دوسرے دن دوپہر میں حسن عسکری کے ساتھ یونیورسٹی کلب گیا تو دیکھا کہ شہریار بڑے انہماک کے ساتھ تاش کھیل رہے تھے ۔ تیسرے دن میں دہلی واپس ہونے لگا تو سوچا کہ شہریار سے مل لوں ۔ ان کے گھر گیا تو بھابی (مسز نجمہ شہریار) نے بتایا کہ وہ یونیورسٹی کلب میں تاش کھیل رہے ہیں۔ مگر میں ان سے ملنے کے لئے یونیورسٹی کلب نہیں گیا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ وہ اسی ٹیبل پر اسی انہماک کے ساتھ تاش کھیل رہے ہوں گے۔

شہریار سے یہ میری پہلی ملاقات تھی ۔ میں اُن کی شاعری کا پرانا مدّاح تو تھا ہی لیکن تاش کیلئے اُن کے انہماک کو دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ جو شخص تاش کیلئے اتنا سنجیدہ ہوسکتا ہے ۔ وہ دوستی کیا خاک کرسکے گا ۔ مگر اس کے بعد شہریار ایک دن اچانک دہلی آگئے اور اتفاق سے میرے دفتر کے گیسٹ ہاؤس میں مقیم ہوئے ۔ اس وقت انہوں نے احساس دلایا کہ جس انہماک کے ساتھ وہ تاش کھیلتے ہیں اسی انہماک کے ساتھ دوستی بھی کرسکتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ جب دوستی کرتے ہیں تو تاش نہیں کھیلتے اور جب تاش کھیلتے ہیں تو دوستی نہیں کرتے۔ اس کے بعد سے شہریار سے کئی ملاقاتیں علی گڑھ اور دہلی میں ہوچکی ہیں۔ وہ دہلی آنے والے ہوتے ہیں تو میں اُن کیلئے آنکھیں بچھاتا ہوں اور جب میں علی گڑھ جانے والا ہوتا ہوں تو وہ میرے لئے آنکھوں کے علاوہ دل بھی بچھاتے ہیں۔ شہریار ایک سچے بے نیاز آدمی ہیں۔ اپنی شاعری سے بے نیاز اپنی زندگی سے بے نیاز اورا پنے گھر سے بے نیاز ۔ نہ شہرت کی طلب ، نہ عہدے کی ہوس ، نہ پیسے کالالچ، نہ مرتبہ کی حرص۔ ایسا آدمی عموماً اپنے گھر میں نزاعی اور سماج میں ہمیشہ غیر نزاعی ہونے کے سارے نقصانات برداشت کرتا ہے ۔ ایک زمانہ تھا جب غیر نزاعی آدمی فائدے میں رہتا تھا مگر اب نزاعی آدمی فائدے میں رہتا ہے ۔ نزاعی آدمی سے لوگ ڈرتے ہیں اور جن کی خاطر وہ نزاعی بنتا ہے وہ اس کے مفادات کا تحفظ بھی کرتے ہیں جبکہ غیر نزاعی آدمی زندگی کا سفر کچھ اس طرح طئے کرتا ہے کہ
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
شہریار کو میں نے ہر حلقے اور ہر گروہ میں غیر نزاعی پایا ہے ۔ وہ ایک ایسا گھاٹ ہیں جس پر شیر اور بکری دونوں ایک ساتھ پانی پیتے ہیں۔ شہریار کی اس ادا کے باعث میں جب بھی علی گڑھ جاتا ہوں تو انہی کے پاس ٹھہرتا ہوں اور حتی المقدور انہیں نقصان پہنچاتا ہوں۔ شہریار کی جن خصوصیات کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے ، اُن کے تقاضے کے طور پر شہریار زندگی کو بہت دھیمے انداز میں برتتے ہیں۔ نہ زندگی میں کچھ پانے کی جلدی اور نہ ہی کچھ بننے کی عجلت۔
وہ ہمہ وقتی شاعر نہیں ہیں۔ خود سے کبھی شعر نہیں سناتے۔ بہت اصرار کیا تو کسی غزل کے دو چار شعر سنادیں گے ۔ داد سے بے نیاز ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ کسی شعر پر داد دی جائے تو جھک جھک کر سلام نہیں کرتے ۔ وہ خاص صحبتیں اور خاص لمحے ہوتے ہیں جب شہریار ترنم سے کلام سناتے ہیں۔ میں نے ایسی خاص صحبتوں اور خاص لمحوں کا کافی لطف اٹھایا ہے ۔ شہریار سے جب میری ملاقات ہوئی تھی تو فلموں سے ان کا تعلق پیدا نہیں ہوا تھا ۔ ا یک دن اچانک پتہ چلا کہ شہریار فلم ’’گمن ‘‘ کیلئے گیت لکھ رہے ہیں۔ فلم ریلیز ہوئی تو میں نے بطور خاص یہ فلم دیکھی ۔ میں فلمیں بہت کم دیکھتا ہوں اور وہ بھی صرف ایسی فلمیں دیکھتا ہوں جن کے بارے میں پتہ ہو کہ اس کے گیت یا مکالمے کسی دوست نے لکھے ہوں۔ ایک تلخ تجربہ کے بعد میں نے ایسی فلموں کو بھی دیکھنا ترک کردیا ہے۔ میرے ایک دوست نے ایک فلم کی کہانی اور مکالمے لکھے تھے اور میرے علاوہ کئی دوستوں سے خو اہش کی تھی کہ جب فلم ریلیز ہو تو اسے ضرور دیکھنا ۔ دوست کا دل رکھنے کیلئے میں وقت آنے پر ہندوستانی فلمیں بھی دیکھ لیتا ہوں۔ سو ہم چار احباب مل کر یہ فلم دیکھنے گئے ۔ شو کا وقت شروع ہوا تو دیکھا کہ تھیٹر خالی ہے اور فلم کے مکالمہ نگار کے صرف چار احباب تھیٹر میں موجود ہیں ۔ فلم کو ساڑھے چھ بجے شروع ہونا تھا مگر سات بجے تک بھی فلم شروع نہ ہوئی ۔ تھوڑی دیر بعد تھیٹر کا مینجر ہمارے پاس آیا اور ہمارے دوست کا نام لے کر کہنے لگا ’’آپ لوگ غالباً فلم کے مکالمہ نگار کے دوست معلوم ہوتے ہیں‘‘۔ ہم نے کہا ’’بے شک ہم ان کے دوست ہیں‘‘۔
مینجر بولا ’’صاحب ! ایک احسان اپنے دوست کی خاطر یہ کیجئے کہ یہ فلم نہ دیکھئے ۔ آپ نے جو ٹکٹ خریدے ہیں اس کے چار گنادام میں آپ کو دینے کیلئے تیار ہوں۔ کوئی اچھی سی فلم دیکھ لیجئے ۔ آپ چار اصحاب کیلئے فلم چلاؤں تو دو ڈھائی سو روپئے کا خرچ آجائے گا ۔ ہم پر احسان کیجئے پلیز ‘‘۔
اور اس کے بعد ہم نے مینجر سے چار گنا دام وصول کئے اور بڑی اچھی سی شام گزاری۔ شہریار کی فلم بھی میں اس خیال سے دیکھنے گیا تھا کہ فلم دیکھنے سے پہلے شاید ٹکٹ کے چار گنا دام مل جائیں اور شام اچھی سی گزرجائے ۔ مگر بڑی مایوسی ہوئی ۔ اس دن یقین آیا کہ ہمارے احباب بھی فلموں کیلئے اچھی غزلیں اور اچھے گیت لکھ سکتے ہیں۔
میں نے سوچا تھا کہ فلموں میں گیت لکھنے کے بعد شہریار راہِ راست پر آجائیں گے اور اپنی روایتی بے نیازی سے بے نیاز ہوجائیں گے مگر میں نے دیکھا کہ فلموں میں گیت لکھنے کے باوجود وہ جیوں کے تیوں برقرار ہیں، یہ اور بات ہے کہ اب ان کی شہرت ادبی حلقوں سے نکل کر عام حلقوں میں پھیل گئی ہے ۔ کہیں یہ جاتے ہیں اور لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ یہ ’’گمن‘‘ والے شہریار ہیں تو فوراً فرمائش شروع ہوجاتی ہے کہ ’’صاحب ! ’گمن‘ کے گانے سنایئے ‘‘۔

ان کی غزل ؎
سینے میں جلن آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے
اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے
کا ریکارڈ اتنا مقبول ہوا کہ بچہ بچہ اب ’’سینے میں جلن ‘‘ کی شکایت کرتا ہے ۔ اکثر ایسا ہوا کہ کسی پنواڑی کی دکان پر پان خرید رہے ہیں کہ اچانک ریڈیو سے شہریار کا ’’یہ سوالنامہ ‘’ بجنا شروع ہوگیا کہ ’اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے ؟ ‘‘۔ ہم نے پان کھاتے کھاتے پنواڑی کے کان میں اطلاع دی کہ ’’ میاں اس گانے میں جتنے مشکل سوالات پوچھے گئے ہیں ان کے پوچھنے والے صاحب یہی ہیں ‘‘۔ بس پھر یہ ہوتا ہے کہ پنواڑی بڑی توجہ سے پان بناتا ہے ۔ اپنے ہاتھوں سے کھلاتا ہے، دو چار فاضل پان ہمارے ہاتھ میں تھماتا ہے ، ہمارے پسندیدہ سگریٹ کی ڈبیاں بھی دے دیتا ہے اور آخر میں ہم سے پیسے نہیں لیتا ۔ پھر اس کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ ’’اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے ؟ ‘‘ شہریار ہم سے شکایت کرتے ہیں کہ ہم ان کیلئے اتنے سارے پان اور اتنی ساری ڈبیاں کیوں خرید لیتے ہیں۔ اب انہیں کیسے بتایا جائے کہ اس سوال کا جواب خود ان ہی کے گیت میں پوشیدہ ہے۔ جب سے شہریار کے گیت مقبول ہوئے ہیںلوگ ہر محفل میں انہیں سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ چونکہ دہلی میں وہ میرے ہاں ٹھہرتے ہیں اس لئے اکثر لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جب بھی دہلی آئیں تو انہیں لے آؤں۔ ا یک بار دہلی کی ایک مشہور و معروف مغنّیہ کے گھر شہریار گئے ۔ مجھے بھی ساتھ لے گئے ۔ شہریار کی آڑ میں میری بھی خوب آؤ بھگت ہوئی ۔ مغنّیہ نے مجھ سے پوچھا ’’آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘
میں نے کہا ’’شہریار کے مصرعے اٹھاتا ہوں‘‘۔
وہ بولی ’’بڑے خوش نصیب ہیں آپ ورنہ ان کے مصرعے اٹھانے کی سعادت کسے نصیب ہوتی ہے‘‘۔ بہت دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ جب جانے کا وقت آیا تو شہریار نے مغنّیہ سے کہا’’اگر آپ کے کچھ لانگ پلیٹنگ ریکارڈس ہوں تو بجا دیجئے ۔ ہم بھی آپ کی آواز سن لیں گے‘‘۔
مغنّیہ بولی’’اس وقت ہمارا ریکارڈ پلیئر خراب ہے مگر میں تو خراب نہیں ہوں۔ میں تو آپ کیلئے گا سکتی ہوں‘’۔
اس کے بعد محترمہ نے ہارمونیم سنبھال کر جو گانا شروع کیا تو سماں باندھ دیا ۔ اس قدر خوبصورت آواز تھی کہ بس کچھ نہ پوچھئے ۔ میں داد دیتے دیتے تھک سا گیا مگر شہریار خاموش بیٹھے رہے۔ میں نے آہستہ سے کان میں کہا ’’یہ کیا مذاق ہے ۔ داد تو دیجئے ‘‘۔ جواباً آہستہ سے میرے کان میں بولے ’’کیسے داد دوں ، کمبخت نے میری ہی غزل چھیڑ دی ہے ۔ داد کہیں اپنے ہی کلام پر دی جاتی ہے ؟ ‘’
اس رات مغنّیہ موصوفہ نے بڑی دیر تک محفل جمائی اور شہریار کو داد دینے کا موقع نہ دیا۔ ساری غزلیں شہریارکی سنائیں۔
شہر یار خاموش خاموش سے بے نیاز بیٹھے رہے ۔ مغنیہ کے گھر سے باہر نکلنے کے بعد میں نے شہریار سے کہا ’’اب آپ اطمینان رکھیں۔ آپ کا کلام مناسب ہاتھوں میں چلا گیا ہے ۔ یہ سینہ بہ سینہ اور گوش بہ گوش زمانے میں چلتا رہے گا ۔ اچھا ہی ہوا کہ آپ کا کلام ناقدوں کے ظالم ہاتھوں سے نکل کر ان نازک ہاتھوں میں پہنچ گیا ہے جہاں یہ ہمیشہ محفوظ رہے گا‘‘۔
شہریار اس جملے کو سننے کے بعد کچھ نہ بولے۔ صرف اتنا کہا ’’بھیا ! صرف اتنا خیال رکھنا کہ علی گڑھ آؤ تو نجمہ (مسز نجمہ شہریار) سے اس بات کاذکر نہ کرنا‘‘ ۔ چنانچہ میں اب تک اپنے وعدے پر قائم ہوں اور آئندہ بھی قائم رہوں گا۔
شہریار نجمہ بھابی کا بہت زیادہ خیال رکھتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ بھابی کو اس کی اطلاع نہیں ہوپاتی کیونکہ ہر بے ضرر حرکت کے بعد وہ اپنے کسی نہ کسی دوست سے یہ وعدہ لے لیتے ہیں کہ وہ اس کی اطلاع نجمہ بھابی کو نہیں دیں گے۔

کبھی وہ دہلی آتے ہیں اور ان سے مزید دو ایک دن رُکنے کیلئے کہا جائے تو نجمہ بھابی کے پریشان ہونے کا حوالہ دے کر فوراً سامان سفر سمیٹ لیتے ہیں۔ بس یہی ایک معاملہ ہے جس میں میں نے شہریار کو فکرمند پایا ورنہ وہ زندگی کو بڑی بے فکری کے ساتھ برتنے کے عادی ہیں۔ بے فکری کی مثال یہ ہے کہ ان کے کئی شاگردوں نے پی ایچ ڈی کرلی ہے مگر یہ اب تک اس تہمت سے پاک ہیں (تازہ افواہ یہ ہے کہ انہوں نے بالآخر پی ایچ ڈی کرلی ہے ۔ پتہ نہیں اب وہ اس ڈگری کا کیا کریں گے)
شہریار زندگی میں منصوبہ بندی کو ضروری نہیں سمجھتے۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی مگر ضروری باتوں کا خیال نہیں رکھتے۔ اگر اپنے گھر پر پانچ احباب کو کھانے پر بلانا ہو تو پندرہ بیس احباب کو جمع کرلیں گے۔

شہریار کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ ا پنے شاگردوں کو شاگرد نہیں دوست سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے اکثر شاگرد بعد میں شاعر اور ادیب میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ شہریار کی معرفت ہی علی گڑھ کے نوجوان ادیبوں اور شاعروں سے میری ملاقات ہوچکی ہے ۔ شہریار شاعر تو اچھے ہیں ہی مگر میں انہیں ایک اچھے انسان اور اچھے دوست کی حیثیت سے زیادہ پسند کرتا ہوں اور اسی لئے ان کی دوستی کی بڑے جتن سے حفاظت کرتا ہوں۔ (1980 ئ)
پس نوشت
شمالی ہند میں شہریار میرے عزیز ترین دوستوں میں شامل تھے۔ اُن پر میں نے بیسیوں کالم لکھے ۔ مختلف موقعوں کیلئے۔ ان سے میری دوستی کا عرصہ چالیس برس کا بنتا ہے۔ انہیں بے شمار انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا ۔ وہ دنیا میں کہیں بھی جاتے تو ہر دوسرے دن مجھے فون کرتے تھے۔ اُن کی جان لیوا بیماری کے عرصہ میں بھی بسا اوقات مجھے وہ فون کرتے تھے اور میں تقریباً ہر دوسرے دن انہیں فون کرلیتا تھا ۔ انہوں نے کبھی اپنی بیماری کا ذ کر نہیں کیا۔ یہی کہا کرتے تھے کہ وہ اچھے ہیں حالانکہ آخری زمانہ میں ان کی آواز بہت ہی نحیف و نزار ہوگئی تھی۔ علی گڑھ میں شہریار سے پہلی ملاقات کے کچھ عرصہ بعد میں نے ان کا جو خاکہ لکھا تھا وہ اوپر پیش کیا گیا ہے۔
(مجتبیٰ حسین)