شہروں میں مودی کو حمایت ‘ دیہاتوں میں ذات پات کاکھیل

تقسیم ہند کے دوران لگے زخموں کی یاد میں اگر ایک معمر شخص بی جے پی کی حمایت کرتا ہے تو ایک نوجوان کو یہ ماننا ہے کہ مودی ہی ہندوستان کی حفاظت میں صحیح ہے۔

نئی دہلی۔ قومی درالحکومت کے شہری علاقوں میں اب بھی 2014کا نغمہ بج رہا ہے ’ مودی ‘ مودی ‘ مودی ‘۔جہاں تک ایک بعد دیگر سوسائٹیوں‘ اور نوائیڈا کی اونچی عمارتوں یا پھر گریٹر نوائیڈا میں کئے گئے سروے کی بات ہے ‘ جوکہ گوتم بدھ نگر لوک سبھا حلقہ کا حصہ ہے اور اندرا پورم‘ یا غازی آباد میں ویشالی کا علاقہ ہے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وز یراعظم نریندر مودی دوبارہ اقتدار میں ائیں گے۔

اگر ایک معمر شخص آر ایس ایس اور بی جے پی سے اپنی محبت کا اظہار تقسیم ہند کے زخموں کو بھرنے کے لئے کرتا ہے تو ایک پیشہ وار نوجوان کایہ ماننا ہے کہ مودی ہی خارجی اور داخلی طور پر ہندوستان کی حفاظت کے اہل ہیں۔

کئی صنعت کار نوٹ بندی پر اپنا شدید برہمی ظاہر کررہے ہیں مگر اس بات کو بھی تسلیم کررہے ہیں کہ سماج وادی پارٹی‘ بہوجن سماج پارٹی الائنس یاپھر کانگریس کو وٹ دینا مشکل ہے۔

غازی آباد کے ایک بے روزگار نوجوان رمیش گپتا کاموڈ مودی بھگت کی طرح لگ رہاتھا۔ انہوں نے کہاکہ’’ ہم انہیں کام کی بنیادنہیں دیکھ رہے ہیں۔ ہاں ان کامظاہرہ نہایت خراب تھا۔کاروبار تباہ ہوگئے اور کوئی نوکریاں بھی نہیں ہیں۔

مگر ملک کو مودی کی ضرورت ہے‘‘۔جب ان سے پوچھاگیا کیوں تو انہوں نے کہاکہ’’ مسلمان اچھلنے لگے سپا ‘ بسپا کے راج میں‘‘۔ نوائیڈا کے پاس مال میں چھ سے سات لوگ میں بھی مودی کے حامی دیکھائی دئے ۔

یہاں تک چھوٹی فیکٹری کے ورکرس بھی جو بڑی مشکل سے ماہانہ چھ سو روپئے کی کمائی کرتے ہیں نے کا مانا ہے کہ ’’ دنیابھر میں ہندوستان کے وقار کو اونچارکھنے‘‘ میں مودی نے اہم رول ادا کیاہے۔

جب ان سے پوچھا گیاکہ کیاآپ کی روز مرہ کی زندگی کے معیار میں کوئی تبدیلی ائی ہے تو کسی نے بھی مثبت جواب نہیں دیا ۔ایک نے کہاکہ’’ دہشت گردی کا خوف کم ہوا ہے‘‘۔

ایک او رنے کہاکہ ’’ حالانکہ میں نے اپنی نوکری کھودی ہے اور ایک سال بعد کے بعد کم تنخواہ کی نوکری ملی‘ میں مودی کی حمایت اس لئے کررہاہوں کیو نکہ راہول گاندھی کافی نہیں ہے۔ وہ مودی کی طرف بات نہیں کرسکتے‘‘۔

جب پوچھا گیاکہ شہری علاقوں میں کیوں مودی کی زیادہ لوگوں حمایت کرتے ہیں تو نوائیڈا کے ایک چھوٹے کاروباری راجندر یادو نے وضاحت کرتے ہوئے کہاکہ’’ یہ غلط تصور ہے ‘ اس مرتبہ سخت مقابلہ ہے۔ل

وگ مودی کے خلاف نہیں بول رہے ہیں کیونکہ ان کی مذمت کی جارہی ہے اور انہیں غدار ٹہرادیاجائے گا۔ خاموش ووٹردیکھائی نہیں دے رہا ہے وہیں مودی بھگت چلارہے ہیں۔ اس کے علاوہ نوائیڈا سیکٹر کے زیادہ تر لوگ دوسرے علاقوں سے یہاں پر آکر بسانے والے لوگ ہیں۔

وہ انگریزی بولتے ہیں اور مصروف زندگی گذارتے ہیں۔ انہوں نے خود کو مقامی جاٹ اور گجر طبقات سے الگ رکھا ہے۔بی جے پی کے امیدوار مہیش شرما پیشہ سے ڈاکٹر ہیں اور شہر میں مختلف مقامات پر ان کے اسپتال ہیں اور شہر میں ان کا بڑا نٹ ورک ہے‘‘۔

وہیں نوائیڈا کے باہر ایس پی بی ایس پی اتحاد کاغلبہ صاف دیکھائی دے رہا ہے۔ حالانکہ ان علاقوں میں کسی بھی پارٹی کی اجارہ داری کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ یہاں پر کوئی پوسٹر یابیانر زیادہ نظر نہیںآرہے ہیں مگر لوگ خاموشی کے ساتھ ذات پات کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کی بات ضرور کہہ رہے ہیں‘‘۔

بٹھا کے پرسول جس کوراہول گاندھی کے احتجاج کے بعد چند سال قبل کافی شہرت ملی تھی کے لوگ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ یہاں پر کسی بھی سوسائٹی اور سیکشن بشمول کسان پچھلے پانچ سالوں میں کچھ فائدہ نہیں ہوا ہے۔

مذکورہ لوگ’’ اچھے دن‘‘ کے ذکر کے ساتھ ہی برہم نظر آرہے ہیں اور ان کی شکایت ہے کہ موجودہ رکن پارلیمنٹ شرما ان مرتبہ بھی ان کے گاؤں نہیں ائے۔

کئی دیہاتوں جیسے دانکاؤر‘ سلیم پور‘ شاہ پور اور دادری میں لوگ مودی حکومت کے خلاف اپنی برہمی دیکھا رہے ہیں اور ’’ مقامی ‘‘ امیدوار کے حق میں ووٹ دینے پر زوردے رہے ہیں۔

ایس پی بی ایس پی نے مقامی گجر ساتوی نگر کو اپنا امیدوار بنایا ہے توہیں کانگریس نے ارویندسنگھ چوہان جوکہ راجپوت ہیں میدان میں اتارا ہے۔

اروند کافی تعلیمی یافتہ ہیں اور انہیں باہری کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ان کے والد جئے ویرسنگھ چوہان بی جے پی ایک لیڈر ہیں ‘ جو ان کے امیدواروں کے لئے کافی دشوارکن مرحلہ ہے۔

مگر لوگوں کا ماننا ہے کہ اروندر بی جے پی کے ووٹوں کو کاٹنے کاکام کریں گے بالخصوص راجپوت ووٹ اور تعلیمی یافتہ ہونے کی وجہہ سے شہری ووٹرس کو بھی اپنی طرف راغب کروائیں گے۔

غازی آباد میں بھی جہاں سے آرمی کے سابق چیف اور یونین منسٹر وی کے ساتھ پچھلے مرتبہ پانچ لاکھ ووٹوں سے جیت حاصل کئے تھے ‘ کانگریس نے وہاں سے بھی ایک برہمن کو اپنا امیدوار بنایا ہے جو بی جے پی کی بنیادوں میں دراڑ کے مترادف ہے۔

حالانکہ کانگریس کی امیدوار ڈالی شرما کوجیت کو تسلیم نہیں کیاجارہا ہے ‘ اور یہاں پر ایک عام رائے یہ ہے کہ بی جے پی کے شہری علاقوں میں اعلی ذات والے ووٹرس میں ایک رخنہ کا کام کریں گے۔

ایس پی بی ایس پی امیدوار سریش بنسل اپنے دم پر بی جے پی سے سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے دیکھائی نہیں دے رہے ہیں مگرکانگریس کی جانب سے اس دیکھیں تو ان کی جیت کے حالات روشن نظر آرہے ہیں