سیاست فیچر
شکاگو امریکہ میں عظیم الشان پیمانے پر جشن شان حیدرآباد منایا گیا جس میں اس خوبصورت انداز میں حیدرآبادی تہذیب کی جھلکیاں پیش کی گئیں کہ دیکھنے والے دیکھتے ہی رہ گئے۔ ویسے بھی سرزمین امریکہ پر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے پیشہ ورانہ ماہرین بشمول ڈاکٹرس، انجینئرس، آرکیٹکٹس، تاجرین و صنعت کار، آئی ٹی اکسپرٹس وغیرہ اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں۔ ان حیدرآبادیوں کو جہاں امریکہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہے وہیں وہ اپنے وطن عزیز ہندوستان کی ترقی و خوشحالی میں بھی ناقابل فراموش رول ادا کررہے ہیں۔ ان لوگوں کی خاص خوبی یہ ہے کہ وہ امریکہ میں بھی حیدرآبادی محبت و مروت، شرافت و سخاوت، دوستی و مہمان نوازی اور ایثار و ہمدردی کی خوشبو بکھیرنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ بالخصوص شکاگو میں مقیم حیدرآبادی اپنی میٹھی بولی یعنی دکنی لب و لہجہ کے باعث ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں اور انھیں محبت و انسانیت کا پیام دینے والی اس میٹھی بولی پر بجا طور پر فخر ہے۔ اتوار 15 مئی کو قونصل جنرل شکاگو کی سرپرستی میں شالیمار بنکویٹ میں عظیم الشان جشن شان حیدرآباد کا انعقاد عمل میں آیا۔ 11 بجے دن سے جشن کا آغاز ہوا جو رات 11 بجے تک جاری رہا۔ سیاست آرٹ گیلری کے نادر و نایاب خطاطی کے نمونوں کی نمائش جشن شان حیدرآباد کی شانِ میں اضافہ کا باعث رہی جبکہ قادر علی بیگ تھیٹر فاؤنڈیشن حیدرآباد کی جانب سے پیش کردہ پہلے ’اسپیس‘ اور ’’قلی : دلوں کا شہزادہ‘‘ نے اس جشن کو پُرکشش بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ جشن شان حیدرآباد کی ایک اور خوبی حیدرآبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیت و ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کی شرکت رہی۔ انھیں بطور خاص حیدرآباد فرخندہ بنیاد کی تہذیب کی عکاسی کرنے والے اس جشن میں مدعو کیا گیا تھا۔
ہندوستانی قونصل جنرل ڈاکٹر اوصاف سعید نے جو خود بھی حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں اور حیدرآبادی تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں، اپنے خطاب میں حیدرآبادیوں کو ان کی تہذیب ان کی محبت و مروت، شرافت، ہمدردی و سخاوت اور انسانیت نوازی کیلئے زبردست خراج تحسین پیش کیا۔ اپنے خطاب میں انھوں نے فخریہ انداز میں کہاکہ حیدرآباد فرخندہ بنیاد نے ہمیشہ سے ہی اپنے دامن میں مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والوں کو پناہ دی۔ یہ تاریخی شہر متعدد تہذیبوں، روایتوں، عید و تہوار اور مذاہب کے ماننے والوں کا مرکز رہا ہے۔ شہر کی اسی خوبی نے اسے منفرد کاسمو پالیٹن کردار عطا کیا۔ حیدرآباد دکن کی دکنی زبان (میٹھی بولی) کو کئی زبانوں کی مٹھاس کا ایک مجموعہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہ دکنی لب و لہجہ قلی قطب شاہ کے قائم کردہ شہر کے حقیقی ہمہ مذہبی و ہمہ جہت کردار کی علامت ہے۔ یہ ایسا تاریخی شہر ہے جہاں مختلف مذاہب ذات پات رنگ و نسل اور طبقات و عقائد کے ماننے والے بڑے ہی پرامن انداز میں اور ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ شہریان حیدرآباد بڑے جوش و خروش کے ساتھ ایک دوسرے کے عید و تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ جشن شان حیدرآباد کے اپنے افتتاحی خطاب میں ڈاکٹر اوصاف سعید نے شرکاء کو یہ بھی بتایا کہ اس جشن کے منانے کا مقصد صرف حیدرآباد کے تاریخی کارناموں پر روشنی ڈالنے کی بجائے حیدرآباد کی شہرہ آفاق گنگا جمنی تہذیب کا جشن منانا اور حیدرآبادیت‘‘ کو دنیا کے سامنے رکھنا ہے اور جہاں تک حیدرآبادی تہذیب کا سوال ہے یہ تہذیب و شرافت جذبہ خیرسگالی اور مروت محبت کی دلکشی کا مجموعہ یا مرکب ہے جسے ساری دنیا جانتی اور مانتی بھی ہے۔ حیدرآبادیوں نے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی مقام پر مقیم کیوں نہ ہوں اپنی تہذیب کی حفاظت کی ہے۔ ڈاکٹر اوصاف سعید کے مطابق شہر حیدرآباد جہاں اپنی تہذیب و روایات کا تحفظ کررہا ہے وہیں یہ شہر خود کو عصر حاضر کی سماجی و اقتصادی تبدیلیوں کا سے بھی ہم آہنگ کررہا ہے جس کے نتیجہ میں ہمارا شہر حیدرآباد ہندوستان میں سکونت اختیار کرنے کے لئے سب سے بہترین شہر کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ پر اُبھرا ہے۔ اس کی عالمی شہرت کے باعث ہی آج حیدرآباد کے دامن میں مائیکرو سافٹ، ایپل، امیزان، گوگل اور فیس بُک جیسی عالمی کمپنیاں و ادارے کام کررہے ہیں، یہ وہ کمپنیاں ہیں جو دنیا میں اہم ترین تبدیلیوں کا باعث بنی ہیں۔
جیسا کہ راقم الحروف نے سطور بالا میں تحریر کیا ہے کہ روزنامہ سیاست حیدرآباد نے جشن شان حیدرآباد میں خطاطی کے نادر و نایاب نمونوں کی نمائش کا اہتمام کیا۔ نمائش کا اختتام ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں اور قونصل جنرل جناب اوصاف سعید نے مشترکہ طور پر افتتاح دیا۔ نمائش میں سیاست کی جانب سے ملک کے ممتاز خطاط، مصور اور دست کاروں کے ذریعہ تیار کروائی گئیں خطاطی، پینٹنگس، کشیدہ کاری و کارچوب اور چوبی آرٹ کے شاہکار اور دلوں کو چھونے والے بے شمار نمونوں کے مشاہدہ کا شرکاء کو موقع لا۔ نمائش میں استاذ خطاط نعیم صابری اور فہیم صابری کے تیار کردہ اُردو اور عربی خطاطی کے نمونوں کی جہاں ممتاز شخصیتوں نے سراہنا کی وہیں ممتاز مصور لطیف فاروقی کی پینٹنگس نے اپنے پاکیزہ پیام کے ذریعہ شرکاء کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ نمائش میں نصیب سلطان کے تیار کردہ کشیدہ کاری اور کارچوب کے چکا چوند نمونوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے حاضرین کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ ایک طرف محمد مظہرالدین کے چوبی آرٹ نے بھی لوگوں کو متاثر کیا، لوگ ان کے چوبی نمونوں کو دیکھتے ہی رہ گئے۔ ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کا دورہ بھی شکاگو محبان اُردو کے لئے ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوا۔ دوسری جانب قادر علی بیگ تھیٹر فاؤنڈیشن حیدرآباد کی جانب سے حیدرآبادی تہذیب کی عکاسی کرنے والے دو ڈرامے پیش کئے گئے۔ ان ڈراموں میں پدم شری محمد علی بیگ اور نور بیگ نے اپنے غیر معمولی مظاہرہ کے ذریعہ شرکاء محفل سے زبردست داد حاصل کی۔ دونوں کی اپیس : اسٹوری آف حیدرآبادی حویلی اور ’’قلی : دلوں کا شہزادہ‘‘ ڈراموں میں اداکاری، ان کے زیب تن کردہ ملبوسات، دلکش ہندوستانی کلاسیکی انداز، میک اپ اور رقص و سرور سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ شرکاء کو 17 ویں صدی کی مملکت گولکنڈہ میں واپس لے گئے ہوں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ محمد علی بیگ اور نور بیگ اپنے ٹروپ کے ہمراہ اس پلے کی پیشکش کے لئے خصوصی طور پر حیدرآباد سے شکاگو پہنچے تھے۔ جشن شان حیدرآباد میں ریاض قوال اور ان کے ہمنواؤں نے قوالیاں پیش کرکے سماں باندھ دیا۔ ریاض قوال خاص طور سے ہوسٹن سے آئے تھے۔ انھوں نے مقبول عام قوالیاں پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کردیا کہ دنیا کے ہر مقام پر فن کے قدر دان موجود ہیں۔ میر زیڈ خان نے اپنے افتتاحی خطاب میں بتایا کہ اس پروگرام کی آمدنی کا ایک حصہ حیدرآباد میں فلاحی کاموں اور ہندوستان میں یوتھ ایجوکیشن پروگرام پر خرچ کیا جائے گا۔
میر زیڈخان نے اپنے خطاب میں یہ بتایا کہ جشن شان حیدرآباد کی اسٹیرنگ کمیٹی کے سکریٹری اشفاق حسین سید، جناب اقبال علی بیگ (خازن)، ڈاکٹر پریم روپانی، ڈاکٹر مظفر مرزا، سمیع صدیقی، تسنیم عثمانی، افتخار شریف، غزالہ رحمن، سید شرافت حسین، انیس خان ، سید حسین، خالد عثمانی اور علی جعفر نے تقریباً دو ماہ تک شب و روز محنت کی ان لوگوں کا ایک ہی مقصد تھا کہ جشن شان حیدرآباد حقیقت میں امریکہ میں مقیم حیدرآبادیوں کی شان و وقار میں اضافہ کا باعث بنے۔ ڈاکٹر پریم روپانی کا جو شکاگو لینڈ میں حیدرآبادی کمیونٹی کی ایک ممتاز رکن ہیں کہنا تھا کہ حیدرآباد باوقار عالمی اداروں کا مرکز بن گیا ہے۔ اس کے دامن میں انڈین اسکول آف بزنس، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی جیسے عالمی درجہ کے اداروں کے علاوہ پیشہ ورانہ، تکنیکی و فنی تعلیمی ادارے کام کررہے ہیں۔ ایسے میں کئی ملکوں کے طلبہ کیلئے حیدرآباد پسندیدہ تعلیمی مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ اسی طرح صنعتی ترقی، خدمات کے شعبہ میں انقلابی اقدامات اور تجارتی ماحول کے نتیجہ میں ہندوستان کو عالمی نقشہ میں ایک منفرد حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ جشن شان حیدرآباد میں مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیتوں جناب اظہر قادر، ڈاکٹر ودیا ساگر، جناب علی نیازی، ڈاکٹر چتوری، جناب قیصر الدین، نازنین اور جناب صادق نقوی کو ایوارڈس آف ایکسلینس پیش کئے گئے۔
اسٹیرنگ کمیٹی نے ہندوستانی قونصل جنرل ڈاکٹر اوصاف سعید کو شکاگو میں مقیم ہندوستانی نژاد امریکیوں کی بہبود کیلئے ان کی گرانقدر خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ایک خصوصی ایوارڈ پیش کیا۔ جشن شان حیدرآباد کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی 1100 سے زائد مختلف شخصیتوں نے شرکت کی جن میں اووک بروک کے گورنرڈاکٹر گوپال ایل مالینی، دفتر آئی ایل گورنر کے چیف انفارمیشن آفیسر ہاردیک بھٹ، 8ویں کانگریشنل ڈسٹرکٹ شکاگو کیلئے نامزد ڈیموکریٹ قائد راجہ کرشنا مورتی، کرشنا بنسل اور دیگر شامل ہیں۔
جشن شان حیدرآباد کے آغاز کے موقع پر امریکہ اور ہندوستان کے قومی ترانے گائے گئے۔ شرکاء کی حیدرآبادی لذیذ پکوانوں سے ضیافت کی گئی۔ اعظم نظام الدین نے سارے پروگرام کی کارروائی انتہائی متاثر کن انداز میں چلائی۔ اس موقع پر ایڈیٹر’سیاست‘ جناب زاہد علی خاں اور اووک بروک کے میئر ڈاکٹر گوپال لال مالینی نے قونصل جنرل ڈاکٹر اوصاف سعید، اسٹیرنگ کمیٹی کے صدر نشین مسٹر میر زیڈ خان اور دفتر گورنر الینوائے کے چیف انفارمیشن آفیسر ہاردک بھٹ بھی موجود تھے۔ اس طرح سرزمین امریکہ پر جشن شان حیدرآباد کا یادگار انعقاد عمل میں آیا۔