شوگر کے مریضوں کا میٹرو ہیلتھ کیر سنٹر مرادنگر میں بہترین علاج

وقت پر نہ کھانے ، زندگی میں ڈسپلن کے فقدان سے ذیابیطس ، ماہر ذیابیطس ڈاکٹر جواد احمد سے بات چیت

ذیابیطس یا شوگر کا مرض ساری دنیا کو بڑی تیزی کے ساتھ اپنی لپیٹ میں لے رہاہے ، فی الوقت عالمی سطح پر کم از کم 422 ملین افراد بشمول خواتین اور بچے ذیابیطس سے متاثر ہیں۔ جنوبی ایشیائی ملکوں میں ذیابیطس کے بالغ مریضوں کی تعداد 85 ملین کے ہندسے کو عبور کرچکی ہے جنمیں سے تقریباً 70 ملین مریض ہندوستان میں ہیںجبکہ تاریخی شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں دیابیطس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد زائد از دو ملین (20 لاکھ ) ہوگئی ہے۔ شہر میں 30 سال سے زائد عمر کے ہر 6 افراد میں سے ایک ذیابیطس سے متاثر ہے اور ہر سال اس طرح کے مریضوں کی تعداد میں 20 فیصد کا اضافہ ہورہاہے ۔ اگر لوگ اسکریننگ کرواتے رہیں تو لاکھوں لوگ ذیابیطس سے متاثر ہونے سے بچ سکتے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار شہر کے ممتاز ماہر ذیابیطس ڈاکٹر جواد احمد نے ایک انٹرویو میں کیا، کم عمری میں ڈاکٹر جواد احمد نے ذیابیطس کے علاج میں غیرمعمولی مہارت حاصل کی ہے ۔ 2001-2002 ء میں حیدرآباد سے ایم بی بی ایس کرنے والے اس نوجوان ڈاکٹر نے ایم آر سی جی پی ، ایم ایس سی اور پی بی ڈپلوما برطانیہ سے کیا اور جاریہ سال کے اوائل تک برطانیہ میں خدمات انجام دیتے رہے ۔ وہ ذیابیطس اور اس سے جڑی بیماریوں کے علاج میں کافی مہارت رکھتے ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جواد احمد نے بتایا کہ ہر انسان کو اپنے ملک ، اپنے شہر سے پیار ہوتا ہے ۔ انھوں نے برطانیہ میں قیام کے دوران محسوس کیا کہ ہندوستان بالخصوص شہر حیدرآباد میں شوگر کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اور بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے ایسے میں انھیں اپنے ملک اور شہر کے لوگوں کی خدمت کرنی چاہئے ۔

چنانچہ خدمت خلق کا جذبہ لئے ہوئے وہ ہندوستان واپس ہوئے اور مرادنگر ، مہدی پٹنم میں میٹرو ہیلتھ کیر ڈیابیٹس اسپیشلسٹ سنٹر قائم کیا جو تمام عصری سہولیات سے آراستہ ہے ، جہاں ایک ہی چھت تلے مریضوں کو اسکریننگ سے لیکر علاج کی تمام سہولتیں حاصل ہیں۔
انھوں نے عوام میں شوگر سے متعلق شعور بیدار کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے ۔ اس بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر جواد بتاتے ہیں کہ اگر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو ٹائپ 2 ، ٹائپ 1 اور جیسٹیشنل ( حاملہ خواتین میں ہونے والی شوگر) سے بچا جاسکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹائپ 2 ذیابیطس دراصل موروثی ہوتی ہے اس کے علاوہ طرز زندگی بھی اس کے لئے ذمہ دار ہوتی ہے ۔تیل ، چکنائی اور مرغن غذاؤں کے استعمال کے علاوہ بہت زیادہ فکر وغیرہ سے بھی ٹائپ 2 ذیابیطس ہوتی ہے۔ 90 فیصد لوگ ٹائپ 2 ذیابیطس سے متاثر ہوتے ہیں اس میں انسولین کی کمی کے ساتھ ساتھ انسولین اس طرح کام نہیں کرتا جس طرح اُسے کام کرنا ہوتا ہے ۔ ٹائپ 1 کے بارے میں ڈاکٹر جواد کا کہنا تھا کہ یہ ماحولیاتی اثر کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ بچوں اور کم عمر لوگوں میں ٹائپ 1 ذیابیطس پائی جاتی ہے اس میں انسولین بننا بالکل بند ہوجاتا ہے ۔ دنیا میں 5 تا 6 فیصد لوگ ٹائپ 1 شوگر سے متاثر ہیں ۔ خواتین میں حمل کے دوران جو ذیابیطس پیدا ہوتی ہے اُسے جیسٹیشنل ذیابیطس کہا جاتا ہے ۔ زچگی سے پہلے اور بعد میں خاص احتیاط برتی جائے تو اس سے بچا جاسکتا ہے ۔ میٹرو ہیلتھ کیر کے مینجنگ ڈائرکٹر ڈاکٹر جواد کے خسر سجاد خان ہیں۔ ڈاکٹر جواد کے مطابق اکثر لوگ شوگر اس کی پیچیدگیوں کے بارے میں واقف نہیں رہتے نتیجہ میں ذیابیطس سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ ذیابیطس کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک ، فالج کا حملہ ، آنکھوں ، گردوں ، پیروں کی نسیں خراب ہونے کے امکانات زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ خاص طورپر پاؤں میں السر کا جوکھم انھیں لگا رہتا ہے ۔
ان کے اسپتال میں ایسے مریضوں کیلئے خصوصی ٹسٹوں کا انتظام ، حاملہ خواتین کو ذیابیطس سے بچانے خصوصی کونسلنگ کا بھی نظم کیا گیا ہے ۔ حیدرآباد میں شوگر کے مریضوں کی کثیرتعداد کے بارے میں سوال پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ہمارے شہر میں لوگ مرغن غذاوں کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں ، وقت پرکھانا نہیں کھاتے ، خاص طورپر شادیوں میں تو نوشہ 11 ، 12 بجے رات آرہے ہیں ، نتیجہ میں دسترخوان کا آغاز بھی تاخیر سے ہورہا ہے ۔ ان حالات میں جو شوگر کے مریض ہیں ان کی زندگیوں کو خطرات پیدا ہوجاتے ہیں اور جو نہیں ہیں وہ شوگر کے مریض بن جاتے ہیں ۔ زندگی اگر ہمارے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی سنت کے مطابق گذاریں تو ہم شوگر تو کیا کسی معمولی مرض میں بھی مبتلا نہیں ہوں گے ۔ تاخیر سے سونا ، تاخیر سے اُٹھنا ، جسمانی سرگرمی ، کسرت اور چہل قدمی سے گریز بھی ذیابیطس کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔ تفصیلات کیلئے فون نمبر :
9618071880
پر ربط پیدا کریں۔