محمد جسیم الدین نظامی
سیاسی مصلحت در اصل’’ سیاسی منافقت‘‘ کا دوسرا نام ہے جسے سمجھنے کیلئے موجودہ وقت میں چیف منسٹر بہار نتیش کمار سے بہتر مثال شایدکوئی اور نہیں ہوسکتا۔ جمہوریت میںاخلاقیات کے پیمانے الگ ہوتے ہیں…یہاں اخلاقیات نامی’’ چولا‘‘اپنے اپنے مقاصد اورمفادات کے تحت کبھی بھی بد لا جاسکتاہے… مختصر یہ کہ ہندوستان کی سیاست میں اخلاقیات کے لیے کوئی جگہ بچی ہی نہیں ….نتیش کمار نے ایک بار پھر بی جے پی کی گود میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے… حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ بات ایمانداری اور بے ایمانی کی ہے ہی نہیں، بلکہ معاملہ سیکولرازم اور کمیونلزم کا ہے…. ’’سوشاسن بابو ‘‘ کے نام سے مشہور نتیش کما رنے اگراپنی سیاسی زندگی میں بظاہر ا یماندانہ شبیہ بنائی ہے تو ا نہوں نے بہار جیسی سیکولر ریاست میںفرقہ پرست طاقتوں کو اپنے پاؤں جمانے کا موقع فراہم کرکے ناقابل معافی جرم بھی کیا ہے… جس بہار کو عظیم اتحاد نے مل کر مودی سے بچایا تھا اسے پھولوں میں رکھ کر نریندر مودی کے سامنے پیش کردینے والے نتیش کمار کو بہار کے عوام کبھی معاف نہیں کرسکتے..ساری دنیا جا نتی ہے کہ، مرکزی حکومت نے سی بی آئی، ای ڈی او رانکم ٹیکس سمیت تمام سرکاری ایجنسیوں کو لالو یادو اور ان کے ارکان خاندان کے پیچھے لگا دیا ہے۔ان ایجنسیوں کی کارروائی اورزر خرید میڈیا کے ذریعہ ایسا ماحول بنا یا گیا ،گویااس وقت پورے ہندوستان میں لالو یاود کے علاوہ دوسرا کوئی بے ایمان نہیں….سیاست میں ہمیشہ اخلاقیات کی دہائی دینے والی جماعت بی جے پی اورآر ایس ایس نفع نقصان کا حساب کتاب کرکے ہی قدم اٹھا رہی ہے۔اوریہ بات ’’سوشاشن بابو‘‘ بھی اچھی طرح جانتے ہیں… سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مرکز میں برسراقتدار بی جے پی کے لئے 2019 میں ایک بڑے چیلنج کی شکل میں صرف نتیش کمار کھڑے تھے اور بی جے پی انہیں کسی بھی طرح اپنے ساتھ لینا چاہ رہی تھی اور اس مقصد کیلئے بی جے پی کے پالیسی ساز، دن رات اپنا دماغ کھپارہے تھے ۔ چونکہ سنگھ اور بی جے پی کے لئے لگاتار کام کرنے والے پالیسی سازوں کا واضح طورپر ماننا ہے کہ ان کے لئے مستقبل میں خطرہ راہل گاندھی نہیں، صرف اور صرف نتیش کمار ہیں۔سال2014 میں جس مودی کا نام وزیر اعظم کے طور پر سامنے آنے پر نتیش کمار نے استعفی دے دیا تھا اور اتحاد توڑتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اپنے بنیادی اصولوںسے سمجھوتہ نہیں کر سکتے ، نتائج کی فکر نہیں کرتے ، الیکشن سے پہلے مودی اور نتیش کے پوسٹر پٹنہ میں لگائے گئے تو یہی نتیش کمار اس قدر برہم ہوگئے کہ مودی کا دیا ہوا پانچ کروڑ کا چیک شدید ناراضگی کے ساتھ واپس کردیاتھا،الیکشن کے دوران بی جے پی کو ’’بڑاجھوٹا پارٹی ‘‘ قراد دیا تھا ….اور آ ج وہی جھوٹا پارٹی انکی نظر میںسب سے ایماندار پارٹی بن گئی …نوٹ بندی سے لیکر ،جی ایس ٹی ،فرضی ڈگری اورصدارتی انتخابات کے مسئلے پرمودی جی کے سُرمیں ُسر ملانے میں وہ فخر محسوس کرنے لگے۔حالانکہ بی جے پی کو روکنے کے مسئلے پر ہی لالو یادو سے مل کر انتخابات لڑے گئے جس میں عوام نے عظیم اتحاد کو کامیابی سے ہمکنار کیا… دلچسپ بات یہ ہے کہ زائد نسشتوںکے بعد بھی لالو یادو نے اپنے وعدے کے مطابق ، نتیش کمار کو چیف منسٹربنایا…جبکہ وہ چاہتے تو زیاد سیٹ حاصل کرنے کی بنیاد پراپنے بیٹوںکو چیف منسٹر بنانے کا مطالبہ کرسکتے تھے،مگرانہوںنے ایسا نہیںکیا…کیونکہ وہ ’’اخلاقیات،اصول پسندی اورسیکولرازم کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے…عمل کرتے ہیں…سب سے اہم بات یہ کہ جو شخص عوامی مینڈیٹ کے خلاف ’’بدترین سیاسی منافقت‘‘کامظاہر کیا ہو …وہ اپنے آپکو صاف وشفاف شبیہ کا حامل لیڈر کیسے قرار دے سکتاہے؟.نتیش کمار کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ پچھلی بار صرف لالویادو او رکانگریس کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے وہ انتخابات جیتے تھے… ورنہ ان کی اپنی برادری یعنی کرمی ووٹوں کی تعداد بہارمیں بمشکل 7 فیصد ہی ہے …سوال یہ ہے کہ کیامسٹر نتیش کمار، بہار کے عوام کو مطمئین کرپائنگے کہ جس مسئلے کو بنیاد بناکرانہوںنے نہ صرف لالو یادو بلکہ پورے بہار کی عوام سے’’ احسان فراموشی‘‘ کی ہے ..آیابی جے پی یا خود انکی جماعت اس لعنت سے پا ک ہے؟ . …یہ کون نہیں جانتا کہ مودی حکومت کے کابینی وزراء میں سے8 کے خلاف مجرمانہ معاملے درج ہیں۔ ’’نیشنل الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن آف ڈیموکریٹک ر یفارمر س‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، نریندر مودی نے پارلیمنٹ کو داغدار وزراء سے پاک بنانے کا وعدہ کیا تھا، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ، پارلیمنٹ تو دور، ان کے اپنے کابینہ میں تقریبا ایک تہائی وزراء پر مجرمانہ معاملے درج ہیں… اومابھارتی کے خلاف سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی ہے … بابری مسجد،ویاپم گھوٹالہ ،للت گیٹ سمیت مختلف اسکنڈلس میں کئی بی جے پی قائدین پر کیسس درج ہیںمگر وہاں اخلاقی قدریں دھول چاٹ رہی ہیں …. وسندھرا کے فرزندکے اکاؤنٹ میںگیارہ کروڑ روپئے آنے کاالزام ہے ….بی جے پی لیڈر گالی ریڈی پر 500 کروڑ کی شادی کرنے الزام لگا…اتراکھنڈ نیشنل ہائی وے نے سڑک بنانے میں100 کروڑ کے گھپلے کی سی بی ٓئی تحقیقات کوروکنے کی نتن گڈکری نے کھلے عام کوشش کی…. اسمرتی ایرانی کے خلاف ان کی ڈگری کا معاملہ عدالت میں چل رہا ہے۔
مہاراشٹر حکومت میں پنکجا منڈے پر کروڑوں روپے کے ٹھیکوں میں دھاندلی کا الزام ہے…اوریہ لوگ اپنے اپنے عہدوں پر ابھی بھی براجمان ہیں،اورجب تک مودی جی ہیں، وہ براجمان رہینگے’’ اخلاقیات‘‘ گئی تیل لینے …مگر ان کوعہدوں سے اب تک نہ ہٹائے جانے کے بارے میں’’ سوشاشن بابو‘‘ کونسی منطق بیان کرینگے ؟..وہ چھوڑئے خود انکی پارٹی جنتادل یو میں کیا داغدار قائدین کی کمی ہے؟…اگریقین نہ آئے تو ان کی طرف سے داخل کئے گئے حلف ناموںکی تفصیلات دیکھ لیجئے …. 2015 کے نو تشکیل شدہ کابینہ میں شامل 8 وزراء کے خلاف معاملے درج ہیں…بہار الیکشن واچ اینڈ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس، کی طرف سے جاری داغدار ارکان اسمبلی کی فہرست کے مطابق، ایس ٹی ایس سی کے وزیر سنتوش کمار نرالا کے خلاف 2،وزیر لیبر وجے پرکاش کے خلاف 3، وزیر زراعت رام وچار رائے کے خلاف 5، کوآپریٹو منسٹر آلوک کمار مہتا کے خلاف 4، وزیرٹرانسپورٹ چندریکا رائے کے خلاف 3، وزیر صحت و ما حولیات ، تیج پرتاپ یادو کے خلاف ایک ، ڈپٹی سی ایم تیجسوی یادو کے خلاف ایک اور وزیرثقافت ، شوچندر رام کے خلاف ایک معاملہ درج ہے۔ ان وزرا کے خلاف تعزیرات ہند کی مختلف دفعات میں معاملے درج ہیں.
مگر ان تمام کو چھوڑرکر انہیںصرف لالویاد کے ارکان خاندان ہی داغدار نظر آنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ منظم اورمنصوبہ بند انداز سے سنگھی نظریات کیلئے کام کررہے تھے…ویسے بھی نام نہاد سیکولر سمجھے جانے والے نتیش کمارکو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ آر ایس ایس کے نظریہ ساز پنڈت دین دیال اپادھیائے کی برسی منانے والی یادگار کمیٹی کے رکن بھی ہیں . . . . نتیش کمار بار بار جس’’ ضمیر کی آواز‘‘ بات کرتے ہیںوہ ضمیر دراصل’’ سنگھی خمیر‘‘سے آلودہ ہے ….یہی وجہ ہے کہ تیجسوی کے محض ایک جرم کو بہانہ بناکر انہوں نے سینکڑ ں جرائم کے کرتا دھرتا ؤں کے ساتھ ہاتھ ملاہاہے..نتیش کمار نے جمہوریت پر یقین رکھنے والے ہر شہری کا مذاق اڑا یا ہے… آ ج بہار کی عوام خود کو ٹھگاہوا محسوس کررہے …انہیںجمہوریت کی اس گند ی اورگھٹیا سیاست سے گھن آنے لگی ہے… بہرحال ! بہار میں چور راستے سے بی جے پی کی حکومت بنانے اور بہار جیسی سیکولر ریاست کو زعفرانی رنگ میںرنگنے کیلئے نتیش کمارنے جو لومڑی کی چال چلی ہے اسے بہار کی سیاسی تاریخ میں’’ بی جے پی کا چانکیہ‘‘ کی حیثیت سے یادکیا جائگا۔