جھکی ذرا چشم جنگجو بھی
نکل گئی دل کی آرزو بھی
شمالی کوریا کا فیصلہ
شمالی کوریا کے حکمراں کم جونگ اِن کے سخت گیر موقف میں نرمی آنے کی وجوہات پر غور کرنے والی عالمی طاقتوں کو یہ یقین کرنے میں مشکل ہورہی ہے کہ آیا واقعی کم جونگ اپنے نیوکلیر اور میزائیل تجربات کرنا بند کردیں گے ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ سے اپنی تاریخی ملاقات کی تیاری کرنے کے لیے انہیں کم از کم کچھ نہ کچھ پہل کرنی ہی تھی ۔ انہوں نے شاید وقتی طور پر سفارتی تعلقات کی راہوں کو کشادہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔ امریکہ کے لیے یہ ایک بہت بڑا قدم ہے اس میں جنوبی کوریا کے رول کو بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا ۔ اس فیصلہ کے باوجود امریکہ میں بعض عہدیداروں کو شبہ ہے کہ صدر شمالی کوریا نیوکلیر تجربات نہ کرنے کے فیصلہ کے پیچھے کیا خفیہ منصوبہ رکھتے ہیں ۔ کل تک صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے سربراہ سے بات چیت کے لیے کچھ شرائط رکھے تھے اور مدافعتی موقف اختیار کرلیا تھا لیکن اب شمالی کوریا کے فیصلہ نے ٹرمپ کو اپنی چوٹی ملاقات کے بارے میں کوئی تحفظ ذہنی رکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ کم جونگ ان نے اپنے والد کے انتقال کے بعد 2011 میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے ۔ تب سے اب تک انہوں نے ساری دنیا کو اپنے نیو کلیر تجربات کے ذریعے حیرت زدہ کردیا تھا ۔ چین کے ساتھ ان کی قربت اور امریکہ کے خلاف چین سے ملنے والے مشوروں کو اہمیت دینے والے کم جونگ ان کو آنے والے دنوں میں نیوکلیر تجربات بند کرنے کے فیصلہ کے مثبت نتائج حاصل ہوتے ہیں تو ان کا فیصلہ قائم رہ سکتا ہے کیوں کہ ماضی میں بھی جب کبھی عالمی طاقتوں نے شمالی کوریا کی دفاعی طاقت کا سوال اٹھایا تھا تو شمالی کوریا نے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے عمل کو سست کردیا تھا لیکن جب کبھی مغربی طاقتوں نے شمالی کوریا کے مطالبات کو مسترد کردیا ۔ اس نے اپنے دفاعی پروگراموں کو دوبارہ شروع کردیا ۔ نیوکلیر تجربات اور میزائیلس سازی کا معاملہ ماضی میں بھی بند کیا جاچکا ہے ۔ اس مرتبہ بھی شمالی کوریا محض امریکہ کے اصرار پر اپنی دفاعی ایٹمی طاقت پر روک لگانے کی رضا مندی ظاہر کی ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ معاشی پابندیوں میں اضافہ کی دھمکیوں سے شمالی کوریا کو اپنے موقف میں نرمی لانی پڑی ۔ مغربی ممالک تو یہی کہیں گے کہ شمالی کوریا پر لگام لگانے کے لیے اس پر معاشی پابندیاں سخت کردی جائیں اور سفارتی اقدامات بھی تیز کردی جائیں ۔ طاقت کی مرکزیت کے بارے مغربی طاقتوں کے اندر ایک طرح کا تکبرانہ موقف پایا جاتا ہے ۔ مگر اس یکطرفہ رویہ سے کسی دوسری طاقت کو کمزور سمجھنے کی حماقت کرنا نقصان دہ بھی ہوتی ہے ۔ صلاحیتوں کو نظر انداز نہیں کریں گے کیوں کہ کم جونگ ان کا موقف سخت گیر ہے ۔ انہوں نے فی الحال اپنے دفاعی پروگرام کو روکنے کا اعلان تو کیا ہے لیکن اگر ڈونالڈ ٹرمپ سے مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو پھر آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا ۔ اس کا اندازہ کرنے میں تغافل نہیں ہوگا ۔ جاپان نے تو ابھی سے کہدیا ہے کہ اسے کم جونگ کے اعلان پر یقین نہیں ہوتا کیوں کہ صرف تجربات بند کرنے کا فیصلہ غیر واضح ہے ۔ اس فیصلہ سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ آیا وہ اپنے تمام درمیانی فاصلے اور کم فاصلے پر نشانہ لگانے والے میزائیلس کا بھی تجربہ بند کرے گا یا نہیں ۔ اس کے یہ میزائیلس جاپان کے علاقوں پر ضرب لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ گذشتہ چند ہفتوں سے امن و امان پر توجہ دینے والے ممالک نے شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کو ختم کرنے میں اہم کوشش کی تھی ۔ ان کی کوششوں سے ہی کم جونگ ان کو ٹرمپ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کی راہ ہموار ہوئی تھی ۔ یوروپی یونین نے بھی اپنے حصہ کے طور پر امن اقدامات میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ شمالی کوریا کے تازہ فیصلہ کو ایک مثبت اقدام قرار دینے کے ساتھ آئندہ ان ممالک کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بڑی پیشرفت ہوتی ہے تو چوٹی کانفرنس کی کامیابی سے ایک خوشگوار فضا قائم ہوگی ۔ پرامن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہی شمالی کوریا کے صدر نے نیوکلیر تجربات روکدئیے ہیں تو اس سلسلہ میں اب تک کی جارہی امریکی کوششوں کا ایک نتیجہ سامنے آیا ہے ۔ اس اچھے نتیجہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے پوری امید کے ساتھ مذاکرات کی تیاری کرنی چاہئے ۔ نیوکلیر تجربات بند کردینے کے فیصلہ کو شک کی نظر سے دیکھنے کا مطلب یہ ہوگا کہ مغربی طاقتیں فطری طور پر شمالی کوریا کے اقدام سے مطمئن نہیں ہیں ۔ پرامن خوشگوار مذاکرات کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ہر ایک فریق ایک دوسرے پر بھروسہ کرے ۔ نیم دلانہ مذاکرات کی کوشش کا نتیجہ بھی بے فیض ہی ثابت ہوگا ۔ چونکہ ٹرمپ اور کم جونگ ان ملاقات سے قبل ہی یہ قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ یہ مذاکرات بڑے سیاسی جوے سے کم نہیں ہوں گے ۔۔