شمالی کوریا کا تحدیدات سے بے نیاز نیوکلیائی سفر

محمد علیم الدین
اقوام متحدہ کی تحدیدات سے بے خوف بے نیاز شمالی کوریا کے لحیم شحیم ڈکٹیٹر و صدر مملکت کم جانگ یون برسر اقتدار رہ سکتے ہیں اور نیوکلیر ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھ سکتے ہیں۔ شمالی کوریا کے نیوکلیر اور میزائیلس تجربہ پر اقوام متحدہ کی جانب سے اس سال مارچ میں تحدیدات عائد کئے جانے کے بعد کم جنگ یون کی شمالی کوریائی حکومت کے لئے ایسا کبھی نہیں لگا کہ وہ الگ تھلگ پڑ گئی ہے۔ اس کے برعکس حالیہ واقعات اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ شمالی کوریا کے فرمانرواؤں کی تیسری نسل درحقیقت اپنے نیوکلیائی مقاصد کے حصول کو جاری رکھے گی۔ شمالی کوریائی حکمرانوں کے لئے مذکورہ بالا عزائم جوئے شیر لانے جیسے ہیں۔ موجودہ طور پر حکومت کی بقاء کو یقینی طور پر کوئی خطرہ نہیں۔ کم جانگ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں کا مقصد شمالی کوریا کو ایک نیوکلیر ہتھیاروں سے لیس ریاست میں تبدیل کرنا ہے۔ اس نکتہ کو ملک کے دستور میں تحریری طور پر درج کیا گیا ہے۔ پارٹی کانگریس سے طویل خطاب میں صدر کم جانگ یون نے حکومت کی دوسری پالیسی کا مقصد ایک پنچ سالہ منصوبہ کے ذریعہ ملک کے عوام کے معیار زندگی کو فروغ دینا بتایا۔
امریکی صدر بارک اوباما اور صدر جنوبی کوریا پارک گیون ہائی نے شمالی کوریا کے مذکورہ بالا دونوں مقاصد کو ایک دوسرے سے متضاد بتایا ہے۔ تاہم موجودہ حالات اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ صدر شمالی کوریا کم جانگ یون اپنے دونوں مقاصد کے حصول کے لئے راستہ پر چل پڑے ہیں۔
جہاں تک کم کے آمرانہ اقتدار کا سوال ہے وہ محفوظ ہیں، داخلی طور پر ان کے اقتدار کو نہ ہی کسی فرد تنظیم کی مخالفت اور نہ ملک کی عوام کی مخالفت کا سامنا ہے۔ کم نے اپنے والد کے بعد سے اقتدار میں ایک مرد آہن کی طرح حصہ داری ادا کی ہے۔ انھیں اپنی پارٹی، افواج یا ان کے چچا حان سونگ کی جانب سے کوئی مخالفت کا سامنا نہیں ہے۔ حتیٰ کہ سیول میں موجود ان کے کٹر مخالفین بھی کم جانگ یون کے استحکام کے لئے کوئی خطرہ ثابت نہیں ہوسکتے۔ کم جانگ یون نے ملک کو معاشی طور پر مضبوط کیا ہے۔ عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی غرض سے کئی ایک اقدامات بروئے کار لائے ہیں۔
شمالی کوریا خطہ میں ہنوز چین کا حلیف ملک ہے جبکہ دیگر پڑوسی ممالک جیسے جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک امریکی گروپ میں ہیں۔ جنوبی کوریا کی جانب سے گزشتہ ماہ تھاڈ کی تعیناتی چین کے لئے برہمی کا باعث بنی کیوں کہ چین ایسا تصور کرتا ہے کہ جنوبی کوریا کی سرحدات پر امریکی میزائیل کی تعیناتی جنوبی کوریا کے لئے نہیں بلکہ چین کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتی ہے۔ چین جنوبی کوریا کے لئے ہنوز ایک بڑا درآمدی اور سرمایہ کاری مقام رکھتا ہے۔ شمالی کوریا کی سرحدات جنوبی کوریا، روس اور چین سے ملتی ہیں جبکہ دونوں کوریائی ممالک کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری مکمل طور پر مسدود ہے۔ شمالی کوریا کے لئے روس چین کے ساتھ تجارتی مفادات اہمیت کے حامل ہیں۔

واشنگٹن اور بیجنگ نے ایک دوسرے کے ساتھ شمالی کوریا پر غیر مختتم مذاکرات انجام دیئے۔ امریکہ کا چین پر الزام ہے کہ وہ شمالی کوریا پر دباؤ نہیں بنارہا ہے جبکہ چین کا الزام ہے کہ امریکہ شمالی کوریا کی سرحدات پر کشیدگی پیدا کرنے کا جواز بن رہا ہے جس کے نتیجہ میں شمالی کوریا خود کو نیوکلیائی ہتھیاروں سے لیس کررہا ہے۔ اگر ایک جانب چین کے جنوبی کوریا اور دوسری جانب امریکہ کے ساتھ شدید اختلافات پائے جانے کی صورت میں اس کا سب سے زیادہ فائدہ شمالی کوریا کو ہوگا۔ شمالی کوریا کے اس وقت یورانیم، پلوٹونیج پروگرامس جاری ہیں۔ وہ  بالسٹک میزائیل مدار میں داغنے کا کامیاب تجربہ کرچکا ہے۔ دوسرا مرحلہ ٹیکنالوجیز میں داخلہ، ٹیکنالوجیز کو نشانہ بنانا، سب میرین ٹیکنالوجیز کا آغاز ہوگا اور ایک مرتبہ شمالی کوریا ان مرحلوں سے گزر جائے تب اس کی نیوکلیر سد راہ کارکرد ثابت ہوگی۔ تاحال بین الاقوامی برادری شمالی کوریا کے اس کے نیوکلیر میزائیلس پروگرام پر روک لگانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔ ہر نیوکلیر تجربہ شمالی کوریا کو اس کے مقاصد سے قریب کررہا ہے۔

شمالی کوریا حکمراں کم جانگ کے خلاف بغاوت یا ان کی بڑھتی مقبولیت کو گھٹانے کے کوئی امکانات نہیں پائے جاتے۔ بیرونی فوجی مداخلت کے لئے شائد کوئی بھی ملک سامنے نہیں آئے گا۔ سفارتی سطح پر مذاکرات اقوام متحدہ تحدیدات کچھ حد تک شمالی کوریا کے نیوکلیر پروگرامس میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ تاہم انھیں روک نہیں سکتے۔ بہرحال موجودہ حالات میں دنیا کی نظر میں آمرانہ انداز میں کام انجام دینے والے شمالی کوریائی حکمراں کم جانگ یون امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی مخالفت سے بے نیاز اپنے نیوکلیر پروگرامس کے کیک کی تیاری اور اس کو نوش کرنے کے لئے پوری مستعدی سے مصروف ہیں۔