ششی تھرور کا انٹریو’’ پولرائزیشن مسلئے ہے‘ کیونکہ کہنے کے لئے کوئی دوسری کہانی نہیں ہے‘

ششی تھرور’’ جمہوریت کا مطالب زمینی قوانین آپ کو اپنے رائے رکھنے کی پوری اجازت دینا ہے‘ ممکن ہے اس کو ہم قبول نہیں کرتے‘اس کی فراہمی تب ہے ممکن ہے جب زمینی قوانین کو نامنظور کرتے ہیں‘‘
نئی دہلی۔ اپنے ’’ ہند و پاکستان ‘‘تبصرے سے تنازعات کا شکار ترونینتھا پورم کے رکن پارلیمنٹ اور کانگریس لیڈر ششی تھرور نے انڈین ایکسپریس سے کہاکہ وزیراعظم نریندر مودی کو ہجومی تشدد کے خلاف بات کرنا چاہئے‘ کیونکہ ان کی خاموشی ہجومی تشدد کے خاطیوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن رہی ہے۔

تروننیتھا پورم میںآپ کے دفتر پر حملے اور اظہار خیال کی آزادی کا معاملہ آپ نے اٹھایا۔مگر حکومت کا ردعمل کچھ اور ہی ہے۔
میرے نقطہ نظر ملک بڑے پیمانے پر جن مسائل کا سامنا کررہا ہے اس کی جانب ہے۔

جمہوریت میں زمینی قوانین یہ ہیں کہ آپ اپنا نقطہ نظر ظاہر کرسکتے ہیں۔ ہمارے لئے یہ ناقابل قبول ہوگا‘ثابت کردیا کہ زمینی قوانین کو اگر ہم قبول کرتے ہیں تو تو کس طرح ناقابل قبول ہوگا‘‘یہ جمہوریت کس طرح کارگرد ہے ‘ اور یہ وہی ہے جس ہر ہندوستان ہمیشہ کاربند رہا ہے۔

آج برسراقتدار پارٹی کے ساتھ زمینی قوانین بے معنی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ پیر کے روز میرے دفتر پر حملہ ہوا اور منگل کے روز سوامی اگنی ویش پر حملہ کیاگیا۔سیاست کی بدصورت شکل یہ ہے کہ رائے کا جواب اس کے برخلاف رائے نہیں بلکہ جسمانی تشدد ہے۔ یہ ناقابل قبول ہے او ر ہماری جمہوریت کے لئے ایک بڑا خطرہ بھی ہے۔

آپ چاہتے ہیں کہ وزیراعظم ان مسائل پر اپنی خاموشی توڑیں۔ کیاآپ کو توقع ہے وہ اس پر بات کریں گے؟

وزیراعظم نے کبھی ان تمام مسائل پر بات نہیں کی ہے۔ان کی خاموشی اس قسم کے برتاؤکی حمایت کررہی ہے۔یہ وقت ہے وزیر اعظم اور اس حکومت کے لیڈرس کا وہ سمجھیں کہ جب تک اس قسم کے واقعات کو روکا نہیں جاتا ‘ اس کے نتائج غلط نکلیں گے۔

اور جب لوگ انہیں آپ کی حمایت مل رہی ہے تو یہ سلسلہ ایسا ہی جاری رہے گا۔اظہار خیال کی آزادی کسی بھی جمہوریت کومضبوط بنانے کا اصول ہے۔

ان لوگوں( جنھوں نے دفتر میں توڑ پھوڑ مچائی ہے)نے کہاکہ وہ میرا دفتر میں ہی حلقہ میں بند کردیں گے‘ لوگوں کو وہا ں سے نکال دیں گے‘ درحقیقت انہوں نے کہاکہ وہ مجھے ماردیں گے یا پھر میں پاکستان چلاجاؤں۔کیایہ تمہاری ملک کی سیاست کی سطح ہے جو پراگندہ کیاجارہا ہے؟

کیا آپ کو لگتا ہے کہ ملک بھر میں پیش آرہے ہجومی تشدد کے واقعات اور لیڈران کی خاموشی میں کوئی رابطہ ہے؟

میرے فوری طور پر یہ احساس ہے کہ اگر وزیر اعظم اپنے کرسی پر بیٹھنے کے پہلے ماہ میں ہی ان کے اپنے ماننے والے اور ساتھی ٹرویلرس سے کوسختی کے ساتھ اس طرح کے واقعات کے خلاف کہتے تو ‘ ہمیں ملک کی بدلی ہوئی صورت دیکھنے کوملتی۔

غلط برتاؤ اور تشدد کرنے والوں کے لئے ان کی خاموشی ایک طاقت بن گئی ہے

آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں کہ جن مسائل کو آپ نے اجاگر کیاہے اس پر حکومت کا ردعمل آپ کی سونچ کے مطابق ہی کیوں ہونا چاہئے؟

میں ان کے ( پارلیمانی امور منسٹر اننت کمار ) کے انکار سے حیرت میں ہوں۔ پہلے تو ان کی اپنی پارٹی کاترویننتھام پور یوتھ وینگ اس کاروائی کا سہرا اپنا سر باندھنے کا دعوی کررہا ہے۔

کیرالا کے تمام ٹیلی ویثرن چیانلوں پر بحث میں بی جے پی کے ترجمان اس کاروائی کو حق بجانب قراردے رہے ہیں۔ان کا کہناہے میں نے مخالف ہندو تبصرہ کیاہے‘جو میں نے نہیں کیا ہے۔

جب میں نے کہاکہ میں اس کو( انڈیا) کو پاکستان بننے نہیں دینا چاہتاہوں‘ میں مخالف ہندو نہیں مخالف پاکستان ہوں‘‘۔ کس طرح مذکورہ منسٹر ایوان کے فلور پر کھڑے ہوکر ایوان کو گمراہ کرسکتا ہے؟انہوں نے کہاکہ سی پی ائی( ایم) نے ایسا کیاہے‘ حقیقت میں سی پی ائی( ایم) اراکین پارلیمنٹ ناراض ہیں۔ اس مسئلے یہ ہیں کہ جمہوریت کے اصول خطرے میں ہیں۔

اس بی جے پی نے حال ہی میں راہول گاندھی پر الزام عائد کیاہے کہ انہو ں نے کانگریس کومسلمانوں کی پارٹی بتایا‘ اور آپ کے ریمارک کو اس سے جوڑ دیا۔کچھ ناقدین کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک روایت ہے جو الیکشن کا اثر ہے۔

کیونکہ ان کے پاس ترقی کی کوئی کہانی نہیں ہے‘ ان کے پاس حکومت کی کامیابی بھی ندارد ہیں۔ لہذا ہوسکتا ہے وہ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی تیاری کررہے ہیں۔

کوئی بھی چیز اگر کوئی کہیں کہتا ہے تو اس کو ملادینا ( برسراقتدار پارٹی) کاایجنڈہ ہے۔میں سمجھتا ہوں شرما کی بات ہے کہ میڈیا ان کے ہاتھوں کا کھلونا بناہوا ہے