شراب پینے سے نماز کا قبول نہ ہونا، سود کی حرمت

سوال : شراب پینا حرام ہے ، میں نے سنا کہ جو شخص شراب پیتا ہے اس روز سے چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی ۔ کیا یہ صحیح ہے ؟ اس کی دلیل بیان کیجئے ؟
دوسری بات یہ ہے کہ کچھ لوگ سود کھاتے ہیں، سود لیتے ہیں اور سود سے قرض لیتے ہیں۔ ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ہم نے سنا کہ ان کے گھر کا کھانا حرام ہے۔
نام …
جواب : شراب کا پینا حرام ہے اور وہ کبیرہ گناہ ہے، اس سے دوری اختیار کرنا اور پرہیز کرنا لازم ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے : یایھاالذین آمنو انما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون انما یرید الشطیان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر المیسر و یصدکم عن ذکراللہ و عن الصلاۃ فھل انتم منتھون (سورۃ المائدۃ : 91-90 )
ترجمہ : اے ایمان والو ! بیشک شراب اور جوا اور نصب کئے گئے بت اور فال کے تیر (سب ) ناپاک شیطانی کام ہیں، سو تم ان سے بچو تاکہ تم کا میاب ہوجاؤ۔
شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوادے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان سب باتوں سے) باز آؤگے۔
شرابی کی مذمت میں بہت ساری احادیث وارد ہوئی ہیں۔ منجملہ ان میں ایک یہ بھی ہے : کل مسکر حرام ، وان علی اللہ عھدا لمن یشرب المسکرأن یسقیہ من طینۃ الخبال قالوا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وما طینۃالخبال ؟ قال : عرق اھل النار او عصارۃ اھل النار (اخرجہ مسلم و النسائی)
نشہ آور چیز حرام ہے اور یقیناً اللہ تعالیٰ کے ذمہ عہد ہے کہ وہ شرابی کو ’’طینہ الخبال‘‘ سے سیراب کرے۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’طینۃ الخیال‘‘ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ دوزخیوں کا پسینہ ہے۔
یہ سچ ہے کہ شرابی کی نمازیں چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من شرب الخمر لم تقبل لہ صلاۃ اربعین صباحا فان تاب تاب اللہ علیہ ، فان عادلم یقبل اللہ لہ صلاۃ اربعین صباحا فان تاب تاب اللہ علیہ فان عاد لم یقبل اللہ صلاۃ اربعین صبا حا فان تاب تاب اللہ علیہ فان عاد فی الربعۃ لم یقبل اللہ صلاۃ اربعین صبا حافان تاب لم یتب اللہ علیہ و سیقاہ الہ من نھر الخبال (ترمذی ، ابوداود ، نسائی)
ترجمہ : جس نے شراب پی اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ پس اگر وہ توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے ۔ پھر اگر وہ دوبارہ شراب پیئے تو اس کی نمازیں چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی۔ پس اگر وہ توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول فرماتا ہے پھر شراب پیئے تو اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوتی اور وہ توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمالیتا ہے۔ اگر وہ چوتھی دفعہ پھر پیئے تو اس کی نمازیں چالیس دن تک قبول نہیں ہوتی اور اگر وہ توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ کو قبول بھی نہیں فرماتا اور اس کو ’’نھرالخبال‘‘ سے سیراب کرتا ہے یعنی دوزخیوں کا پحپ ان کوپلایا جاتا ہے۔
پس اگر کوئی شراب پی لے تو اس پر لازم ہے کہ وہ صدق دل سے توبہ کرے، اپنے کئے پر نادم و شرمسار ہو اور اللہ سے معافی طلب کرے اور ائندہ اس کا ارتکاب نہ کرے۔
واضح رہے کہ شرابی کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں کی جاتی کا مفہوم یہ ہیکہ نماز ادا کرنے سے نماز کی فرضیت تو ساقط ہوجاتی ہے لیکن اس کو نماز کا ثواب دو چند نہیں ملتا۔ وہ مقبولیت اور رضاء سے محروم رہتا ہے۔ فالاوجہ ان یقال : المراد من عدم القبول عدم تضعیف الاجر لکنہ اذا فعلھا بشروطھا برئت ذمتہ من المطالبۃ بھا و یفوتہ قبول الرضا عنہ (فیض ا لقدیر للمنادر)
ربوا (سود) نص قطعی سے حرام ہے، اس کا مرتکب گناہ کبیرہ کا مرتکب فاسق و فاجر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یا یھا الذین آمنوا لا تأکلوا الربو اضعا فامضعفہ واتقواللہ لعلکم تفلحون ۔ اے ایمان والو ٗ دوگنا اور چوگنا کر کے سودمت کھایا کرو اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاؤ (سورۃ آل عمران 130/3 ) سورۃ البقرۃ میں ہے : الذین یاکلون الربوا لا یقومون الا کما یقوم الذی یتخبطہ الشیطان من المس ذلک بانھم قالوا انما البیع مثل الربوا و احل اللہ البیع و حرم الربوا … یمحق اللہ الربوا و یربی الصدقت واللہ لا یحب کل کفار اثیم)
ترجمہ : جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (روز قیامت) کھڑے نہیں ہوسکیں گے ، مگر جیسے وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان (آسیب) نے چھوکر بدحواس کردیا ہو، یہ اس لئے کہ وہ کہتے تھے کہ تجارت (خرید و فروخت) بھی تو سود کی مانند ہے ، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال فرمایا ہے اور سود کو حرام کیا ہے جس کے اپس اس کے رب کے پاس نصیحت پہنچی اور وہ (سود سے) باز آگیا ۔ پس اس کیلئے وہ ہے جو گزرچکا اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جس نے پھر (سود) لیا ہو سو ایسے لوگ جہنمی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور اللہ سود کو مٹاتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت ختم کردیتا ہے) اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر ناشکرے (منکر) گنہگار کو پسند نہیں فرماتا(سوۃ البقرۃ 276/275/2 )
اور جو مال تم سود پر دیتے ہو تاکہ وہ لوگوں کے مالوں میں بڑھتا رہے تو وہ اللہ کے نزدیک نہیں بڑھے گا اور جو مال تم زکوۃ میں دیتے ہو اللہ کی رضا چاہتے ہوئے تو وہی لوگ (اپنا مال اللہ کے پاس) کثرت سے بڑھانے والے ہیں۔ وما آتیتم من ربا لیربوا فی اموال الناس فلو یربوا عنداللہ وما آتیتم من زکوۃ تریدون وجہ اللہ فاولئیک ھم المضعفون (سورۃ الردم 39/30 )
سورۃ بقرہ ہی میں اللہ کا ارشاد ہے : یایھاالذین آمنوا اتقوا اللہ و ذرو مابقی من الربوا ان کنتم مومنین فان لم تفعلوا فاذا نوا بحرب من اللہ و رسولہ وان تبتم فلکم رؤ وس اموالکم لا تظلمون ولا تظلمون۔
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑدو اگر تم ایمان رکھتے ہو۔
پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ پر خبردار ہوجاؤ اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے لئے تمہارے اصل سرمایہ (جائز) ہے، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے(سورۃ البقرۃ 278-277/2 )
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سات ہلاک کرنے والے گناہ سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا ! وہ کیا ہیں ؟ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا ، جادو قتل اور سود کھانا … الیٰ آخر الحدیث)
سود لینا اور دینا دونوں گناہ ہیں، اس سے صدقہ بھی کرے تو قبول نہیں ہوتا، اس کی وجہ سے عمر اور کسب معاش سے برکت ختم ہوجاتی ہے ۔ دل سخت ہوجاتا ہے ۔ سودی معاملہ کرنے والا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا حقدار ہوتا ہے ۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے : لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ کل الربوا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال ھم سواء (الحدیث)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانیوالے ، کھلانے والے ، لکھنے والے اوراس کے گواہوں پر لعنت بھیجی ہے اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔ اس کی وجہ سے خاتمہ خراب ہوتا ہے اور وہ شخص دوزخ کا مستحق ہوجاتا ہے ۔
فقہاء نے صراحت کی ہے کہ جس کی بالکلیہ سود کی آمدنی ہو تو اس کی دعوت میں قطعاً نہیں جانا چاہئے اور اگر اس کے حلال ذرائع آمدنی بھی ہوں تو اس کی دعوت قبول کی جاسکتی ہے ۔ مگر احتیاط کا تقاضہ ہے کہ اس کی دعوت کا کھانا نہ کھایا جائے۔

شوہر سے نااتفاقی اور حج کو روانگی
سوال : میری بیٹی اور داماد دونوں ملکر تین سال سے مسلسل میرے ساتھ حج کیلئے درخواست دیتے آرہے ہیں۔ مگر تین سالوں میںبھی ہمارا نام نہیں آیا۔ اب نام آجائے گا ۔ میںاور میری بیٹی آئندہ سال حج پر جانے کی پوری تیاری کرلئے ہیں ۔ مگر افسوس کہ میری بیٹی اور داماد میں حالات بگڑ گئے ہیںاور وہ لوگ میری بیٹی کو لاکر میرے گھر چھوڑدیئے ہیں اور لڑکی بھی واپس جانا نہیں چاہتی۔ حج پرجانے کیلئے مزید ایک سال سے زیادہ وقت ہے پتہ نہیں اس عرصہ میں کیا حالات ہوں گے ۔ اگر حالات بہتر ہوں گے تو سفر حج کی خوشیاں لوٹ آئیں گی ورنہ ان تین سال کی محنت کا کیا حل نکلے گا اللہ اور اللہ کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ ان تمام حالات میں کیا میں اپنی بیٹی کو اپنے ساتھ آئندہ سال حج پر لے جاسکتا ہوں یا نہیں ؟
عبدالسبحان ، مراد نگر
جواب : عورت کے لئے سفر حج میں شوہر یا عاقل و بالغ محرم دو میں سے کسی ایک کا ہونا شرط ہے۔در مختار جلد 2 صفحہ 510 مطبعہ دار الفکر بیروت کتاب الحج کے آغاز میں ہے: (و) مع (زوج أومحرم) ولو عبدا أوذمیا أوبرضاع (بالغ عاقل والمراھق کبالغ) اور عورت کے سفر حج میں اس کا محرم ساتھ ہو تو پھر شوہر بیوی کو فریضہ حج ادا کرنے سے منع نہیں کرسکتا۔ اسی میں ہے : ولیس لزوجھا منعھا عن حجۃ الاسلام اور رد المحتار میں ہے : (ولیس لزوجھا منعھا) أی اذا کان معھا محرم والا فلہ منعھا کما یمنعھا عن غیر حجۃ الاسلام۔
پس صورت مسئول عنہا میں آپ کی صاحبزادی اپنا فریضہ حج ادا کر رہی ہوں اور اس کے سفر حج میں آپ (والد) ساتھ ہوں تو وہ حج پرجاسکتی ہیں۔ محرم ساتھ ہونے کی صورت میں شوہر کو منع کرنے کا حق نہیں ہے۔

فاتحہ و زیارت
سوال : فاتحہ دینا، زیارت کرنا اور چہلم کرنا اسلام میں ہے یا نہیں ؟ کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے۔
محمد عبدالسلیم، گچی باؤلی، حیدرآباد
جواب : فاتحہ، زیارت، چہلم ، برسی اور دسواں، بیسواں درحقیقت ایصال ثواب کی شکل ہے اور ایصال ثواب بلا اختلاف جائز و پسندیدہ ہے اور وقفہ وقفہ سے میت کو ثواب پہنچانے کی نیت سے فقراء و مساکین کو کھانا کھلانا ، قرآن خوانی کرنا یا کسی کار خیر سے ایصال ثواب کرنا مستحسن ہے اور اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے۔
ردالمحتار جلد اول ص : 631 میں ہے: صرح علمائنا فی باب الحج عن الغیر بأن للانسان ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ او صوما او صدقۃ او غیرھا کذا فی الھدایۃ بل فی زکاۃ التتار خانیہ عن المحیط الافضل لمن یتصدق نفلا ان ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات لانھا تصل الیھم ولا ینقص من اجرہ شئی ۔ وفی البحر: من صام او صلی او تصدق و جعل ثوابہ لغیرہ من الاموات والا حیاء جاز و یصل ثوابھا الیھم عند اھل السنۃ والجماعۃ کذافی البدائع ۔ لہذا حسب موقع و حسب سہولت میت کیلئے ایصال ثواب کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ فاتحہ، زیارت ، چہلم ایصال ثواب کی شکل ہے اس کو محض رسم کے طور پر نہیں کرناچاہئے۔
واضح ہو کہ یہ تمام رسوم کوئی فرض اور واجب نہیں۔ اگر کسی کے پاس استطاعت نہ ہویا کسی اور وجہ سے ان رسوم کو انجام نہیں دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں۔