ڈاکٹر مجید خان
قارئین ’’سیاست‘‘ کے اصرار پر منشیات کے عصری پہلوؤں اور اس کے وقتی روک تھام کے بارے میں ایک اور مضمون پیش خدمت ہے ۔ سب سے پہلے یہ بات معلوم کرنی ضروری ہوتی ہے کہ یہ عادت کس طرح سے شروع ہوئی اور خاندان میں اور کون اس کے عادی ہیں یا تھے ۔ خاص طور سے زیادہ عمر والے اگر تھے تو ان کی صحت کیسی ہے اور بقید حیات نہ ہوں تو پھر موت کی وجہ کیا تھی؟ کم عمری یعنی 60 سال سے پہلے انتقال ہوا ہو تو شراب کے طویل استعمال کی وجہ سے جگر کی خرابی بڑی وجہ ہوسکتی ہے ۔
خاندان کے تمام تر لوگوں کی صحت یا بیماریوں کی تفصیلات بہت ضروری ہیں ،کیونکہ شراب کے استعمال میں بھی موروثیت کو بڑا دخل مانا جارہا ہے ۔ اگر باپ شرابی ہو تو لڑکوں میں شراب سے پرہیز کرنے کی مزاحمت کمزور ہوسکتی ہے ایسی معلومات حفظ ماتقدم کا کام کرتی ہیں ۔ مگر کثرت شراب کے لمبے عرصے کے استعمال سے جب دوسرے اعضا میں عارضہ شروع ہوجاتے ہیں تو پھر اس کی کیفیت کا عزت دار لبادہ پہن کر ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں ۔جہاں تک ہوسکے شراب کے استعمال کا ذکر نہیں کیا جاتا ۔ گھر میں رہنے والوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہیکہ مریض صدر خاندان اور اکیلا آمدنی اور روزی روزگاری مہیا کرنے والا ہوتا ہے ۔ اکثر و بیشتر مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ایک دن کام پر نہ جائے تو فاقے کی نوبت آجاتی ہے ۔ مگر ایسے بھی بہت لوگ ہیں جن کی آمدنی اچھی ہے اور بچے اچھی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ سب شراب کی خرابیوں سے واقف ہوتے ہیں مگر مجال کہ کوئی اس طرف اشارہ کرے ۔
اس موضوع پر گھر میں بات ہی نہیں ہوا کرتی ۔وہ لوگ شرابی کے غصے سے سہمے ہوئے رہتے ہیں ۔ ان حالات میں جب مریض کو اچانک پہلے مضمون میں بیان کی ہوئی کیفیت میں لایا جاتا ہے تو آخر اس کو قابو میں لائیں تو کیسے ؟ اسی لئے مسئلے کے تمام پہلوؤں سے رشتہ داروں کو واقف کرانا ضروری ہوجاتا ہے ۔
مریض کی عزت و آبرو کو بغیر ٹھیس پہنچائے کیسے زہریلے اثرات کو کم کیا جائے ایک نازک مسئلہ بنتا جارہا ہے ۔ اسی لئے علحدگی میں قریبی رشتے داروں کو ساری معلومات پہنچا کر یہ ہیجانی کیفیت دور ہونے کے بعد شراب چھڑانے کی ڈاکٹری مہم شروع کرنی چاہئے ۔ ڈانٹنے ڈپٹنے اور ان کو خطاوار ٹھہرانے سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ۔ مریض کو اپنا رفیق بنانا ضروری ہوجاتا ہے ۔ وہ بیچارہ مجبور ہے ۔ سب برائیاں جانتے ہوئے بھی پوری طرح اپنی طلب پر قابو میں پاسکتا ۔ شراب مانعِ دواؤں سے ہی اس لت اور طلب کی پیاس کی آگ کو بجھایا جاسکتا ہے ۔ سزا اور نصیحتیں کارگر ثابت نہیں ہوتے ۔
بعض لوگ خاموشی سے ہر شام چھپ کرشراب کا استعمال کرتے ہیں اور اپنی خوراک کو محدود رکھتے ہیں ۔ ان لوگوں کو اکثر بے خوابی کی شکایت ہوا کرتی ہے اور بغیر تھوڑی چکھے نیند نہیں آتی ۔ یہ عادت سالہا سال چلتی رہتی ہے اور اس سے کوئی سنگین ضرر جسم و دماغ کو نہیں پہنچتا مگر بعض عادی لوگوں میں یادداشت میں رخنے آسکتے ہیں ۔ رخنے یعنی شراب کے اثر سے یادداشت کا تسلسل ٹوٹ سکتا ہے ۔ اس نشے کی حالت میں کئے ہوئے بعض حرکات یاد ہی نہیں رہتے ۔ یہ خطرناک علامت ہے اور دوروں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔ شراب تو اول نمبر کی نشہ آور چیز ہے ۔ اس کے علاوہ سڑک پر چوری چھپے ملنے والی ، قانونی طور پر جو اشیاء ممنوع ہیں ، ان میں گانجا ، افیون ، گٹکھا ، زردے کا پان ، LSD ، ہیروئن ، نیند کی دوائیں ، کوکین ، کھانسی کی دوا یا ٹانکیں جس میں الکحل کافی مقدار میں رہتا ہے ۔ پٹرول وغیرہ جیسی اشیاء کا سونگھنا وغیرہ وغیرہ ۔
ایک اور نئی وبا جو یوروپ اور امریکہ میں عام ہوگئی ہے اور وہ کبھی بھی ہندوستان میں پھیل سکتی ہے ، نوجوانوں میں ایک اور تباہی کا انقلاب لانے والی ہے ۔ عنقریب یہ بھی شروع ہوسکتی ہے یا ممکن ہے شروع بھی ہوگئی ہو مگر عام نہیں ہوئی ہے ۔ سنا ہے کہ امریکہ اور یوروپ میں چھالیہ جیسی چیزیں چھوٹی چھوٹی دکانوں میں پٹرول گھروں پر کھلے عام بکتی ہیں ۔ پیپرمنٹ کی طرح سمجھئے اور اس پر کسی قسم کی قانونی پابندی ابھی نہیں ہے ۔ چین سے کچھ کیمیائی سیال بخارات کی پھوار کرنے کی ڈبیا میں آتا ہے اسکا شمار خطرناک منشیات میں ہوتا ہے ،مگر اسکا فارمولہ قانونی گرفت میں نہیں آسکا ۔ اس کو سُپاری وغیرہ جیسی چیز پر ڈالا جاتا ہے اور یہ وبا پھیل رہی ہے۔
حاصل بحث یہ ہیکہ ہر ذی فہم شخص کو خاص طور سے سرپرست اور اساتذہ کو ان حالات سے واقفیت رکھنا ضروری ہے ۔ نوجوان بیزاری کا شکار ہورہے ہیں اور تسکین آور اشیاء کا استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے زہریلے اثرات کے تعلق سے سننا بھی گوارا نہیں کرتے ۔
سوشیل میڈیا کے مضر اثرات سے بھی واقفیت ضروری ہے ۔ آج کل نوجوانوں کو ہدایت سوشیل میڈیا کے ذریعے ہی ملا کرتی ہیں ۔ یہ نوجوانوں کی بدبختی ہے ۔ نوجوان کالج جانے والے لڑکے اگر ہوں تو ان کے دوست و احباب سے ملتے رہئے اور ان خطرناک عادتوں پر گفتگو کیجئے ۔
شرابی ہونے سے پہلے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہئے ۔ کوئی بھی شخص شراب کا استعمال کرنے کے بعد جب گھر واپس ہوتا ہے تو اس کی سانس میں شراب کی بو آتی ہے ۔ ممکن ہے اس کی نوکری یا کاروبار ایسا ہو جہاں پر اس کی ملازمت کی بقا دوسروں کا ساتھ دینا ہے تو یہ اسکی مجبوری ہے ۔ کمزور قوت ارادی کا حامل بڑی آسانی سے ان لوگوں کے دباؤ کا شکار ہوجاتا ہے ۔
اس ابتدائی مرحلے میں بیوی اس کو سمجھائے کہ وہ نفسیاتی مشورہ رازداری میں حاصل کرے ،یعنی علاج سربازار ذلیل ہونے سے پہلے کرانا چاہئے ۔ آج کل سڑک کے حادثات بے شمار ہورہے ہیں اور اس حال میں پکڑے جائیں تو پھر ساری عزت مٹی میں مل جائے گی ۔ تھوڑی سی شراب بھی توازن بگاڑ سکتی ہے ۔ طلب اور اسکی مزاحمت کی جو کشمکش چلتی رہتی ہے اسی وقت علاج شروع کرنا چاہئے ۔ اکثر صبح کے اوقات ان لوگوں کی قوت ارادی بہت مضبوط ہوا کرتی ہے اور جیسے جیسے دن ڈھلتا جاتا ہے یہ قوت کمزور پڑتی جاتی ہے اور عادت کا وقت شام آنے پر اپنے ضمیر سے عارضی معاہدہ کرتے ہوئے اور اپنے آپ کو جھوٹا دلاسا دیتے ہوئے کہ آج آخری بار مان کر نگل جاتے ہیں ۔ ایک گھونٹ میں زیادہ ہی ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ یہ بھی صحت کیلئے مضر ہے ۔
سب سے بڑا مسئلہ علاج میں جو رکاوٹ پیدا کرتا ہے وہ ہے انکے ضمیر تک کیسے پہنچا جائے ؟ مذہب کی تلقین ، گناہوں کی گنتی ، جہنم کا خوف یا پھر کسی اور قسم کا اخلاقی دباؤ وغیرہ بے سود ثابت ہوتے ہیں ۔ صرف ان کی رضامندی سے اور ان کی توقیر و تعظیم کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کو علاج کیلئے راضی کرنا ہی ایک مشکل مگر ضروری عمل ہے ۔ یہی کامیاب حکمت عملی ثابت ہوتی ہے ۔
اگر یہی حال رہا تو یہ دنیا تشدد اور منشیات کے سیلاب میں غرق ہونے والی ہے ۔ یہاں پر مدارس کا بہت اہم رول ہے جس کو وہ پورا نہیں کررہے ہیں ۔ گٹکھے کے تعلق سے جو ڈراؤنے ٹیلیویژن اشتہارات دکھائے جاتے ہیں وہ اگر مدارس میں دکھائے جائیں تو معلومات بڑھ سکتی ہیں ۔ صرف نصاب پر توجہ دینا ہی مدارس کا کام ہے ۔ مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یوروپ اور امریکہ میں بھی اس قسم کے کوئی پروگرامس نہیں کئے جاتے ہیں۔