شبلی ۔ ادیب اور نقاد

پروفیسر محسن عثمانی ندوی
ادب اور مشرقی تاریخ کا ہو دیکھنا مخزن
تو شبلی سے وحید عصر و یکتائے زمن دیکھیں
حالی
علامہ شبلی کی شخصیت ہشت پہل ہیرے کی مانند ہے ۔ وہ اردو کے بہترین نثر نگار ، مایہ ناز فنکار ، جدید طرز کے سوانح نگار ، مصلح روزگار ، معلم اور متکلم مورخ اور فلسفی شاعر و سخن شناس ، مسلم یونیورسٹی کے استاد اور زبان و ادب کے نقاد تھے ۔ ان کی ادبی مہارت اور علوم اسلامیہ پر ان کی دسترس اور اس کے ساتھ سیاسی بصیرت ان سب کا اعتراف کیا جاچکا ہے ۔ اقبال سہیل کا شعر ہے
جمع دریک پیکر شبلی جہانے بودہ است
یوسف گم گشتۂ ماکاروانے بودہ است
علامہ شبلی فارسی اور اردو کے قادر الکلام شاعر تھے لیکن یہ ان کے بحر کمال کی سطح مرتفع کی بس ایک لہر ہے ۔ شبلی ایک ماہر تعلیم تھے لیکن یہ بھی ان کے گلشن کمال کا بس ایک غنچہ خوبی ہے ۔ سیرت و تاریخ علم کلام و ادب و سوانح کے موضوعات پر ان کی کتابوں کا ہر نقش نقش دوام بن گیا ہے ۔ اور گردش شام و سحر کے درمیان اس میں ثبات و جاودانی کا جوہر پیدا ہوگیا ہے ۔ اسلامی تاریخ کی سرگزشت عہد گل ہو اور شبلی کا قلم ، لفظ لفظ پر نرگس و نسترن کا گمان ہوتا ہے ۔ شبلی ادب کے اسی اوج کمال پر فائز تھے ۔ اردو زبان ہمیشہ ناز کرے گی کہ اس میں شبلی جیسا ادیب اور شاعر اور ناقد پیدا ہوا ۔ ندوۃ العلماء کو اس پر فخر رہے گا کہ اس کی تاریخ شبلی کے نام سے وابستہ ہے ۔ شبلی ادیب اور شاعر ہونے کے ساتھ نکتہ شناس نقاد بھی تھے ۔ اردو میں تنقید کی روایت سب سے پہلے حالی کے مقدمہ شعر و شاعری سے ملتی ہے ۔ اس روایت کو شبلی نے آگے بڑھایا ۔ انہوں نے تنقید کے ہلال کو بدر منیر اور طفل خوردسال کو مرد قوی و کبیر بنادیا ۔ شبلی کی تنقیدی بصیرت کی آئینہ دار وہ عبارتیں ہیں جو شعر العجم (بالخصوص حصہ چہارم) میں اور موازنہ انیس و دبیر میں ملتی ہیں ۔ یہاں ان کے وہ جواہر پارے اور رشحات قلم پیش کئے جاتے ہیں جن سے بحیثیت نقاد ان کا مقام متعین ہوتا ہے ۔ ’’شاعری درحقیقت مصوری ہے اور یہ ظاہر ہے کہ مادیات اور محسوسات کی تصویر کھینچنا ہو تو کسی قسم کی تخیل اور دیدہ وری کی ضرورت نہیں‘‘ ۔’’شعر جیسا کہ ارسطو کا مذہب ہے ایک قسم کی مصوری ہے فرق صرف یہ ہے کہ مصور صرف مادی اشیاء کی تصویر کھینچتا ہے ۔ بخلاف اس کی شاعر ہر قسم کے خیالات جذبات اور احساسات کی تصویر کھینچ سکتا ہے‘‘ ۔

’’شاعری کا تخاطب جذبات سے ہے اور سائنس کا یقین ہے ، سائنس استدلال سے کام لیتا ہے اور شاعری محرکات کو استعمال کرتی ہے ، سائنس عقل کے سامنے کوئی علمی مسئلہ پیش کرتا ہے لیکن شاعری احساسات کو دلکش منظر دکھاتی ہے‘‘ ۔ ’’ہرچیز جو دل پر استعجاب یا حیرت یا جوش یا اس قسم کا اثر پیدا کرتی ہے شعر ہے ، اس بنا پر فلک نیلگوں ، نجم درخشاں ، نسیم سحر ،گلگونہ شفق ، تبسم گل ، خرام صبا ، نالہ بلبل ، ویرانی دشت ،شادابی چمن غرض تمام عالم شعر ہے‘‘ ۔ ’’اصلی شاعری وہی ہے جس کو سامعین سے کوئی غرض نہ ہو ۔ شاعر اگر اپنے نفس کے بجائے دوسروں کے جذبات کو ابھارنا چاہتا ہے جو کچھ کہتا ہے اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کے لئے کہتا ہے تو وہ شاعر نہیں بلکہ خطیب ہے ، اس لئے یہ واضح ہوگا کہ شاعری تنہا نشینی اور مطالعہ نفس کا نتیجہ ہے بخلاف اس کے خطابت لوگوں سے ملنے جلنے اور راہ و رسم رکھنے کا ثمرہ ہے ، اگر ایک شخص کے اندرونی احساسات تیز اور مشتعل ہیں تو وہ شاعر ہوسکتا ہے لیکن خطاب کے لئے ضروری ہے کہ دوسروں کے جذبات اور احساسات کا نباض ہو‘‘ ۔

’’شعر و زن نغمہ اور رقم کے مجمومہ کا نام ہے‘‘
’’شاعری وجدانی اور ذوقی چیز ہے ۔ شاعری کا دوسرا نام قوت احساس ہے ۔ جب یہی الفاظ کا جامہ پہن لیتاہے تو وہ شعر کہلاتا ہے‘‘ ۔
’’جب انسان پر کوئی قوی جذبہ طاری ہوتا ہے تو بے ساختہ انسان کی زبان سے موزوں الفاظ نکلتے ہیں اسی کا نام شعر ہے‘‘ ۔
’’دردغز ، جوش جذبہ ،غیض غضب ہر ایک کے اظہار کا لہجہ اور آواز مختلف ہے ۔ اس لئے جس جذبہ کی محاکات مقصود ہو شعر کا وزن بھی اس کے مناسب ہونا چاہئے تاکہ اس جذبہ کی پوری حالت ادا ہوسکے‘‘ ۔
’’لفظ جسم ہے اور مضمون روح ہے ۔ دونوں کا ارتباط ایسا ہے جیسے جسم اور روح کا ارتباط کہ وہ کمزور ہوگا تو یہ بھی کمزور ہوگی ۔ پس اگر معنی میں نقص نہ ہو اور لفظ میں ہو تو شعر میں عیب سمجھا جائے گا اسی طرح اگر لفظ اچھے ہوں اور مضمون اچھا نہ ہو تب بھی شعر خراب ہوگا اور مضمون کی خرابی الفاظ پر اثر کرے گی ۔ اسی طرح مضمون گو اچھا ہو لیکن الفاظ برے ہوں تب بھی شعر بے کار ہوگا کیونکہ روح بغیر جسم کے پائی نہیں جاسکتی‘‘ ۔
’’مضمون خواہ کتنا ہی بلند اور نازک ہو لیکن اگر الفاظ مناسب نہیں تو شعر میں کچھ تاثیر پیدا نہ ہوسکے گی جن بڑے شعراء کی نسبت کہا جاتا ہے کہ ان کے کلام میں خامی ہے اسکی زیادہ تر وجہ یہی ہے کہ ان کے ہاں الفاظ کی متانت وقار اور بندش کی درستی میں نقص پایا جاتا ہے‘‘ ۔
’’ہر لفظ چونکہ ایک طرح کا سر ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ جن الفاظ کے سلسلہ میں وہ ترکیب دیا جائے ان آوازوں سے اس کو خاص مناسبت بھی ہو ورنہ گویا دو مختلف سروں کو ترکیب دیدیا جائے تو دونوں مکروہ ہوجائیں گے ۔ راگ کے موثر اور دلکش ہونے کا گر یہی ہے کہ جن سروں سے ان کی تراکیب ہو ان میں انتہائی توازن اور تناسب ہو‘‘ ۔
’’تشبیہ کی دو قسمیں ہیں مفرد اور مرکب ۔ مفرد جس طرح چہرہ کو پھول سے تشبیہ دی جائے اور مرکب یہ کہ جس طرح کہا جائے کہ میدان جنگ میں گرد اٹھی تو اس میں تلواریں اس طرح چمک رہی تھیں جیسے شب کو ستارے ٹوٹتے ہیں‘‘ ۔’’متبادل الفاظ اور تراکیب اور فقروں کے درمیان بہتر انتخاب کا نام بہتر اسلوب ہے‘‘
’’فصاحت کی تعریف علمائے ادب نے یہ کی ہے کہ لفظ میں جو حروف آئیں ان میں تنافر نہ ہو ، الفاظ نامانوس نہ ہوں ، قواعد صرافی کے خلاف نہ ہو ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ لفظ درحقیقت ایک قسم کی آواز ہے اور چونکہ آواز میں بعض دلآویز شیریں اور لطیف ہوتی ہیں مثلاً طوطی اور بلبل کی آواز اور بعض مکروہ اور ناگوار مثلاً کوے اور گدھے کی آواز ۔ اس بنا پر لفظ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں بعض شستہ سبک اور شیریں اور بعض ثقیل اور بھدے اور ناگوار ۔ پہلی قسم کے الفاظ کو فصیح کہتے ہیں اور دوسرے کو غیر فصیح‘‘ ۔

شبلی بحیثیت ادیب اور بحیثیت نقاد ، یہاں شبلی کی صرف ان ہی دو حیثیتوں کا مختصر تعارف مقصود ہے ورنہ بحیثیت شاعر اور بحیثیت محقق مورخ متکلم اور سیرت نگار اور علوم اسلامیہ کی جوئے شیر کے فرہاد کی حیثیت سے بھی زمانہ ان کا اعتراف کرچکا ہے ۔ دنیا میں ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اس کا نام اور کام باقی رہے ۔ اس کا جسمانی وجود اگرچہ ختم ہوچکا ہو لیکن اس کا علمی ذہنی اور فکری وجود اس کا کارنامہ اور اس کا ذکر خیر صدیوں تک ختم نہ ہو ۔ وہ عناصر میں ظہور ترکیب کو باقی رکھنے پر قادر نہیں لیکن اس کی تمنا یہ رہتی ہے کہ ان اجزاء کے پریشان ہونے کے بعد بھی دنیا کی محفل میں اس کا نام روشن رہے اور قید زمان و مکان کی بندوشوں کو توڑ کر جاوداں ہوجائے ۔ اچھے شاعر اور اچھے ادیب اور اچھے مصنف کی یہ تمنا اکثر کامیاب ہوجاتی ہے ۔ یہ تمنا ان قائدین کی بھی پوری ہوجاتی ہے جو اپنے خلوص اور جوش عمل سے لاکھوں انسانوں کو متاثر کردیتے ہیں ۔ کہنے والے نے بڑی حکمت کی بات کہی کہ یا تو دنیا میں اتنا بڑا کام کرکے جاؤ کہ اس کے بارے میں کتابیں لکھی جائیں یا ایسی کتابیں لکھ کر جاؤ کہ ہمیشہ پڑھی جائیں اور وہ ہزاروں انسانو ںکے لئے سرمہ بصیرت بن جائیں اور ان کتابوں کو قبول عام اور حیات دوام حاصل ہوجائے ۔ انسان اگر ایک کتاب بھی اس معیار بھی لکھ ڈالے تو یہ کام دولت و ثروت کے انبار جمع کرلینے سے بہتر ہے ۔ شبلی دنیا سے صرف 57 سال کی عمر میں رخصت ہوگئے لیکن وہ اپنی کتابوں سیرۃ النبیﷺ ، الفاروق ، الغزالی ، المامون ، سیرۃ النعمان ، سوانح مولانا روم ، تاریخ علم الکلام ، شعر العجم ، موازنہ انیس و دبیر وغیرہ کے ذریعہ زندہ رہیں گے ۔ الفاروق تحقیق و زرف نگاہی کا شاہکار ہے ۔ سیرۃ النبیؐ سے بہتر عالمانہ اور انشاء پردازانہ کتاب سیرت پر پہلے نہیں لکھی گئی ۔ مقالات شبلی کے کئی مقالے تلاش و جستجو اوریافت و دریافت کا بہترین نمونہ ہیں ۔ لوگ کتب خانوں سے ان کی کتابیں نکال کر پڑھتے رہیں گے اور ان کا نام عزت و احترام سے لیتے رہیں گے اور ان کو علم و ادب کے پاسبان کی حیثیت سے یاد کیا جاتا رہے گا ۔