کے این واصف
دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ اس کرۂ ارض پر متحدہ طور پر صرف ایک مہم جس پر ساری توانائیاں جھونک دی گئی ہیں، وہ ہے دین اسلام کو بدنام کرنا اور مسلمانوں کو دہشت گرد اور ظالم قرار دینا۔ اس کی وجہ دائرۂ اسلام کا مسلسل پھیلنا اور عالمی سطح پر اس کی مقبولیت میں اضافہ ہونا ہے، جس سے یہودی اور نصرانی طاقتیں بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہئے کہ اسلام ایک دین فطرت ہے۔ اس کی طرف راغب ہونا فطری بات ہے بلکہ اسلام کو بدنام کرنے کی خاطر رچی جانے والی سازشیں ایک حد تک اس کی مقبولیت میں اضافہ کا باعث بھی بن رہی ہیں۔ دنیا کا ہر سمجھ دار اور ذی شعور انسان اس بات کا بخوبی اندازہ رکھتا ہے کہ اسلام ایک امن پسند مذہب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی حصہ میں کبھی کسی مسلمان نے آج تک کسی آسمانی کتاب کی بے حرمتی کی نہ ان پیغمبران کی شان میں گستاخی کی جن پر یہودی و نصرانی ایمان رکھتے ہیں۔ نہ کسی مسلمان حکمران نے ایسی قتل و غارت گری اور بربریت کی جو یہودی اور نصرانی حکمرانوں نے کی ہیں۔ نہ اسلام زور یا زر سے پھیلایا گیا، نہ مسلمانوں کی کرسچن مشنریز کی طرح کوئی منظم مذہبی تنظیم ہے جو لوگوں کو دنیوی منفعت کی لالچ دیکر ان کے عقائد بدلتی ہیں۔ مسلم حکمرانوں نے دنیا کے کئی ممالک پر صدیوں حکمرانی بھی کی۔ وہ جہاں کہیں رہے ہمیشہ اقلیت میں رہے
اور اکثریت پر حکمرانی کی۔ ان کی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ رواداری اور انصاف پسندی نے اکثریت کو ہمیشہ مطمئن اور خوش رکھا۔ دولت اور طاقت رکھنے کے باوجود انہوں نے کبھی دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کیا ۔ ہاں حق کا پیغام لیکر اللہ والے دنیا کے مختلف حصوں میں گئے ۔ حق و صداقت کا پیغام لوگوں کے سامنے رکھا اور جن کو توفیق و ہدایت ہوئی، انہوں نے حق کا راستہ ا پنایا اور دائرے میں اپنی خواہش اور مرضی سے آئے اور یہ طریقہ اور سلسلہ آج بھی ساری دنیا میں جاری ہے ۔ یہ ہدایت پانے والے جب مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں تو پھر دینی تعلیمات کی پوری طرح پابندی کرتے ہیں۔ وہ کبھی دیگر مذاہب کی برائی کرتے ہیں، نہ مذہبی کتابوں کی بے حرمتی کرتے ہیں جبکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے اہل کتاب ہونے کے باوجود نبی کریم محمد مصطفیؐ کی شان اقدس میں مسلسل گستاخیاں کر رہے ہیں ۔ قرآن مجید کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں ایک امریکی شہری نے سر عام باضابطہ اعلان کر کے قرآن مجید کو آگ لگانے کی کوشش کی ۔ نیز جب عراق پر امریکی فوجیوں کے قبضہ کرلیا تھا اور صدام حسین کے محل میں داخل ہوئے تو وہاں رکھے قران مجید کے نسخہ کو اٹھاکر کموڈ میں ڈال کر پانی بہایا۔ ان جاہلوں نے یہ تک نہ سوچا کہ یہ لوگ جس مقدس کتاب کی بے حرمتی کر رہے ہیں، اس میں ان پیغمبران رب العزت کے نام بھی ہیں جن کو وہ مانتے اور احترام کرتے ہیں اور اب اخبارات میں کارٹون شائع کر کے نبی کریم محمدؐ کی شان گستاخی کی جارہی ہے۔ ان گستاخوں کو یہ تک نہیں معلوم کہ یہ نبی جن کی شان میں وہ گستاخی کر رہے ہیں، وہ اس سلسلہ کے آخری نبی ہیں، جن انبیاء کو وہ مانتے ہیں۔ یعنی یہ جہلا خود اپنی مقدس کتابوں سے نا واقف ہیں۔ شاید کی اس جہالت کو دیکھتے ہوئے آخر کار ویٹیکن کے پوپ فرانسیس نے ان کی سرزنش کی۔ پوپ فرانسس نے اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ آزادی اظہار دیگر مذاہب کی تضحیک اور عقائد کی توہین کا حق نہیں دیتا ۔ آزادی اظہار انسان کا بنیادی حق ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حق استعمال کرنے والے دوسروں کے عقائد کا مذاق بنائیں ۔ ویٹیکن پوپ نے اس کے ساتھ ساتھ پیرس میں چارلی ہیبدو کے دفتر پر مذہب کے نام پر حملے کی بھی مذمت کی ۔ ویٹیکن پوپ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ رائے کی آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ۔ البتہ اللہ کے نام سے لوگوں کا خون بہانا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ۔ اظہار رائے کا حق دوسروں کی توہین اور تضحیک کے بغیر استعمال کیا جائے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی دوست میری ماں کے خلاف بدگوئی کرے گا تو اسے مجھ سے مکے کی توقع بھی رکھنی چاہئے ، یہ فطری عمل ہے۔ دوسروں کے عقائد کی توہین ، اشتعال انگیزی اور تضحیک درست نہیں۔ ویٹیکن کے پوپ نے کہا کہ بہت سارے لوگ دیگر مذاہب کے خلاف بدگوئی کرتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں اور دوسروں کے مذہب سے کھیلتے ہیں۔ یہ لوگ اشتعال انگیزی کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ چارلی ہیبدو کو گستاخانہ کارٹونس شائع کرنے کی وجہ سے کئی برس سے شدت پسند گروہوں کی جانب سے دھمکیاں مل رہی تھیں۔ چارلی ہیبدو کا ادارتی عملہ سیکولرازم کے نام پر عیسائیت کے مذہبی پیشواؤں کا بھی مذاق اڑاتا رہا ہے۔ ویٹیکن کے پوپ نے کہا کہ انتہا پسندوں کے حملے حیرت انگیز ہیں لیکن ہمیں اپنے گرجا گھر کی بابت بھی سوچنا چاہئے ۔ ہم کتنی ہی مذہبی جنگوں سے دوچار ہوچکے ہیں، ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ برتھلموس میں مقدس تہوار کی رات کیتھولک فرانس کے پروٹسٹنٹ کا قتل عام کیا تھا ۔ 16 ویں صدی عیسوی کے شروع میں دینی جنگوں کا ریکارڈ ہمیں یاد رکھنا چاہئے ۔ ہم بھی قصوروار تھے ۔ ویٹیکن کے پوپ نے تمام مذاہب کے احترام کی ا پیل کی۔
دوسری جانب امام و خطیب حرم مکی شیخ ڈاکٹر سعود الشریم نے اپنے خطبہ میں پچھلے جمعہ کو مسلمانان عالم پر واضح کیا کہ پیغمبر اسلام محمد مصطفیؐ سے محبت میں کمی کے باعث امت مسلمہ کمزور اور لاچار ہوگئی ۔ رسول اللہ سے حقیقی محبت آپ کے کردار اور گفتار کو اپنی زندگی کا اٹوٹ حصہ بنانے اور نبی رحمتؐ کے انسانیت نواز اخلاق اور اقدار کو دنیا بھر کے انسانوں کے سامنے صاف و شفاف شکل میں اجاگر کرنا ہے ۔ امام حرم نے کہا کہ تمام مسلمانوں کو ظاہر و باطن ہر حال میں خدا ترسی سے کام لینا چاہئے ۔ خدا ترسی دنیا میں مشکلات و مسائل سے نجات کا ذریعہ اور آخرت میں سربلندی کا باعث بنے گی۔ خدا ترسی رزق کے حصول اور تنگی کے ازالے کی کلید ہے۔ تمام مسلمان اللہ کو ناراض کرنے والے امور اور باتوں سے دور رہیں اور ایسے تمام کاموں اور ایسی تمام باتوں سے پرہیز کریں جن سے منع کیا گیا ہے ۔ امام حرم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بہت سارے بندوں کو مختلف خوبیوں اور خصوصیات سے نوازا ہے۔ اگر دینی ولولہ ، مذہبی جوش اور اسلام سے تعلق رکھنے والے لوگ محنت کریں تو وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کیلئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ دینی ولولہ کا اظہار رسولؐ سے محبت کر کے کیا جائے ۔ اسلام نے ہمیں اللہ اور اس کے رسولؐ دونوں سے محبت کا درس دیا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں یہ بات واضح کردیا ہے کہ جو شخص رسول اللہ کی اطاعت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کا تابعدار ہوگا اور جو شخص پیغمبر اسلام کے ہاتھوں پر بیعت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ سے بیعت کرنے والا شمار ہوگا ۔ امام حرم نے یہ بھی کہا کہ امت مسلمہ کی سربلندی، اس کی طاقت ، اس کی عزت اور دشمنوں پر اس کی فتحیابی پیغمبر اسلام محمد مصطفیٰؐ سے سچی محبت سے جڑی ہوئی ہے۔ پیغمبر اسلام سے سچی محبت یہی ہے کہ آپ کے گفتار اور کردار کی پابندی ظاہر و باطن ہر حال میں کی جائے۔ جس شخص نے امت مسلمہ کی فتوحات کی تاریخ پڑھی ہے اور جس شخص نے اقوام عالم کے درمیان امت مسلمہ کی طاقت اور عزت کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، اسے اس بات کا یقین ہوگا کہ امت کی سربلندی پیغمبرؐ اسلام کی کامل تابعداری میں مضمر ہے۔ جب سے امت نے رسولؐ سے محبت میں کمزوری دکھائی ہے، جب سے پیغمبر اسلام کے طریقہ کار سے دوری اختیار کی ہے، جب سے رسولؐ کے پیغام اور آپؐ کی سنت مبارکہ کی نصرت کے سلسلے میں لاتعلقی کا مظاہرہ کیا ہے ،تب سے امت کے نصیب میں کمزوری ، رسوائی اور لاچاری آگئی ہے ۔
رسولؐ سے محبت میں کمزوری کا ایک ثبوت یہ ہے کہ امتی قرآن و سنت پر منقولات اور عقلیات کو ترجیح دینے لگے ہیں ۔ سنت مبارکہ کے خلاف بد زبانی کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ امام حرم نے توجہ دلائی کہ وہ امت جو نبیؐ اسلام کے ساتھ محبت میں کمزوری دکھا رہی ہو ، ذلت ، لاچاری اور اقوام عالم کی ماتحت ہوتی جارہی ہے۔ امام حرم نے کہا کہ فرزندان اسلام اس بات پر یقین رکھیں کہ اگر وہ ا للہ اور اس کے رسولؐ پر کامل یقین کا مظاہرہ کریں گے تو دنیا بھر کے افراد اور معاشرے ان پر غلبہ نہیں پاسکتے۔ انہوں نے توجہ دلائی کہ رسولؐ اللہ سے محبت میں کمی کا مطلب یہ نہیں کہ پیغمبر اسلام سے نفرت کی جارہی ہو۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو غلطی پر ہے۔ ہماری مراد یہ ہے کہ رسولؐ اللہ سے کامل محبت کا فقدان ہے، کامل محبت یہ ہے کہ اپنی ہر فکر اور اپنے ہر نظریے پر رسول اللہ کی حدیث و سنت کو ترجیح دی جائے ۔ پیعمبر اسلام سے محبت کوئی تخیلاتی یا افسانوی امر نہیں ، یہ انسانی استطاعت سے بالا امر نہیں۔ یہ قلبی و ذہنی تعلق کا نام ہے جو لوگ پیغمبر اسلام سے محبت کی نعمت پاتے ہیں، ان کا دل پیغمبر اسلام کے ہر قول و عمل کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کیلئے دھڑکنے لگتا ہے ۔ پیغمبر اسلام سے محبت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی جان ، اپنی دولت ، اپنی اولاد اور اپنی ہر عزیز ترین متاع سے زیادہ پیغمبر اسلام کو چاہے۔ غرور کرنے والوں کو معلوم ہو کہ رسولؐ اللہ سے محبت تواضع و انکساری ہے۔ ظالموں کو علم ہوکہ رسولؐ اللہ دنیا بھر کے انسانوں سے زیادہ انصاف پسند تھے ۔ غداری کرنے، چوری کرنے اور خون بہانے والوں کو معلوم ہو کہ آپؐ ان تمام امور کے مخالف تھے۔
یہ بڑی خوش آئیند بات ہے کہ ایک طرف عیسائیوں کے پیشوا پوپ فرانسس نے اپنے مذہبی پیرؤں کی سرزنش کی۔ ان کو صحیح اور غلط کی تمیز کرائی۔ آج عالمی سطح پر دنیا میں فساد بپا کرنے کی سازشیں رچنے والے کچھ غیر پختہ ذہن افراد کو استعمال کر کے اپنے ناپاک افکا رکو عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ زمین پر فساد مچانے والوں کے بہکاوے میں آنے والے ان کم سمجھ افراد کی رہنمائی اور سرزنش ضروری تھی۔ دوسری طرف امام کعبہ ڈاکٹر سعود الشریم نے ایسے ناک حالات میں مسلمانوں کو حکمت سے کام لینے اور پیغمبر اسلام سے محبت کرنے ، قرآن و سنت پر عمل پیرا ہوکر دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا راستہ دکھایا ۔ اللہ کرے کہ ہر دو مذاہب کے ماننے والے اپنے مذہبی رہنماؤں کی باتوں کو سنجیدگی سے لیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں تاکہ زمین پر ہورہے جھگڑے فساد ، خون خرابے ، قتل و غارت گری کا خاتمہ ہو جس سے انسانیت شرمسار اور رسوا ہورہی ہے ۔
اے مری گل زمین تجھے چاہ تھی اِک کتاب کی
اہلِ کتاب نے مگر کیا تیرا حال کردیا
پروین شاکرؔ
knwasif@yahoo.com