شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات

کے این واصف
بین الاقوامی سطح پر منایا گیا ’’یوم یوگا‘‘ ریاض سمیت سعودی عرب کے مختلف شہروں میں بھی منایا گیا ۔ یوگا کے اس پہلے عالمی دن کے موقع پر سفارت خانہ ہند ریاض اور دمام اور ریاض کے انٹرنیشنل انڈین اسکولوں اور انٹرنیشنل انڈین پبلک اسکول میں یوگا تقریبات منائی گئی ۔ سفارت خانہ نے اس موقع پر لکچر کا بھی اہتمام کیا اور یوگا کا عملی مظاہرہ بھی کیا گیا ۔ جس میں سفارت کاروں اور معزز مہمانوں نے شرکت کی ۔ اس موقع پر انٹرنیشنل انڈین اسکول ریاض کے طلبہ نے یوگا کے مختلف آسن بھی پیش کئے ۔ بتایا گیا کہ دمام ، ریاض کے انٹرنیشنل انڈین پبلک اسکول میں تقریباً 1500 طلبہ نے یوگا کی تقریبات میں حصہ لیا ۔ سفارت خانہ ہند ریاض نے اس سلسلہ میں ایک ہفتہ قبل ایک پریس کانفرنس بھی طلب کی تھی جس میں یوم یوگا کی غرض غایت سے واقف کرایا گیا۔

ادھر وطن میں بھی یوم یوگا حکومتی سطح پر بڑے پیمانے پر منایاگیا ۔ جس میں وزیراعظم نریندر مودی نے دہلی کے راج پتھ پر منعقد یوم یوگا پروگرام میں حصہ لیا اور اسی روز راج پتھ کو ’’یوگا پتھ‘‘ میں بھی تبدیل کردیا ۔ یوم یوگا صفائی مہم (سوچھ بھارت) کے بعد حکومت کی سطح پر چلائی جانے والی دوسری مہم ہے اور یہ دونوں مہم مختلف حوالے سے میڈیا اور عوام میں بحث کا موضوع بنے اور ایسا کیوں نہ ہو ، ملک کے کروڑہا عوام ایک سال سے بی جے پی حکومت کے انتخابی وعدے ’’اچھے دن‘‘ پر آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں ۔ بی جے پی حکومت جسے دوران الیکشن ’’مودی سرکار‘‘ کہا جاتا تھا نے بہت سے خوش کن نعرے دیئے ، بلند بانگ دعوے کئے ، ہتھیلی میں جنت دکھائی ، لوگوںکو گھر بیٹھے لکھ پتی بنانے کے خواب دکھائے وغیرہ ۔
حکومت کے پہلے چند ماہ تو ایام وصل (ہنی مون) کی طرح گزر گئے ۔ مگر جب اچھے دن کی آس میں بیٹھی عوام میں حکومت نے بے چینی کی لہر دیکھی تو فوراً ان کے ذہن کو صفائی مہم (سوچھ بھارت) کی طرف موڑ دیا ۔ چلو اس مہم سے کچھ نہیں تو عوام کے ذہن میں اپنے اطراف کے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی اہمیت تو اجاگر ہوئی مگر اس کے ساتھ ساتھ سیکولر ذہن ہندوستانیوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ظاہری صفائی کے ساتھ ساتھ اگر سنگھ پریوار اپنے ذہن کی صفائی بھی کرلیتا تو بھارت صحیح معنوں میں سوچھ بھارت ہوجاتا ۔

صفائی مہم ختم ہوئی ۔ اس مہم پر عوام کی جانب سے حکومت کی بجا ستائش اور تنقید دونوں ہوئی ، پھر اس سے پہلے کہ عوام کے ذہن پھر سے اچھے دن کی مانگ کریں حکومت نے عوامی سطح پر یوگا پروگرام کا انعقاد عمل میں لاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ حکومت عوام کے لئے مسلسل کچھ نہ کچھ کررہی ہے مگر حکومت کی یہ مہم بہت زیادہ نزاعی شکل اختیار کرگئی ۔ خصوصاً مسلم اقلیت نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔ کیونکہ یوگا کا ’’سوریہ نمسکار‘‘ آسن مسلمانوں کے بنیادی عقیدے سے ٹکراتا ہے ۔ مسلمان اللہ کے سوا نہ کسی کے آگے سرجھکاتا ہے نہ ہاتھ جوڑتا ہے ۔ زمین و آسمان پر انسان کو نظر آنے والی کوئی بھی طاقتور شئے ہو یا حقیر وہ خالق کائنات کی پیدا کردہ ہے ۔ لہذا قادر مطلق صرف اور صرف اللہ رب العزت ہے اور مسلمان صرف اسی کے آگے سرجھکاتا ہے اور اسی کی عبادت کرتا ہے ۔ ادھر مرکزی وزیر تعلیم نے یوگا کو اسکولز میں لازمی قرار دے دیا لہذا اس پر مسلمانوں کا احتجاج فطری ہے ۔
ورزش کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے اور انسان اس کی اہمیت سے واقف بھی رہا ہے ۔ سائنسی ایجادات نے انسانی زندگی میں بہت آسانیاں پیدا کیں ، ہر کام کو سہل سے سہل ترین بنایا جس سے آدمی آرام دہ زندگی کا عادی ہوتا چلا گیا لہذا اب انسان کیلئے اپنے آپ کو صحت مند برقرار رکھنے کیلئے ورزش ضروری ہوگئی ۔ کیونکہ وہ اپنے روزمرہ کے کام بغیر زیادہ جسمانی محنت کے پورے کرتا ہے ۔ دیگر طریقے ورزش کی طرح یوگا بھی ایک ورزش ہے ۔ لہذا ضروری نہیں کہ ہر شخص ورزش کیلئے یوگا ہی کرے ۔ اس پر مسلمانوں کے مدلل اور واجبی اعتراض کے باوجود یوگا کو لازمی قرار دینا غیر واجبی اور غیر آئینی ہے ۔ اور ملک کی ایک بڑی اقلیت کو عاجز کرنا انھیں خواہ مخواہ تنگ کرنے کے سوا کچھ نہیں ۔ حکومت اگر عوام کی صحت کو پیش نظر رکھ کر یوگا عام کرنا یا یوگا کو بچوں کیلئے اسکولز میں لازمی قرار دے رہی ہے تو یہ ایک قابل ستائش اقدام ہے مگر ایک اچھے مقصد کے پیچھے ایک بڑی اقلیت کے جذبات کو مجروح کرنے کی کوشش کا جو پوشیدہ ایجنڈا ہے وہ قابل مذمت ہے ۔ یوگا ایک ورزش ہے جو ہر انسان کو اپنی صحت کی بہتری کیلئے کرنا چاہئے ۔ مگر اس اچھے مقصد کو زعفرانی بنانا اس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یوگا کی آر میں حکومت فرقہ واریت اور ملک میں فرقوں کے بیچ نفرت پھیلانے کی کوشش کررہی ہے ۔ یہ ایک تیر سے دوشکار کرکے اکثریتی طبقہ پر یہ ظاہر کرنا ہے کہ مسلمان ہمارے ساتھ نہیں اور اس طرح ان کا جو ایجنڈا ہے کہ مسلمانوں کو قومی دھارے سے الگ کرنا یہ اسی ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ مسلمان یوگا ضرور کرسکتا ہے لیکن ایسا کوئی عمل یا آسن نہیں کرے گا جس میں اللہ کے سوا کسی اور شئے کی پرستش کا شائبہ ہو اور یہ بات سنگھ پریوار بھی اچھی طرح جانتا ہے ۔

اس سارے معاملے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ حکومت کی یوگا مہم کا فائدہ یا اس کی ضرورت ملک کے کن افراد کو ہے اس سے صاف ظاہر ہوجائے گا کہ یوگا امیر ترین یا کم از کم اعلی متوسط درجہ کے لوگوں کی ضرورت ہے اور اس بات سے سب ہی واقف ہیں کہ مودی حکومت کا پورا فوکس ہمیشہ بڑے صنعتکاروں اور دولت مند افراد کو فائدہ پہنچانے کی طرف رہتا ہے ۔ اور یہ یوگا مہم اسی کا حصہ ہے ۔ کیا حکومت اس بات سے واقف نہیں کہ ہندوستان میں روزانہ 14 کروڑ لوگ بھوکے سونے پر مجبور ہیں ۔ اور اتنی ہی تعداد طلوع شمس سے غروب آفتاب تک سخت محنت کرنے کے باوجود انھیں بھر پیٹ کھانا میسر نہیں آتا ۔ لاکھوں لوگ ملاوٹ زدہ اور غیر معیاری غذائی اشیا کھاکر بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں ۔ ملک کی ایک بڑی آبادی کو آج بھی پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے ۔ ملک کے لاکھوں نوجوان روزگار کی تلاش میں صبح سے شام تک مارے مارے پھررہے ہیں ۔ بھوکے پیٹ سونے والوں اور آدھا پیٹ کھا کر صبر کرنے والے جن کی تعداد تقریباً ملک کی آبادی کا پچاس فیصد ہے کا مسئلہ ورزش نہیں ۔ بابارام دیو اور دیگر یوگا گرو ایسے ’’یوگا آسن‘‘ کی دریافت کریں جس سے انسان کی بھوک مٹ جائے ، ایسے یوگا آسن دریافت کرے جس سے انسانی ذہن بھی صاف و صحت مند ہو ۔ اس کے ذہن سے نفرت کی آگ دور ہو ، وہ ہر چیز کو فرقہ پرستی کے زاویہ سے سوچنے کی عادت چھوڑ دے ۔ معاملات اور مسائل کو انسانی نقطہ نظر سے دیکھے اور سوچے نہ کہ مذہب اور فرقہ کی بنیاد پر ۔ صفائی مہم اور یوگا ٹھیک ہے لیکن وقت کی اہم ضرورت ’’یوم عدم تشدد‘‘ منانے کی ہے جسے حکومت نے بھلادیا ۔ دو اکتوبر مہاتما گاندھی کے یوم پیدائش پر یہ مہم بھی بین الاقوامی سطح پر منائی جاتی رہی ہے اس کا احیا ہو ۔ ملک سے نفرتیں اور تشدد کا خاتمہ ہو ۔ امن و آشتی کا بولا بالا ہو تو پھر یوگا بھی اچھا ہے اور صفائی مہم کا بھی خوش آمدید ہے ۔
شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں مری بات
اموبا ریاض کی تنظیم جدید
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن ریاض کی 3 سالہ میعاد کی تکمیل پر جمہوری طرز پر نئے انتخاب کرائے گئے اور اموبا ریاض کی تنظیم جدید عمل میں آئی ۔ ڈاکٹر محمد احمد بادشاہ کی زیر قیادت کام کررہی پچھلی کمیٹی نے نو منتخب اراکین کو علیگڑھ کی روایات کے مطابق ایک تقریب میں اپنے عہدوں کا جائزہ دیا ۔ نو منتخب کمیٹی کے صدر انجینئر سہیل احمد ، نائب صدر سلمان خالد ، جنرل سکریٹری ارشد علی خان اور خازن سید محمد مطیب ہیں ۔

اراکین عاملہ میں ڈاکٹر عبدالاحد چودھری ، فیروز خاں ، ارشاد احمد خاں ، محمد عارف ، ابرار حسین اور بابر علی شامل ہیں ۔ نئی کمیٹی کے عہدہ سنبھالنے کی اس تقریب میں علیگ برادری کی ایک بڑی تعداد ، ریاض کی دیگر سماجی تنظیموں کے اراکین اور معززان شہر کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ اس پروقار تقریب کی صدارت سینئر علیگ انجینئر طارق مسعود نے کی ۔ تقریب کا آغاز ڈاکٹر عبدالاحد چودھری کی قرأت کلام پاک سے ہوا ۔ جس کے بعد سابق کمیٹی کے اراکین نے الیکشن کمشنر ، نو منتخب کمیٹی کے اراکین کو گلدستے پیش کرتے ہوئے ان کا خیر مقدم کیا ۔ سابق صدر ڈاکٹر محمد احمد بادشاہ نے آڈیو ویژول شو کے ذریعہ اپنے دور کی دلچسپ انداز میں تفصیلی رپورٹ پیش کی ۔ نو منتخب صدر نے اپنے خطاب میں اپنے عزائم ، مستقبل کے لئے مرتب پروگرامس وغیرہ کا ذکر کیا ۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ماہ رمضان میں اموبا ریاض کی جانب سے وطن میں غریب اور مستحقین میں افطار کی تقسیم کا انتظام کیا جائے گا ۔ اس موقع پر سابق صدر ڈاکٹر محمد احمد بادشاہ ، نائب صدر نسیم اختر ، جنرل سکریٹری تقی الدین میر اور تمام اراکین عاملہ کو ان کی خدمات کے اعتراف میں سرٹیفیکٹ اور یادگاری مومنٹوز پیش کئے گئے ۔ صدر محفل طارق مسعود نے اپنے مختصر خطاب میں امید ظاہر کی کہ نومنتخب کمیٹی جامعہ علیگڑھ اور اموبا کی روایات کی پاسداری کرے گی اور علیگرین کی خصوصی طور پر اور کمیونٹی کی عمومی طور پر خوب سے خوب تر انداز میں خدمات انجام دے گی ۔
ایک مقامی ریسٹورنٹ میں منعقد اس تقریب کے آخر میں نائب صدر سلمان خالد کے ھدیہ تشکر پیش کیا ۔ تقریب کی نظامت کے فرائض محمد ضیغم خاں نے انجام دیئے ۔ آخر میں نومنتخب صدر سہیل احمد کو مختلف سماجی تنظیموں کے اراکین نے گلدستے پیش کرتے ہوئے انھیں مبارکباد پیش کی ۔