شاید بہت مٹھاس ہمارے لہو میں ہے

رشیدالدین
نریندر مودی کی زیر قیادت بی جے پی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد ملک میں اچھے دنوں کا وعدہ بھلے ہی پورا نہیں ہوا لیکن جارحانہ فرقہ پرستی کے ایجنڈہ پر عمل پیرا تنظیموں کیلئے اچھے دن ضرور آچکے ہیں۔ وہ اس اعتبار سے کہ نفرت کے ان سوداگروں کو مودی راج میں کھلی چھوٹ مل چکی ہے۔ 26 جولائی کو نریندر مودی حکومت کے دو ماہ مکمل ہوئے اور اس مدت کے دوران ملک کے مختلف حصوں اور خاص طور پر اترپردیش میں فرقہ وارانہ فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ چل پڑا ہے۔ مظفر نگر میں ہوئے مظالم کے بعد مسلم اقلیت کے زخم ابھی تازہ تھے کہ مراد آباد ، میرٹھ اور گزشتہ دنوں سہارنپور میں مسلم اقلیت کے جان و مال کو نشانہ بنایا گیا ۔ بریلی اور مدھیہ پردیش کے کھنڈوا میں بھی فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات پیش آئے ہیں۔ اسے محض اتفاق تو نہیں کہا جاسکتا کہ جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات قریب ہیں

ان ریاستوں میں فرقہ واریت کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ اترپردیش ، مہاراشٹرا اور جموں و کشمیر میں حالیہ عرصہ میں سنگھ پریوار کچھ زیادہ ہی متحرک دیکھا گیا۔ اگرچہ تلنگانہ میں انتخابات کیلئے ابھی پانچ برس باقی ہیں لیکن بی جے پی اپنے قدم جمانے کیلئے مختلف علاقوں میں صورتحال بگاڑنے پر آمادہ ہے۔ بعض مقامات پر مسلمانوں کو عید الفطر کی ادائیگی سے بھی روکا گیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سنگھ پریوار اور اس کی ہم خیال تنظیموں کو شر انگیزی اور منافرت پھیلانے کا گویا لائسنس جاری کردیا گیا ہے۔ عام انتخابات میں مودی کے سپہ سالار امیت شاہ نے اترپردیش میں مذہب کی بنیاد پر ووٹ کی تقسیم کا جو کامیاب تجربہ کیا،

اسی کو اسمبلی انتخابات میں بھی دہرانے کا منصوبہ ہے۔ اترپردیش میں امیت شاہ کی کامیابی کے صلہ میں انہیں پارٹی کی قومی صدارت تحفہ میں پیش کی گئی تاکہ وزیراعظم اور ان کے سپہ سالار ملک بھر میں اسی حکمت عملی کو روبہ عمل لاسکیں۔ مظفر نگر کے متاثرین کے زخم ابھی تازہ تھے کہ مسلمانوں کو ترقی میں مناسب حصہ داری اور یکساں انصاف کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی نے مظفر نگر فسادات کے ملزم کو مرکزی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے دنیا کو یہ پیام دیا کہ ’’ملک میں قاتل کو بچانے کا چلن ہے‘‘۔ گزشتہ دنوں حیدرآباد کے دورہ پر آئے ہوئے بعض قومی سیاسی تجزیہ نگاروں سے ملاقات کے دوران ہم نے نریندر مودی حکومت کے بارے میں رائے جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران مودی جس تیزی سے مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گئے تھے، وزارت عظمی پر فائز ہونے کے دو ماہ کے عرصہ میں مقبولیت کا گراف تیزی سے گرنے لگا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق حکومت پر سنگھ پریوار کی گرفت نے جیسے مودی کو بندھی بنادیا ہے اور وہ وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی شناخت بنانے تگ و دو کر رہے ہیں۔ سیاسی مبصرین کی اس رائے سے ہمارے تجزیہ کو بھی جیسے تقویت حاصل ہوئی ہے۔ حقیقیت بھی یہی ہے کہ عام آدمی کو ہتھیلی میں جنت دکھاکر اقتدار حاصل کرنے والے مودی عام آدمی کی بھلائی کے حق میں ایک بھی وعدہ کی تکمیل سے قاصر رہے اور وہ وزیراعظم کی حیثیت سے خود کو فیصلہ ساز اور بااختیار ثابت کرنے میں ناکام رہے ۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اگر مودی سنگھ پریوار کے ہندو راشٹر کے منصوبہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں تو ان کا حشر بھی ایل کے اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسا ہوجائے گا، جنہیں رام مندر کی تحریک کیلئے استعمال کرنے کے بعد پارٹی میں انگشت ششم بنادیا گیا ہے۔ عیدالفطر سے عین قبل اترپردیش کے سہارنپور اور جموں و کشمیر کے کٹھوا ضلع میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔ ایک ہفتہ میں پانچ ایسے واقعات رونما ہوئے جو سنگھ پریوار کے خفیہ ایجنڈہ پر عمل آوری کا ثبوت ہیں

جن میں ثانیہ مرزا کو تلنگانہ کا برانڈ ایمبیسڈر بنانے پر سنگھ کا چراغ پا ہونا ، مراد آباد میں مندر کے لاؤڈ اسپیکر کے مسئلہ پر عدالتی احکام کے باوجود بی جے پی اور وی ایچ پی کی شر انگیزی ، گجرات کے سرکاری مدارس میں قابل اعتراض مواد کی نصاب میں شمولیت ، دہلی کے مہاراشٹر سدن میں شیوسینا ارکان پارلیمنٹ کی مسلم ملازم کے ساتھ دست درازی اور گوا کے ڈپٹی چیف منسٹر کا بیان شامل ہیں جس میں انہوں نے ہندوستان کو ہندو راشٹر قرار دیا ۔ عام انتخابات کے تجربہ کے بعد تعصب اور فرقہ پرستی کی کھیتی کیلئے اترپردیش کی زمین سنگھ پریوار کو کافی زرخیز دکھائی دینے لگی ہے۔ لہذا اترپردیش کو تجربہ گاہ میں تبدیل کردیا گیا ۔ امریکی ڈپارٹمنٹ آف اسٹیٹ کے شعبہ عالمی مذہبی آزادی کی رپورٹ کے مطابق فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اترپردیش سرفہرست ہے، جہاں گزشتہ سال سب سے زیادہ وا قعات اور ہلاکتیں ہوئیں۔ سیکولرازم اور مسلم ہمدردی کا نقاب اوڑھے ملائم سنگھ یادو کی حکومت میں 2011 ء کے مقابلہ 2013 ء تک فرقہ وارانہ نوعیت کے واقعات میں تین گنا اضافہ ہوا۔ 2011 ء میں 84 ، 2012 ء میں 118 واقعات پیش آئے تھے لیکن 2013 ء میں 247 واقعات اور 77 ہلاکتیں ہوئیں۔ ان میں سب سے زیادہ ہلاکتیں مظفر نگر واقعات میں ہوئی ہیں۔ سیکولرازم کے ٹھیکیدار ملائم سنگھ اور اکھلیش یادو دراصل اپنا ووٹ بینک مستحکم کرنے کیلئے سنگھ کے ایجنڈہ پر کاربند دکھائی دے رہے ہیں۔ کلیان سنگھ کی سابق میں سماج وادی پارٹی میں شمولیت سے ملائم سنگھ کا حقیقی چہرہ بے نقاب ہوچکا تھا ۔

جب مظفر نگر میں متاثرین بے سر و سامانی کے عالم میں حکومت کی امداد کے منتظر تھے تو دوسری طرف ملائم سنگھ کے آبائی گاؤں میں فلمی ستاروں کے ساتھ محفل رقص و سرور کا اہتمام کیا گیا تھا ۔ صرف جاریہ سال اب تک فرقہ وارانہ نوعیت کے 30 تا 35 واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ واقعات کا یہ تسلسل حکومت کی ناکامی اور لاء اینڈ آر ڈر مشنری کے ٹھپ ہوجانے کا کھلا ثبوت ہے۔ مظفر نگر فسادات کے بعد آخر حکومت نے چوکسی اختیار کیوں نہیں کی ؟ سنگھ پریوار اور بی جے پی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اکھلیش حکومت اپنی ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی۔ سنگھ پریوار کا کام ہی بھڑکانا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت ان کے منصوبوں کو ناکام بنانے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئی؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلم قیادت اور عام مسلمانوں کی بے حسی کے سبب بھی خون مسلم ارزاں ہوچکا ہے ۔ مظفر نگر سے لیکر سہارنپور کے واقعات تک مسلم قیادت حکومت پر اثر انداز ہونے میں ناکام رہی۔ جماعتوں اور قائدین نے حالیہ واقعات کے خلاف مناسب انداز میں احتجاج تک نہیں کیا۔ انہیں چیف منسٹر پنجاب پرکاش سنگھ بادل سے سبق لینا چاہئے جو سہارنپور واقعات میں سکھ طبقہ کی تکالیف پر تڑپ اٹھے۔ پنجاب میں بیٹھے ہوئے پرکاش سنگھ بادل کا دل اترپردیش کے سکھوں کیلئے تڑپ اٹھا لیکن مسلم قیادتیں بے حس رہیں۔ حتیٰ کہ ملک کے واحد مسلم چیف منسٹر عمر اللہ کا دل ہندوستان کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں کی حالات زار پر کبھی دکھی نہیں ہوا ۔ راج ناتھ سنگھ نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے پونے کا دورہ کیا جہاں زمین کھسکنے سے اموات ہوئیں لیکن انہیں سہارنپور کے مسلمانوں کا حال جاننے کی فکر نہیں ہوئی۔

سہارنپور کے متاثرین کا قصور شاید یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کے ستمبر میں دورہ امریکہ کے پیش نظر دونوں ممالک کے مفادات طئے کرنے امریکی سکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے ہندوستان کا دورہ کیا۔ غزہ کی صورتحال اور ایران سے نیوکلیئر مذاکرات جیسی اہم مصروفیات کے باوجود کیری کا دورہ ہند اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلہ ہندوستان میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ہر انسانیت اور انصاف پسند شخص نے احتجاج کیا۔ ملک کے ہر بڑے چھوٹے شہر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جس میں اسرائیل کی سرپرستی کیلئے امریکہ کی مذمت کی جارہی ہے لیکن افسوس کہ مرکزی حکومت نے پارلیمنٹ میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔ شاید امریکہ سے رشتوں کے استحکام کی سمت مودی حکومت کا یہ خیرسگالی کا مظاہرہ تھا۔ بتایا جاتاہے کہ نیوکلیئر مذاکرات کے مسئلہ پر ایران کو امریکی شرائط قبول کرانے کیلئے ہندوستان کے ذریعہ اثر انداز ہونے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ جان کیری سے ملاقات کے دوران وزیر خارجہ سشما سوراج نے ہندوستانی قائدین کی جاسوسی کیلئے عملاً امریکہ کو ذمہ دار قرار دیا ۔

دوستوں کے درمیان جاسوسی ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے سشما سوراج نے اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی ہے۔ جس دن جان کیری ہندوستان پہنچے ، اسی دن پارلیمنٹ میں راج ناتھ سنگھ نے مرکزی وزیر نتن گڈگری کی جاسوسی کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیا تھا لیکن اچانک جان کیری سے ملاقات کے دوران یہ مسئلہ چھیڑ دیا گیا ۔ حکومت کو وضاحت کرنی چاہئے کہ واقعی امریکہ کی جانب سے جاسوسی کا سلسلہ ابھی جاری ہے؟ نتن گڈگری کی جاسوسی کے تار دراصل امریکہ نہیں بلکہ خود بی جے پی کے داخلی خلفشار اور عدم اعتماد سے جڑے دکھائی دیتے ہیں۔ گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے مودی نے وزراء اور ارکان اسمبلی کی جاسوسی کی تھی۔ گجرات میں 29,000 افراد کے فون ٹائپ کئے گئے تھے۔ ممکن ہے کہ نریندر مودی پارٹی قائدین پر نظر رکھنے کیلئے گجرات کا تجربہ دہرا رہے ہوں۔ مودی کا خوف کچھ اس قدر طاری ہے کہ نتن گڈگری کچھ کہنے سے بچ رہے ہیں ۔ جاسوسی بھلے ہی امریکہ کی جانب سے ہو یا کسی اور کے یہ ملک کی داخلی سلامتی کو ایک چیلنج ہے۔ وزیر اعظم کی خاموشی بھی ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ اترپردیش اور دیگر علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات کے تسلسل پر منور رانا کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
موقع جسے بھی ملتا ہے پیتا ضرور ہے
شاید بہت مٹھاس ہمارے لہو میں ہے