لاہور۔ یکم ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام )شاہد آفریدی پاکستانی ٹوئنٹی ٹیم کے ساتھ اپنے بوم بوم خطاب کی بھی لاج رکھنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور 3 سال میں 37 ٹوئنٹی 20 میچوں میں کوئی ایک نصف سنچری بھی اسکور نہیں کر سکے۔ اس ضمن میں انگلینڈ کے خلاف آخری ٹوئنٹی 20 مقابلہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ہے اور آفریدی کے مستقبل کے بارے میں بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ ایک کے بعد ایک شکست پاکستان کے گلے کا ہار بنی جبکہ خود کپتان آفریدی بھی عوام کو مایوس ہی کیا۔ ٹسٹ اور پھر ونڈے میں ناکامی کے بعد ٹوئنٹی 20 ٹیم قیادت سنبھالنے والے آفریدی کی ریکارڈ بُک تنزلی کا شکار ہے۔ آل راؤنڈر نے 3 جون 2012 کو سری لنکا کے خلاف آخری نصف سنچری اسکور کی تھی پھر تین سال اور 37 میچ گذر گئے لیکن اسکور بورڈ ان کی ایک نصف سنچری کو ترس گیا۔ بوم بوم کا لقب والے شاہد آفریدی 14 مرتبہ دہرے ہندسے کو بھی عبور نہ کر سکے 3 مرتبہ وہ صفر پر ہی آؤٹ ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ سب سے زیادہ 87 ٹوئنٹی20 میچوں میں سے 32 مقابلوں کی قیادت سنبھالنے والے 35 سالہ شاہد آفریدی کو ذمہ داری لینا آخر کب آئے گا۔ درجہ بندی کیلئے بڑا خطرہ بننے والی سیریز میں کپتان کی قیادت اور کارکردگی قدرے بہتر رہی۔ پہلے میچ میں بولنگ اور بیٹنگ مایوس رہی ، باقی دونوں میچوں میں مجموعی طور پر 53 رنز اور 5 وکٹیں تھیں۔ ان تلخ حقائق کے سامنے کچھ چبھتے ہوئے سوال سب کو لاجواب کر رہے ہیں۔ کیا آفریدی اب قیادت حتیٰ کہ نمائندگی کے مستحق ہیں؟ ورلڈ کپ عنقریب ہے لیکن ٹوئنٹی 20کی ماہر ٹیم کے سرپر ہاتھ کسی کا نہیں، کپتان کا رول ماڈل سوالیہ نشان بن گیا ؟ کیا آفریدی ٹیم کاایک جان بنانے یا پھر گروہ بندی کے ماہر ہیں؟ ایسی مایوس کن کارکردگی اور پھر نمائندگی کی ڈھٹائی کیسی ہے؟
یہ طے کرنا ہو گا کہ آفریدی ٹیم کے ماتھے کا جھومر ہیں یا پھر کلنک کا ٹیکہ؟ کچھ مداحوں کا موقف ہے کہ آفریدی بیٹسمین نہیں، صرف بولر ہیں لیکن یہ بھی تو ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے ونڈے میں تیز ترین سنچری اسکور کی تھی۔ آفریدی کو ہر گوشہ پر بہت پذیرائی دی گئی ہے اور دی جا رہی ہے لیکن جب ان کی کارکردگی دیکھیں تو وہ ان کی اس پذیرائی شایان شان نہیں رہی ہے اور بطور کپتان تو حالات اور بھی مایوس کن ہیں۔