مونٹریاکس (سوئزرلینڈ) ۔ 23 جنوری ۔ (سیاست ڈاٹ کام ) اقوام متحدہ کے ثالثی لخضر براہیمی شام کے متحارب فریقوں سے آج بند دروازوں کے پیچھے علحدہ ملاقاتیں کررہے ہیں تاکہ یہ پتہ چلایا جاسکے کہ آیا وہ امن کانفرنس کا پہلا روز تلخی بھرے ریمارکس کی نظر ہوجانے کے بعد دوبدو مل بیٹھ کر معاملوں کو سلجھانے کیلئے تیار ہیں۔ براہیمی صدر بشارالاسد کی حکومت اور اپوزیشن دونوں طرف کے مندوبین کے ساتھ علحدہ اجلاس منعقد کریں گے جبکہ کل جنیوا میں مکمل نوعیت کی بات چیت کا احیاء ہونے والا ہے۔ اقوام متحدہ کی سرپرستی والی کانفرنس جو شام کی تباہ کن خانہ جنگی کی یکسوئی کیلئے اب تک کی سب سے بڑی سفارتی کوشش ہے ، اُس کی شروعات کل سوئیس ٹاؤن مونٹریاکس میں دونوں فریقوں اور عالمی طاقتوں کے درمیان تلخ تبادلہ خیال اور عدم اتفاق کے ماحول میں ہوئی لیکن کوئی بھی فریق نے واک آؤٹ نہیں کیا اور براہیمی کا کہنا ہے کہ وہ آج دونوں فریقوں سے بات کرتے ہوئے معلوم کریں گے کہ ہم کس حد تک مثبت پیش رفت کرسکتے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’’کیا ہم براہ راست کسی گوشہ میں جاکر مذاکرات شروع کرسکتے ہیں یا ہمیں علحدہ طورپر مزید کچھ غور و فکر کرنا ہے ؟
مجھے فی الحال کچھ نہیں معلوم ‘‘۔ عہدیداروں نے کہا ہے کہ یہ بات چیت 7 تا 10 یوم چل سکتی ہے اور ممکنہ طورپر وقفہ کے بعد احیاء ہوسکتا ہے ۔ ویسے اس کانفرنس میں کسی کامیابی کا توقع کم ہی ہے لیکن سفارت کاروں کا ماننا ہے کہ دونوں فریقوں کو پہلی بار یکجا کردینا ہی کچھ نہ کچھ پیشرفت کی علامت ضرور ہے اور یہ اہم پہلا قدم ہوسکتا ہے ۔ چونکہ کوئی بھی فریق غیرمعمولی نرمی برتنے تیار نظر نہیں آرہا ہے اس لئے ثالثوں کی کوشش ہوگی کہ مختصر مدتی معاملتیں طئے کئے جائیں تاکہ آگے بڑھنے کا عمل برقرار رکھا جاسکے جس میں مقامی حد تک فائربندی جیسے اقدامات شامل ہوں گے ۔