شام میں روسی کارروائیاں

ہم بھی گلشن کے پرستاروں میں ہیں
دو جگہ ہم کو بھی رہنے کے لئے
شام میں روسی کارروائیاں
شام میں روس کی فضائی کارروائیوں سے خانہ جنگی اور دولت اسلامیہ کے حملوں سے تباہ اس ملک پر مزید مصیبتیں آرہی ہیں۔ ترکی اور امریکی اتحاد نے شام میں روسی کاررائیوں کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے کیونکہ اس طرح کے حملوں میں مزید خطرات پیدا ہوں گے۔ روس کے سربراہ ولادیمیر پوٹن سے حال ہی میں امریکی صدر بارک اوباما نے اقوام متحدہ کے ذریعہ یہ خواہش کی تھی کہ شام کے معاملہ میں روس کو محتاط ہونا چاہئے۔ بشارالاسد حکومت کی سرپرستی کرنے سے اس ملک کے حالات مزید ابتر ہوجائیں گے۔ روس نے صدر شام کی حمایت میں اپنی فوج روانہ کی ہیں، جو مخالف حکومت گروپس کو نشانہ بنارہی ہے۔ شام کے 40 سے زیادہ حکومت مخالف گروپس نے روسی حملوں کے خلاف اس علاقہ کے تمام ممالک سے مطالبہ کیا ہیکہ وہ متحدہ طور پر روس کے فوجی عزائم کو روکیں۔ ناٹو نے بھی روس پر زور دیا کہ وہ شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے مخالفین اور عام شہریوں پر فضائی حملے بند کردیئے مگر روس کو اپنی کارروائیوں کے بارے میں کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ صدر روس نے شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر زیادہ شدید فضائی بمباری کی ہے۔ اس طرح شام میں ایک ایسی حکومت کی سرپرستی کی جارہی ہے جس کی تمام عالمی طاقتوں نے مخالفت کی ہے۔ شام کی صورتحال دن بہ دن ابتر بنائی جارہی ہے۔ لاکھوں انسانوں کا قتل اور لاکھوں خاندانوں کا بے گھر ہوجانا بڑا سانحہ ہے۔ روس کی کارروائیوں کو روکنے کیلئے امریکہ، برطانیہ، ترکی بھی روس کی مذمت کررہے ہیں۔ شام میں مزید افراتفری پھیلا کر کیا ثابت کیا جارہا ہے یہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ، ناٹو، امریکی اتحادی افواج اور عرب دنیا نے شام کی بگڑتی صورتحال پر اب تک دور سے ہی افسوس ظاہر کیا ہے اس مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے کی کسی نے بھی کوشش نہیں کی۔ ایک طرف دولت اسلامیہ عام شہریوں کو نشانہ بنارہی ہے دوسری طرف روس کے فضائی حملوں نے شامی عوام کی جان کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن کو شام کے تنازعہ میں شامل ہونے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے تو انہیں فضائی کارروائیوں کے بجائے شام کے اندر سکون بحال کرنے اور انسانی جانوں کے اتلاف کو روکنے کیلئے مداخلت کرنی چاہئے۔ روس کی بمباری سے اگر دولت اسلامیہ کو مضبوط ہونے میں مدد کی جارہی ہے تو پھر دنیا والوں کے لئے القاعدہ سے زیادہ دولت اسلامیہ خطرناک ثابت ہوگی۔ شام کے بحران کو حل کرنے کی فکر سے زیادہ اپنی فوجی طاقت کے مظاہرہ کو اہمیت دی جارہی ہے تو اس سے حالات مزید تباہ کن ہوجائیں گے، مگر افسوس اس بات کا ہیکہ شام کے معاملہ میں دنیا کی بڑی طاقتیں بھی منقسم ہیں۔ کوئی ملک روس کی کارروائیوں کی حمایت کرتے ہوئے صدر بشارالاسد کی پشت پناہی کررہا ہے تو دوسرا ملک صدر بشارالاسد حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجو گروپ کی سرپرستی کررہا ہے۔ اقوام متحدہ میں بھی یہ  ممالک کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ روس نے باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل میں پیش کی جانے والی مخالف شام حکومت قرار دیا تو ویٹو کردیا ہے۔ شام کا مسئلہ اگر سیاسی طور پر حل کیا جاسکتا ہے تو اس کیلئے فوجی طاقت کا استعمال انسانی جانوں کیلئے تباہ کن ہورہا ہے۔ شام میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کی جتنی ضرورت ہے اتنی ضرورت حملے روکنے کی بھی ہے۔ شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف زمینی جنگ کرنے کا ارادہ رکھنے والے صدر امریکہ بارک اوباما جب اپنا ارادہ بدل سکتے ہیں تو صدر روس کو بھی شام میں فضائی کارروائیوں سے روکا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب کے مطابق صدر بشارالاسد کو شام کے اقتدار سے ہٹا کر اقتدار عبوری حکومت کے حوالے کیا جائے تو انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کم ہوں گے اور پناہ گزینوں کا عالمی مسئلہ بھی ختم ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ امریکہ اب تک دیگر اسلامی ملکوں میں براہ راست کارروائی کرتا آرہا ہے مگر شام کے معاملہ میں وہ براہ راست کارروائی کرنے سے گریز کررہا ہے۔ اس کی یہ پالیسی ہی انسانی حقوق کی شدید پامالی کا مؤجب بن رہی ہے۔ اس خطے میں ایران کا رول موافق صدر بشارالاسد ہونے سے یہ خیال تقویت پا رہا ہے کہ وہ حکومت تمام کو اربوں ڈالر کی امداد، اسلحہ اور تیل فراہم کررہا ہے۔ اس طرح ہر ملک اپنے حصہ اور مرضی سے شام کے حالات کو بگاڑنے اور بنانے میں مصروف ہے۔