دمشق۔ 27 فبروری ۔(سیاست ڈاٹ کام) شام میں جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام میں جنگ بندی معاہدے کی توثیق کر دی۔ امریکہ اور روس نے شام میں جنگ بندی معاہدے کا مسودہ مشترکہ طور پر سلامتی کونسل میں پیش کیا جسے سلامتی کونسل نے منظور کر لیا۔ اگر جنگی اقدامات اور کارروائیاں روکنے کے معاہدے پر کامیابی سے عمل ہوتا ہے تو یہ عالمی طاقتوں کی کوششوں کے نتیجے میں شام میں گذشتہ پانچ برس سے جاری خانہ جنگی کے دوران آنے والا پہلا وقفہ ہوگا۔ جنگ بندی کا آغاز جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب 12 بجے سے ہوا ہے اور اس سے قبل شام میں حکومت کے مخالف مرکزی گروہ نے کہا ہے کہ تقریبا 100 متحارب گروپوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری پر اتفاق کیا ہے۔ سلامتی کونسل نے فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد کریں۔ قراراداد میں شامی حکومت اور اپوزیشن پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے تحت دوبارہ مذاکرات میں حصہ لیں۔ یہ امن مذاکرات7 مارچ کو ہوں گے۔خیال رہے کہ شام میں مارچ 2011 سے شروع ہونے والی لڑائی میں اب تک ڈھائی لاکھ سے زیادہ شامی شہری ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ ہے جن میں سے 40 لاکھ کو دوسرے ممالک میں پناہ لینی پڑی ہے۔ابتدائی اطلاعات کے مطابق محاذ پر ’خاموشی چھائی ہوئی ہے‘۔ شام کیلئے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی اسٹیفن ڈی میستورا نے کہا ہے کہ جنگ میں سکون آ گیا ہے لیکن خلاف ورزی کے ایک واقعہ کی تحقیق کی جارہی ہے۔ڈیڈ لائن کے قریب امریکی صدر براک اوباما نے شامی حکومت اور اس کے حلیف ملک روس کو متنبہ کیا ہے کہ’’ دنیا اس کو دیکھ رہی ہوگی‘‘۔ جنگ بندی کے آغاز سے قبل شام میں حکومت کے مخالف مرکزی گروہ نے کہا ہے کہ تقریباً 100 متحارب گروپوں نے جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری پر اتفاق کیا ہے۔اس عبوری جنگ بندی کے معاہدے میں سرکاری فوج اور باغی گروپ شامل ہیں لیکن اس کا اطلاق دولت اسلامیہ اور القاعدہ سے منسلک النصرہ فرنٹ جیسی شدت پسند تنظیموں پر نہیں ہوگا۔ قبل ازیں اقوام متحدہ کے مندوب نے دعویٰ کیا تھا کہ شامی حکومت نے بھی جنگ بندی کی تجاویز قبول کرتے ہوئے فضائی بمباری سمیت ہرقسم کی طاقت کے استعمال سے گریز کی یقین دہانی کرائی ہے۔ انہوں نے کہا کہ محاصرہ زدہ علاقوں میں امداد کی فوری فراہمی ہمارا اہم نشانہ ہے جس کیلئے ہم شامی حکومت اور دوسرے گروپوں کے ساتھ رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادھر امریکہ میں امریکی خاتون مندوب نے شام میں جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے لاکھوں شامیوں کی زندگی بدلنے کا موقع ملے گا۔روسی نائب وزیرخارجہ نے بھی غیر مشروط جنگ بندی پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ شام کے بحران کے حل کا سنہری موقع ہے، اس تاریخی موقعے کو ہاتھ نہیں جانا چاہیے۔اقوام متحدہ میں مصر کے مندوب نے بھی شام میں فائر بندی کی حمایت کی اور تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ عملًا جنگ بندی کرتے ہوئے ہرقسم کے تشدد کے راستے بند کریں۔ اقوام متحدہ میں فرانس کے مندوب کا کہنا ہے کہ شام کا مسئلہ زبانی دعوؤں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے حل ہوگا۔ اس لئے تمام فریقین جنگ بندی کے تمام تقاضوں کو ان کی روح کے مطابق پورا کرنے کی کوشش کریں۔