شامِ سوغات

جناب زاہد علی خاں کی یادگار تہنیتی تقریب
زیر اہتمام ایوان فنکار اور فولس پیراڈائیز کلچرل اینڈ ویلفیر سوسائٹی
2 اپریل ہفتہ کی شام حمایت نگر میں واقع اردو ہال میں محبان اردو کی آمد کا سلسلہ جاری تھا اور جو ’’شام سوغات‘‘ سے موسوم اپنی نوعیت کی منفرد اور یادگار تقریب میں شرکت کیلئے جمع ہورہے تھے ۔ اردو صحافت کی سرکردہ شخصیت اور ملت کے سماجی ، ملی ، تعلیمی ، ادبی اور فلاحی خدمات انجام دینے والی عظیم شخصیت جناب زاہد علی خاں کو نئی دہلی میں امریکہ کی عظیم شخصیت فرینک اسلام کے ہاتھوں مسلم مرر ایوارڈ کے حصولی کیلئے تہنیت پیش کرنا تھا اور ان کے دیرینہ خدمات کا اعتراف تھا۔ یوں تو جناب زا ہد علی خاں کو کئی ایک ایوارڈس دئے گئے ۔ لندن میں ، امریکہ ، سعودی عربیہ ، ہندوستان کے مختلف مقامات پر لیکن ’مسلم مرر‘ مسلمانوں کا ایک بین الاقوامی پلیٹ فارم ہے اور امریکی صدر بارک حسین اوباما نے بھی فرینک اسلام کے محل نما قیام گاہ کو دیکھ کر کہا تھا کہ امریکہ میں وائیٹ ہاؤز دیکھنا ہو تو فرینک اسلام کا محل نما گھر دیکھو۔ بہر کیف مسلم مرر ایوارڈ پر یوں تو زاہد علی خاں کی کئی انجمنیں ، شخصیات مبارکباد دیتے ہوئے تہنیت پیش کر رہی ہیں لیکن اردو ادب کی دو حرکیاتی شخصیات ڈاکٹر معین امر بمبو اور ڈاکٹر جاوید کمال نے کمال کردیا کہ ایک ماہ کی شبانہ روز محنت سے ایسی یادگار تقریب کا انعقاد کیا کہ جس کا اندازہ شرکت کے بعد ہی ہوا۔ شام سوغات سے موسوم اس یادگار تقریب کے انعقاد کے پس منظر میں ایوان فنکار اور فولس پیراڈائیز کلچرل اینڈ ویلفیر سوسائٹی جو اپنے تاریخی ،دیگر پروگرامس میں تمثیلی مشاعرہ ’’غزل کے سفر‘‘ مزاحیہ تمثیلی مشاعرہ ’’تبسم سے لیکر قہقہہ تک‘‘ دکن تمثیلی مشاعرہ آغا خان فاؤنڈیشن کے تحت رکھ چکے ہیں۔ ’’شام سوغات‘‘ کے زیر عنوان اس یادگار تقریب میں جو زاہد علی خاں ایڈیٹر سیاست کے جلسہ کی خدمات بھی تھا اور مسلم مرر  ایوارڈ کی تہنیتی تقریب تھی جس میں معززین مہمانان میں تلنگانہ ریاست کے ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمود علی ، ٹائمز آف انڈیا کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر کنگ شاک ناگ نے شرکت کی ۔ قدرے تاخیر سے شروع ہوئی تقریب کے آغاز پر کنوینر جلسہ جناب جاوید کمال نے کہا کہ اس تقریب میں جن مہمانوں کو مدعو کیا گیا وہ تمام شہ نشین پر موجود ہیں جو کامیاب تقریب کی پہلی سیڑھی ہے۔ تمام مہمانان کا سنٹرل پبلک ہائی اسکول خلوت کے طالبات نے گارڈ آف آنرس کے ساتھ استقبال کیا ۔ دیگر مہمانان میں پرشانت چنتالا ریذیڈنٹ ایڈیٹر ’’دی ہندو‘‘ ، پروفیسر انیس الحق قمر، عبدالرحیم خاں معتمد انجمن ترقی اردو ، ابتداء میں ڈاکٹر حمیرہ سعید نے خطبہ استقبالیہ پڑھا اور کنوینر جلسہ ڈاکٹر جاوید کمال نے منتخب  اشعار مہمانان کی نذر کی ۔ پھر جلسہ کا رسمی طور پر آغاز حافظ و قاری سید شوکت اللہ غوری قرات سے ہوا۔ ڈاکٹر طیب پاشاہ قادری نے ہدیہ نعت پیش کی۔ سنٹرل پبلک ہائی اسکول چوک، خلوت جو اردو ایکسپو کے دفتر سیاست میں انعقاد کے ذریعہ ایک نمایاں مقام حاصل کیا اس کے طالبات نے نہایت ہی خوبصورت انداز میں کورس میں ترانہ پڑھا اور اس میں زاہد علی خاں کی خدمات کو بھرپور خراج تحسین ادا کیا۔ جناب ظفر اللہ فہیم اور حمیدہ بیگم ٹیچر کے زیر نگرانی اس ترانہ نے گویا سماں باندھ دیا ۔ اس منفرد ، مثالی و یادگار تقریب کے اقتباسات کو قلمبند کیا جائے تو اردو دنیا کے مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی کثیر تعداد نے اس میں شرکت کی اور اردو ہال کھچا کھچ بھرا تھا۔ اس تقریب کی منفرد خصوصیت یہ تھی کہ گلپوشی ، شال پوشی، سپاس نامہ ، اور یادگار مومنٹو کے علاوہ ڈپٹی چیف منسٹر جناب محمد علی صاحب کے ہاتھوں جناب زاہد علی خاں کو مخملی شایہ اور شاہی دستاربندی کے ساتھ شاہی تاج پہناکر ’’فخر صحافت‘‘ کا سرتاج بنایا گیا ۔ صدر اجلاس کنگ شاک ناگ اور مہمان خصوصی پرشانت چنتالہ نے مومنٹوز عطاء کئے ۔ اس موقع پر جناب مصطفیٰ علی سروری ، محبوب خان  اصغر اور پروفیسر انیس ا لحق قمر نے جناب زاہد علی خاں کی شخصیت اور ان کے کارناموں پر مقالے پیش کئے۔ اس موقع پر جناب زاہد علی خاں نے تقریر میں کہا کہ سارے ایوارڈس کے حصول سے زیادہ اہم انہیں عوام کی محبت اور شفقت ہے اور وہ صلہ کی پروا کئے بغیر اپنے ملی ، فلاحی خدمات کو جاری رکھیں گے ۔ سیاست ایک تحریک ہے اور یہ ایوارڈز ان کی شخصیت کو نہیں بلکہ سیاست کو ملا اور سیاست کا پورا اسٹاف اس کا مستحق ہے اور سیاست کے مختلف سرگرمیاں کامیابی کے ساتھ جاری ہیں جس کے ثمر آور نتائج برآمد رہے ہیں۔ اس یادگار اور پراثر تقریب میں جن حضرات نے شرکت کی ان میں جسٹس ای سمعیل ، محمد قمر الدین ، عابد صدیقی ، نسیمہ تراب الحسن ، ڈاکٹر غوث الدین ، ظفر اللہ فہیم ، ڈاکٹر سید شیخ سیادت علی ، ڈاکٹر ناظم علی ، اے کے امین، رعنا عندلیب ، نکہت آراء شاہین، ڈاکٹر گل رعنا، جلال الدین اکبر، اسلم فرشوری ، منور علی مختصر ، خان اطہر ، ڈاکٹر ممتاز مہدی باقر مرزا، حمیدہ بیگم ، دولت رام، احمد صدیقی، مکیش، خسرو پاشاہ اور دیگر شامل ہے۔ بعد ازاں یوسف الدین یوسف کی نظامت میں ایک یادگار مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا جس میں ڈاکٹر معین امر بمبو ، وحید پاشاہ قادری ، لطیف الدین لطیف ، یوسف الدین یوسف، نجیب احمد نجیب ، تسنیم جوہر نے اپنا منتخبہ کلام سناکر داد تحسین حاصل کی ۔ اسٹیج کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا اورکئی شمع روشن کی گئی۔ ڈاکٹر جاوید کمال نے فرداً فرداً سب کاشکریہ ادا کیا۔