سفید موگرے اور گلاب کے پھولوں سے لدی شاہین کو اُس کی سہیلیوں نے ہنسی مذاق کرتے ہوئے حُجلہ عروسی میں پہنچایا تو وہ اپنے آپ کو سمیٹتے ہوئے عمران کے بارے میں سوچنے لگی اور بڑی بے تابی کے ساتھ اُسے اُن لمحوں کا انتظار تھا جب اس کا شریک حیات اس کا گھونگھٹ اُٹھا کر اُس کا چہرہ دیکھے گا اور پیار سے کہے الفاظ اس کے کانوں میں شیرینی گھول دیں گے اور وہ ذہن میں ہمیشہ کیلئے نقش ہوجائیں گے۔ لیکن نہ جانے کیوں شاہین مضطرب تھی۔ ایک بے نام سی خلش تھی جو اُسے آج کے ان لمحات سے محظوظ نہ ہونے دے رہی تھی۔ شاید اُڑتے اُڑتے کچھ ادھورے جملوں کی گونج اُسے بے قرار کئے ہوئے تھی۔
اُسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ عمران کے گھر والوں نے اُس کے ابو سے جہیز کی مانگ کی تھی اور عمران خاموش رہا۔ وہ تو ایسا نہ تھا کیونکہ عمران کو بھی شادی بیاہ کے معاملات میں لین دین سے سخت نفرت تھی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ عمران نے جان بوجھ کر اُسے نہ بتلایا ہو، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کتنی نفرت ہے اُس کو لفظ ’’ جہیز ‘‘ سے۔ اچانک پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سیشاہین کا جی متلانے لگا۔ پھول کی پتیوں سے کانٹوں کی سی چبھن محسوس ہونے لگی اور وہ کسمساتے ہوئے سیدھی ہوکر بیٹھ گئی، اس عزم کے ساتھ کہ ایک بار صرف ایک بار اپنے شریک حیات سے ضرور پوچھے گی کہ اس نے جو سنا ہے کیا وہ سچ تھا؟۔ وقت کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے والدین اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے سے پیچھے نہیں ہٹتے
لیکن شادی بیاہ کے معاملے میں ان کی ذہنیت پُرانی ہے۔ بہر حال اپنے فرض سے سبکدوش ہونے کا احساس ان کی سوچ پر حاوی ہوجاتا ہے اور وہ لڑکے والوں کی ہر جائز وناجائز مانگ کو سر جھکاکر مان لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی تعلیم یافتہ و باشعور بیٹی کی سوچ بدل چکی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ لڑکا اور اُس کے گھر والے اُس کی قابلیت کو سراہتے ہوئے شخصی طور پر اُسے قبول کریں۔ ورنہ والدین نے اپنی بیٹی کا مستقبل سنوارنے کے لئے جو راستہ اپنایا، اُس پر جہیز کی لمبی فہرست کانٹے بن کر بکھر جاتی ہے جو اُن کے پیار و ناز نخروں سے پالی ہوئی بیٹی کے احساس کو تاحیات مجروح کردیتی ہے۔ وہ سُسرال میں بہو کے فرائض تو بخوبی نبھاتی ہے لیکن اس کے دل میں شریک حیات کے لئے جو عزت تھی اُس میں قدرے کمی آجاتی ہے
اور یہی آگے چل کر رشتوں میں تناؤ کا باعث بن جاتی ہے کیونکہ جس زندگی کی بنیاد مجبوری و بے بسی پر ہو وہاں خوشیوں کا گذر کیسا ؟۔ شادی مذہبی فریضہ اور سماجی ضرورت ہے جس کے معنی خوشی کے ہیں۔ یہ آج کیسی شادیاں ہورہی ہیں کہ جہیز کی لمبی چوڑی فہرست سے لڑکی کے والدین کے دِل بیٹھے جارہے ہیں اور بھائیوں کے کندھے جھکے جارہے ہیں کیونکہ وہ اپنی لڑکی کی خوشی کیلئے یہ سب کررہے ہیں لیکن بالکل اس کے برعکس ہوتا ہے کیونکہ ان حالات میں ان کی لڑکی ازدواجی زندگی کیلئے نہیں بلکہ انتقامی جذبہ کی آگ میں لپٹ کر سُسرال کی دہلیز پار کرتی ہے۔ افسوس تو اسے اس بات کا ہوتا ہے کہ ساس و سُسر بڑی وضعداری سے اپنے اطاعت گذار بیٹے کا مول تول کرتے ہیں۔ بظاہر شفیق اور معتبر ماں اپنے بیٹے کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے لڑکی والوں کو راضی کرلیتی ہے اور دُکھ تو اس بات کا ہوتا ہے کہ لڑکا فرمانبرداری کی آڑ میں خاموش رہتا ہے۔ آج حالات بدل چکے ہیں، آج کی پڑھی لکھی لڑکی کی سوچ یہ گوارہ نہیں کرتی کہ اس کے لئے جس لڑکے کا انتخاب کیا گیا ہے وہ محض جہیز کے لالچ میں زندگی کے اس طویل سفر میں اس کا ہمسفر اور اُس کا شریک حیات ہو۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب مل کر جہیز جیسی لعنت کے خلاف آواز اُٹھائیں تاکہ لڑکیاں ہنسی خوشی کے ساتھ اپنے نئے گھر میں داخل ہوں اور ایک نئی زندگی کی بنیاد رکھیں۔