مولانا سید احمد ومیض ندوی
گذشتہ ۲۳؍ جنوری ۲۰۱۸ء کو شادیوں میں اسراف اور بے جا رسومات اور وقت کی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے صدر نشین تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ کی قیادت میں شہر کے علمائ، دانشوران اور عمائدین ملت کا جو مشاورتی اجلاس منعقد ہوا اس کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے، یہ ایک مستحسن اور خوش آئند اقدام ہے، اجلاس میں جتنے امور زیر بحث لائے گئے ان سب کا تعلق نظامِ نکاح میں درآئی خرافات اور شادی بیاہ کی غیر شرعی رسومات سے ہے، نکاح کے حوالہ سے مسلمانوں میں پایا جانے والا بگاڑ اب ساری حدوں کو پار کرتا جارہا ہے، پانی اب سرسے اونچا ہوچکا ہے، اس سلسلہ میں فوری انسدادی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو مسلم معاشرہ تباہی کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔
جہیز کی غیر اسلامی وغیر انسانی رسم کے سبب ملت کی ہزاروں بیٹیاں جوانی کی عمریں پار کررہی ہیں، ہزاروں غریب اور متوسط خاندان جہیز نہ دے سکنے کے سبب زندگی کے سکون سے محروم ہیں، جس گھر میں ایک سے زائد شادی لائق جوان بیٹیاں موجود ہیں، وہاں کے سرپرستوں کی رات کی نیندیں اُڑ چکی ہیں، بہت سی غربت کی ماری بچیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ فرار ہورہی ہیں اور اپنے دین وایمان کا سودا کررہی ہیں، بعض لڑکیاں شادی میں تاخیر یا شادی سے مایوس ہوکر خود کشی کربیٹھ رہی ہیں، جہیز کی لعنت نے ہزاروں خاندانوں کو اُجاڑ کے رکھ دیا ہے، جہیز کم لانے کی پاداش میں سیکڑوں نئی نویلی دلہنوں کو نذر آتش کیاجاچکا ہے، جہیز کے لالچی والدین نے شادی جیسے مقدس عمل کو تجارت بنالیا ہے، لڑکوں کی جہاںجتنی زیادہ بولی لگتی ہے وہاں ترجیح دی جاتی ہے، دین واخلاق کو بنیاد بنانے کے بجائے مال ودولت کو رشتوں کے لیے معیار ٹھہرایا جارہا ہے، دین داری اور شرافت کو بالائے طاق رکھا جارہا ہے، رشتوں میں تاخیر کی وجہ سے مسلم معاشرہ میں فحاشی، بے حیائی اور جنسی بے راہ روی میں آئے دن اضافہ ہوتا جارہا ہے،زنا وبدکاری کے نت نئے راستے کھل رہے ہیں، سسرال سے ملنے کی امید میں نوجوان سستی اور کاہلی کے عادی ہورہے ہیں، محنت اور کسب ِحلال سے جی چرارہے ہیں، جہیز کا مطالبہ در اصل گداگری ہی کی ایک شکل ہے، اسلام میں بلا ضرورت ِشدیدہ کے کسی کے سامنے دست ِسوال دراز کرنا ممنوع ہے،جہیز کی لعنت نے معاشرہ میں مانگنے اور سوال کرنے کی منحوس رسم کو رواج دیاہے،یہ اور اس طرح کی بے شمار خرابیاں ہیں جو جہیز کی کوکھ سے جنم لے رہی ہیں، اور پورے معاشرہ کو آلودہ کررہی ہیں۔
شادی کی غیر شرعی خرافات کا ایک نقصان وقت کے ضیاع کی شکل میں ہورہا ہے، وقت انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے، زندگی کا ہر لمحہ بیش قیمت متاع ہے، اسی سے دنیا بھی بنتی ہے اور آخرت بھی سنورتی ہے، اسی کی قدردانی سے قوموں کا مستقبل روشن ہوتا ہے اور ناقدری سے نسلیں برباد ہوتی ہیں، حیدرآباد شہر کی شادیاں کیا ہوتی ہیں ضیاع اوقات کا ایک سامان ہوتا ہے، ۱۲؍ بجے سے قبل نوشہ میاںکا شادی خانہ میں رونق افروز ہونا ناممکن ہے، شادی کے رقعہ میں بعد عشاء درج ہوتا ہے،کوئی وقت کا قدرداں اس وقت پہنچ جاتا ہے توشادی خانہ اسے چڑانے لگتا ہے، مساجد میں نکاح کا رواج بڑھ رہا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے اور اس سے نکاح تو وقت پر ہوجاتا ہے، لیکن شادی خانہ پہنچ کر ساری خرافات اپنائی جاتی ہیں، رات دیر گئے نکاح کی تقریب منعقد کرنا ایک فیشن بنتا جارہا ہے، جب کہ یہ چیز نہ عقلاً درست ہے اور نہ ہی شریعت میں اس کی گنجائش ہے، رات کو اللہ نے سونے کے لیے بنایا ہے، قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا تذکرہ کیا گیا ہے، یہ ایک قدرتی نظام ہے جو اس نظام قدرت کو توڑتا ہے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے، نبی رحمتﷺ کا معمول تھا کہ آپ عشاء کے بعد جلد استراحت فرماتے اور تہجد میں بیدار ہوتے، احادیث شریفہ میں عشاء کے بعد غیر ضروری گپ شپ میں لگنے اور دیر سے سونے سے منع کیا گیا ہے، رات دیر تک شادی خانوں کو آباد رکھنے اور کھانے میں غیر ضروری تاخیر کرنے کے بے شمار نقصانات ہیں، اس سے دعوت میں شریک معمر افراد اور بیماروں کو زحمت ہوتی ہے، شرکاء میں بہت سے شوگر کے مریض ہوتے ہیں جن کے لیے کھانے میں تاخیر سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، جیسے جیسے کھانے میں تاخیر ہوتی جاتی ہے ان کی بے چینی بڑھتی جاتی ہے، حتی کہ بعض ضعیف مریض بیہوش ہوجاتے ہیں، علاوہ ازیں رات تاخیر سے کھاکر پھر فورا سوجانا صحت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے، اولا تو شادی کی دعوتوں میں غذائیں انتہائی مرغن ہوتی ہیں جو معدہ کو بوجھل کردیتی ہیں، پھر اس پر مستزاد یہ کہ کھانے کے بعد بغیر ٹہلے سویا جاتا ہے جس سے معاملہ مزید سنگین ہوجاتا ہے، ایک رپورٹ کے مطابق شوگر اور بی پی کا تناسب مسلمانوں میں دیگر قوموں کے مقابلہ میں زیادہ ہے اور پھر ایسے مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد شہر حیدرآباد میں ہے، یہ در اصل یہاں کی شادیوں کا شاخسانہ ہے، صحت جیسی عظیم نعمت کو اپنے ہاتھوں سے برباد کرلینا کونسی دانشمندی ہے؟ مسلمانوں میں بڑھتی ہوئی بیماریوں کا بنیادی سبب ان کی بے ڈھنگی دعوتیں اور شادی تقریبات ہیں، رات دیر تک شادی تقاریب کا سلسلہ فرائض کے ضیاع کا بھی سبب بنتا ہے، دو ڈھائی بجے رات گھر لوٹنے والے اکثر ا فراد نماز فجر کو چھوڑ کر سوتے پڑے رہتے ہیں جو بہت بڑی نحوست ہے،جس گھر میں چھوٹے بڑے مرد وخواتین سب نماز سے غافل ہوکر سوتے پڑے رہیں وہاں خیروبرکت کیسے آسکتی ہے؟ دین اسلام صبح کو جلد اٹھنے اور بعد فجر کسب ِحلال کے لیے تگ ودو کی تلقین کرتا ہے، رسول اکرمﷺ نے اپنی امت کے لیے صبح کے کاموں میں برکت کی دعا فرمائی ہے،دن چڑھے سوکر کاروبار جانے والوں کے لیے خیروبرکت کیسے مقدر ہوگی؟رات دیر تک جاگنے سے دوسرے دن کی سرگرمیاں متأثر ہوتی ہیں،بچے صبح اٹھ کر اسکول جانہیں پاتے، گھر کے ذمہ دار افراد وقت پر کام کرنے سے قاصر رہتے ہیں، کاروبار وقت پر شروع نہ ہونے سے ملت کی معیشت تباہ ہوتی ہے،وقف بورڈ کے حالیہ اجلاس میں رات ۱۲؍ بجے تک شادی تقاریب ختم کرنے کی جو تجویز منظور کی گئی وہ نہایت موزوں ہے، نکاح ترجیحاً عشاء تک ہرصورت میںکردیا جائے اور عشاء کے فوری بعد عشائیہ ترتیب دیا جائے، قاضی صاحبان کو ۹؍ بجے شب کے بعد نکاح نہ پڑھانے کے لیے پابند کیا گیا ہے، یہ سب مناسب تجاویز ہیں، بشرطیکہ ان پر عمل ہو۔
نکاح اور شادی میں رائج خرافات کا ایک دینی نقصان یہ ہے کہ ان سے بے حیائی، بداخلاقی اور بے پردگی عام ہورہی ہے، نکاح ایک مقدس تقریب ہے اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اسے ہر قسم کی خلاف ِشرع باتوں سے پاک ہونا چاہیے؛ لیکن دیکھا یہ جارہا ہے کہ شادی خانوں میں نہ صرف بینڈ باجے کا اہتمام ہوتا ہے؛ بلکہ ڈی جے (D.J)اور نیم برہنہ خواتین کا رقص بھی ہونے لگا ہے، حتی کہ دلہے کے ساتھ ہونے والے رقص میں تلواریں بھی گھمائی جانے لگی ہیں، گذشتہ دنوں شہر حیدرآباد میں رسم کی ایک تقریب میں تلوار کے ساتھ رقص کے دوران تلوار کی زد میں آکر ایک طالب علم جا بحق ہوگیا، رائے درگم درگاہ حسین شاہ ولی کے قریب رہنے والا دسویں جماعت کا طالب علم سید حمید رسم کی تقریب میں ناچ گانے کے دوران تلوار لگنے سے ہلاک ہوگیا، رسم کی تقریب کی بارات باجے کے ساتھ دلہن کے گھرجارہی تھی جس میں ایک نوجوان تلوار کے ساتھ رقص کررہا تھا، بارات میں شامل سید حمید رقص کا نظارہ کررہا تھا کہ تلوار اس کے گلے پر لگ گئی اورہسپتال جاتے ہوئے راستہ ہی میں وہ دم توڑ گیا، حیدرآبادی مسلم معاشرہ کے لیے یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ بیہودہ ناچ گانے کی وجہ سے ایک لڑکے کی جان چلی گئی، کیا ہمیں نہیں معلوم کہ رقص وسرود اور ناچ گانے کا اسلامی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ در اصل دشمنان خدا ورسول کی تہذیب ہے، ہماری شادی بیاہ کی تقریبات ان ساری خرافات سے پاک ہونا چاہیے، موسیقی،بینڈ باجا، ڈی جے اور نیم برہنہ رقص جیسی چیزیں خدا کے غضب کو دعوت دیتی ہیں،وقف بورڈ کے مشاورتی اجلاس کی یہ تجویز بہت مناسب ہے کہ بارات میں کسی قسم کی آتش بازی اور اسلحہ کا مظاہرہ کرنے پر آرمس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا، ایسے ناچ گانے کا ایک سماجی نقصان یہ ہے کہ اس سے گھروں میں موجود معمر افراد، بیما ر اور اطراف کے پڑوسیوں کو سخت تکلیف ہوتی ہے، اسلام میں ایذائے مسلم حرام ہے، اس سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے؛ لیکن موجودہ دور کی شادیاں محلے والوں کے لیے آفت بنتی جارہی ہیں، جس محلہ میں شادی خانہ ہوتا ہے وہاں کے مکینوں کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے اور ان کی راتوں کی نیندیں حرام ہوجاتی ہیں، پھر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ایسی بیہودہ حرکتوں پر خاموشی اختیار کرکے ہم اپنی نئی نسل کو کیسا غلط پیغام پہنچارہے ہیں، ناچ گانے کی رسیانسل سے کیا کسی بڑے کارنامے کی توقع کی جاسکتی ہے؟
شادی بیاہ کی خرافات کا ایک نقصان فضول خرچی اور اسراف ہے، نمائش اور دکھاوے کے لیے لوگ نکاح کی دعوتوں میں لاکھوں روپئے لٹاتے ہیں، لاکھوں کے شادی خانے حاصل کیے جارہے ہیں اور کھانے میں دسیوں آئٹموں کا اہتمام کیا جارہا ہے، پرشکوہ تقاریب کو سماج میں عزت اور انا کا مسئلہ بنالیا گیا ہے،جب کہ اسلام میں شادی کو سادی بنانے کا حکم ہے، نبی رحمت ﷺنے اس نکاح کو سب سے بابرکت قرار دیا ہے جس میں کم سے کم مالی خرچ ہو، شادی میں صرف ولیمہ مسنون ہے، نکاح کے موقعہ پر کسی قسم کا کھانا مسنون نہیں ہے، مال ودولت اللہ کی امانت ہے، اسے حقوق کی ادائیگی اور دینی کاموں میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔وقف بورڈ کی جانب سے شادی بیاہ کی خرافات کے خلاف اٹھایا گیا اقدام قابل ستائش ہے، لیکن اصل مسئلہ اجلاس میں منظورہ قرار دادوں کو عملی جامہ پہنانے کا ہے، اس سلسلہ میں درج ذیل باتوں پر توجہ دینا ضروری ہے:
۱- عام مسلمانوں میں دینی شعور بیدار کیاجائے، صرف قانون سازی کافی نہیں ہوگی، نکاح کے تعلق سے عامۃ المسلمین کو بتانے کی ضرورت ہے کہ نکاح عبادت ہے اور عبادت کے لیے ہرمسلمان نبی رحمتﷺ کے طریقہ کا پابند ہے، کسی بھی عمل کے عبادت بننے کے لیے اسے منہج رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر انجام دینا ضروری ہے، بیشتر مسلمان نکاح کو عبادت نہیں سمجھتے جس کانتیجہ یہ ہے کہ انھوں نے نکاح کے معاملہ میں خود کو شریعت سے آزاد سمجھ رکھا ہے۔
۲- اسلام میں غیروں سے مشابہت کی سخت ممانعت ہے، حتی کہ جو شخص کسی دوسری قوم سے مشابہت اختیار کرتا ہے کل قیامت کے دن اس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا، شادی بیاہ میں رائج ساری خرافات در اصل غیر مسلم سماج سے مسلمانوں میں آئی ہیں، جہیز اور دیگر رسومات غیر مسلم معاشرہ کی دین ہے، عام مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام میں غیروں سے مشابہت کی قطعی اجازت نہیں ہے۔
۳- شادی بیاہ کی خرافات کے خاتمہ کے لیے برسوں سے آواز اٹھائی جارہی ہے؛ لیکن بظاہر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا، ضرورت اس بات کی ہے کہ خرافات کے سد باب کے لیے سماجی بائیکاٹ کو بطور ہتھیار استعمال کیا جائے، حالیہ مشاورتی اجلاس میں بائیکاٹ کا مشورہ بھی سامنے آیا ہے اور بعض معاملات میں حکومتی سطح پر سزا کی بھی تجویز رکھی گئی ہے، یہ ایک اچھی پیش رفت ہے، اس مہم کو مستقل جاری رکھنے کی ضرورت ہے،اخیر میں یہ بات ذہن میں رہے کہ خوف ِخدا اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے بغیر آدمی خلاف ِشرع چیزوں کو نہیں چھوڑ سکتا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ائمہ وخطباء اور دعوت واصلاح کے ذمہ دار عام مسلمانوں میں خوف ِخدا اور فکر ِآخرت کی روح پیدا کریں۔