سیول سرویس میں 168 مسلم امیدوار کامیاب ہونے تھے لیکن …

محمد ریاض احمد
یونین پبلک سرویس کمیشن نے یو پی ایس سی امتحانات 2013ء کے نتائج جاری کردیئے، جس میں جملہ 122 امیدواروں کو انڈین ایڈمنسٹریٹیو سرویس (آئی اے ایس)، انڈین فارن سرویس (آئی ایف ایس)، انڈین پولیس سرویس (آئی پی ایس) کے علاوہ گروپ اے اور گروپ بی کے تحت دیگر مرکزی خدمات کیلئے اہل قرار دیا گیا ہے۔ ان امیدواروں کی فہرست کا تفصیلی جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہیکہ صرف 34 مسلم امیدواروں کو اہل قرار دیا گیا ہے حالانکہ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق 1.210 ارب سے زائد آبادی کے حامل ہمارے اس عظیم ملک میں مسلمانوں کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے لحاظ سے 175 ملین (175 کروڑ) ہے جو جملہ آبادی کا 15 فیصد بنتی ہے لیکن غیر سرکاری اعداد و شمار میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 25 تا 70 کروڑ بتائی جاتی ہے۔ یعنی مسلم اقلیت جملہ آبادی کا 23 تا 25 فیصد بنتے ہیں۔ اس کے باوجود ہم غیر سرکاری اعداد و شمار کو اہمیت نہ بھی دیں تو 15 فیصد آبادی کے لحاظ سے یو پی ایس سی کی جانب سے اہل قرار دیئے گئے امیدواروں میں کم از کم 168 مسلم امیدوار ہونے چاہئے تھے لیکن صرف 34 امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ اس طرح آبادی کے لحاظ سے صرف 3.030 فیصد مسلم امیدوار اہل قرار دیئے گئے۔

سب سے مایوس کن بات یہ ہیکہ تعلیمی طور پر ہندوستان میں تمام طبقات کی بہ نسبت انتہائی پسماندہ ہونے کے باوجود سیول سرویس کے لئے اس مرتبہ جو مسلم امیدوار منتخب ہوئے ہیں ان کی تعداد درج فہرست طبقات و قبائل سے تعلق رکھنے والے امیدواروں سے بھی کئی گنا کم ہے۔ درج فہرست طبقات کے 187 اور درج فہرست قبائل کے 92 امیدواروں کو کامیابی ملی ہے۔ جن مسلم امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ان میں سے 8 کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے ہے۔ 2009ء کے سیول سرویس امتحانات میں بھی اس ریاست کے ڈاکٹر شاہ فیصل نے سارے ملک میں پہلا مقام حاصل کیا تھا۔ وہ ایسا اعزاز تھا جو کسی مسلم نے دوسری مرتبہ حاصل کیا ہے۔ اگرچہ 2013ء کے یو پی ایس سی نتائج کو بحیثیت مجموعی مسلمانوں کیلئے مایوس کن بھی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن گذشتہ کئی برسوں کے نتائج کا جائزہ لینے پر یہ بات واضح ہوتی ہیکہ اس مرتبہ نتائج کسی قدر اطمینان بخش ہیں کیونکہ گذشتہ سال جملہ 998 امیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا تھا اس فہرست میں مسلم امیدواروں کی تعداد صرف 31 تھی۔ یعنی صرف 2.76 فیصد امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔ 2012ء میں کامیاب ہوئے امیدواروں کی فہرست میں 30 نام نظر آئے۔ اسی طرح 2011 کے دوران کامیابی حاصل کرنے والے 920 امیدواروں میں 31 مسلمان شامل رہے۔

(کامیابی کا اوسط 3.36 فیصد رہا) 2010ء میں جملہ 875 امیدواروں نے خود کو آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس اور دیگر سرویس کیلئے اہل پانا ان میں صرف 21 مسلمان تھے۔ جس سے واضح ہوا کہ 204 فیصد امیدوار ہی کامیاب ہوسکے ۔ سال 2009ء میں کشمیر کے نوجوان ڈاکٹر شاہ فیصل نے سارے ملک میں پہلا مقام حاصل کیا۔ اس وقت مسلمانوں میں امید پیدا ہوگئی تھی کہ کامیاب مسلم امیدواروں کی تعداد 50 تک جا پہنچے گی۔ ایک ایسا نہیں ہوا بلکہ اہل قرار دیئے گئے 791 امیدواروں میں صرف 31 مسلم بے شک شامل رہے۔ اس طرح 3.91 فیصد کو کامیابی ملی۔ ہم نے ابتدائی سطور میں لکھا ہیکہ اس مرتبہ کامیابی حاصل کرنے والے 34 مسلم امیدواروں میں سے 8 کا تعلق کشمیر سے ہے جبکہ مابقی حیدرآباد، کیرالا، دہلی، اترپردیش، جھارکھنڈ، بہار سے تعلق رکھتے ہیں۔ جہاں تک جموں و کشمیر سے زیادہ سے زیادہ مسلم امیدواروں کی یو پی ایس سی امتحانات میں کامیابی کا سوال ہے یہ ملک کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں کے لئے بہترین مثال ہے۔ گذشتہ چند برسوں سے جموں و کشمیر کے زیادہ سے زیادہ مسلم نوجوان لڑکے لڑکیاں آئی اے ایس، آئی پی ایس اور آئی ایف ایس و آئی آر ایس کیلئے منتخب ہورہے ہیں۔ جاریہ سال کشمیر سے اگرچہ 10 نوجوان منتخب ہوئے ہیں ان میں 8 مسلمان اور دو ہندو ہیں۔ عابد حسین صادق نے 27 واں رینک حاصل کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کو یہ پیام دیا ہیکہ محنت و جستجو، ترقی و کامیابی کی راہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کو دور کردیتے ہیں۔

فرقہ پرستی، تعصب و جانبداری علم ذہانت و صلاحیت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اسی طرح بشیراحمد بھٹ (189 رینک) ، راجہ یعقوب فاروق (274 رینک)، آفاق احمدگیری (585 رینک)، شکیل مقبول یاٹو 633 رینک (قمر الزماں (751 رینک)، اویس رانا (741 رینک) اور مہتاب احمد (1003 واں رینک) نے مسلم طلباء و طالبات کو ایک اچھا پیام دیا ہیکہ محنت رائیگاں نہیں جاتی۔ اگر حصول علم میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو ترقی سے نہیں روک سکتی۔ دوسری طرف فائق احمد ممتاز نے 17 واں رینک حاصل کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ پیام دیا ہیکہ محنت کے ذریعہ معاشرہ میں اعلیٰ مقام حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے محمد مشرف علی فاروقی نے 1122 خوش نصیب طلباء میں 80 واں رینک حاصل کرتے ہوئے یہ بتادیا کہ طالب علم کو صرف علم پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور کامیابی کو یقینی بنانے کیلئے صبح جلدبیدار ہونے سے متعلق سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنا ضروری ہے۔ کامیابی کو اگر کوئی اپنا مقصد و مشن بنالے تو یقینا کامیابی اس انسان کے قدم چومتی ہے۔ انہوں نے مسلم طلبہ کو یہ بھی پیام دیا ہیکہ جانبداری و تعصب کا شکوہ کرنے کی بجائے اپنی علمی قابلیت کے ذریعہ ہر ناانصافی کا منہ توڑ جواب دیا جاسکتا ہے۔

ثنا اختر 90 رینک، بونج اشین اسماعیل 146 رینک، شیراز داش یار (237 رینک)، ایس شفیق (250 رینک)، افسانہ پروین (332 رینک) دانش عبداللہ (335 رینک)، مدثر شفیع (488 رینک)، محمد سجیتا ایم ایس (511 رینک)، رئیس اختر (564 رینک)، محمد اقبال 568 رینک، فریہ اعجاز (574 رینک)، انبش آر (587 رینک)، محمد معین آفاق (649 رینک)، شریف رشید (715 رینک)، رونق حمید انصاری (763 رینک)، محمد صائم (775 رینک)، رازق نوید (781 رینک)، ایس فہد احمد خان (810 رینک)، این علی (851 رینک)، محمد شاہد کمال انصاری (857 رینک)، بابو عبدالقدیر (929 رینک)، محمد سرفراز عالم (016 رینک) اور محمد اشرف جے ایس (1032 رینک) نے بے شک ملت کا نام روشن کیا ہے۔ اس سلسلہ میں زکوٰۃ فاونڈیشن کی کوششوں کی سراہنا کی جانی چاہئے کہ اس کی کوششوں کے نتیجہ میں 12 مسلم طلبہ کو کامیابی حاصل ہوئی۔ یو پی ایس سی کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہیکہ آبادی کے لحاظ سے ہمارا مظاہرہ بہت خراب ہے۔ اس کی اہم وجہ مسلمانوں میں پائی جانے والی غربت ہے جبکہ دولتمند یاخوشحال اور متوسط خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ذہین اور غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل طلبہ کے ساتھ ساتھ ان کے والدین اپنے بیٹے بیٹیوں کو ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ

بنانے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ وہ آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس اور آئی آر ایس کے بارے میں سوچتے ہی نہیں حقیقت یہ ہیکہ انکے ذہنوں میں سیول سرویس کا تصور ہی نہیں آتا۔ مثال کے طور پر آپ 10 ہزار مسلم اسکولی طلبہ، 15 ہزار انٹرمیڈیٹ میں زیرتعلیم طلباء و طالبات اور ڈگری کررہے 15 ہزار مسلم طلبہ سے یہ سوال کریں کہ آپ مستقبل میں کیا بننا چاہیں گے؟ اسکولی طلبہ اور انٹرمیڈیٹ میں زیرتعلیم طلبہ کا یہی جواب ہوگا کہ ہم ڈاکٹر بننا چاہیں گے۔ انجینئرنگ کرنا پسند کریں گے۔ اسی طرح ڈگری کالجس کے طلبہ کا یہی جواب ہوگا کہ ہم ایم بی اے، ایم سی اے وغیرہ کریں گے حد تو یہ ہیکہ ان میں بہت کم ایسے ہوں گے جو یہ کہیں گے کہ ہم سی اے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بہرحال سب سے پہلے مسلم ماں باپ اور طلبہ میں پائی جانے والی اس سوچ کو بدلنا ہوگا۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنی ہوگی کہ آئی اے ایس کے سامنے ڈاکٹروں کی کوئی اہمیت نہیں۔ آئی پی ایس اور آئی ایف ایس کے مقابلہ انجینئرس کی کوئی قدرنہیں۔ ہم بچپن سے ہی بچوں کے ذہنوں میں ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی بجائے آئی اے ایس، آئی پی ایس بننے کا تصور بٹھادیں تو حالات میں کچھ تبدیلی آسکتی ہے۔ اس کے علاوہ قومی سطح پر زکوٰۃ فاونڈیشن کی طرز پر مسلم طلباء و طالبات کو سیول سرویس کی تیاری کروانے کا اہتمام کیا جانا چاہئے۔ اس لئے کہ ہمارے طلباء و طالبات میں ذہانت کی کوئی کمی نہیں۔ بہت سے قابل بچے بچیاں ہیں جنہیں صرف صحیح رہنمائی اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔ مسلم ادارے ان کے لئے مختلف مراعات کا اعلان کرتے ہوئے ایک طویل مدتی پروگرام کے تحت کوچنگ کا اہتمام کریں تو آنے والے برسوں میں سیول سرویس میں کامیاب ہونے والے مسلم طلبہ کی تعداد میں قابل لحاظ اضافہ ہوسکتا ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com