سینٹرل اسکولوں میں مذہبی پرارتھنا کیوں؟ مفاد عامہ عرضی پر سپریم کورٹ کا سرکا ر سے جواب طلب

چار ہفتوں کی مہلت‘ ہندوتوا کو فروغ دینے کا الزام
نئی دہلی سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے جس میں کہاگیا ہے کہ سنٹرل اسکولوں میں ہونے والی پرارتھنا ہندوتوا کو فروغ دیتی ہے۔ عرضی میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ ان اسکولوں میں ہونے والی پرارتھنا بند کرنا چاہئے‘ کیونکہ یہ اسکول سرکار کی جانب سے چلائے جاتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے ملک کے 1125سنٹرل اسکولوں میں طلبا کے صبح کے وقت سنسکرت او رہند ی میں کی جانے والی پرارتھنا ( دعا) کی ائینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواست پر مرکزی حکومت سے آج جواب طلب کیا۔ جسٹس روہنگٹن فالی نریمن او رجسٹس نوین سنہا کی بنچ نے ونائک سنگھ کی درخواست کی سماعت کے دوران مرکزی حکومت اور سنٹرل اسکول تنظیم کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا۔

نوٹس کو جواب دینے کے لئے عدالت عظمی نے چار ہفتوںں کا وقت دیاہے۔ عدالت نے پوچھا ہے کہ سینٹرل اسکولوں میں صبح کے وقت ہونح والی سنسکرت اور ہندی کی پرارتھنا غیرائینی ہے؟ عدالت نے اسے ایک سنجیدہ ائینی مسئلہ قراریتے ہوئے کہاکہ اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ درخواست گذار نے کہاکہ سینٹراسکولو ں میں1964سے ہندی سنسکرت میں صبح کی پرارتھنا ہورہی ہے جو مکمل طور پر غیرائینی ہے ۔

درخواست گزارنے اسے ائین کے ارٹیکل 25اور 28کے خلاف قراردیتے ہوئے کہاکہ اس کیاجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں مذہبی عقائداور علم کو فروغ دینے کے بجائے ‘ سائنسی حقائق کو فروغ دینا چاہئے۔

عدالت نے اس پر نوٹس جاری کرتے ہوئے مرکزی سرکار او رسینٹرل اسکول تنظیم سے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیاہند ی اور سنسکرت میں ہونے والی پرارتھنا( دعا)سے کسی مذہبی وابستگی کو فروغ مل رہا ہے ۔ اس نے پوچھا ہے کہ اسکولوں میں کل مذاہب دعا کیوں نہیں کرائی جاسکتی؟