سید ولی اللہ قادری نوجوانوں کیلئے مشعل راہ

محمد علیم الدین
سید ولی اللہ قادری، یہ نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ، عزم مصمم اور حوصلہ و جدوجہد کی ایک پہچان نوجوان نسل کیلئے مشعل راہ اور فرقہ پرستوںکیلئے خوف۔حقوق کو حاصل کرنے کیلئے جمہوری فن اور مخالفین کا منہ توڑ جواب دینا کوئی ان سے سیکھے۔ جے این یو میں جھنڈا لہرا نے اور کنہیا کمار کی ایجادکا سہرا بھی اس نوجوان قائد کے سر ہی جاتا ہے۔ تعلیم کو زعفرانے کے خلاف سخت گیر مہم چلانے والے سید ولی اللہ قادری کا 5سالہ دور ختم ہوا، اب وہ طلبہ تنظیم سے قومی سیاست کا حصہ بن گئے ہیں۔ اور اقلیتوں کیلئے انصاف کی لڑائی کا بیڑا اٹھائے ہوئے انصاف کا حصہ بن گئے ہیں۔ پارٹی قیادت نے ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے انہیں قومی سیاست کا حصہ بنایا ہے اور انہیں نیشنل کونسل میں رکنیت دی ہے۔ اردو میڈیم زیر تعلیم سید ولی اللہ قادری ورنگل کے ایک عام مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد قادری نے اسلامیہ جونیر کالج سے انٹر کی تعلیم مکمل کی۔ گریجویشن بھی اسلامیہ سے مکمل کیا جس کے بعد انہوں نے کاکتیہ یونیورسٹی کا رُخ کیا اور اپنی سائبر کی ڈگری مکمل کی اور امتیازی کامیابی کے ساتھ اپنے جوہر دکھائے اور اب کاکتیہ یونیرسٹی سے ہی وہ پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ معروف شاعر و کمیونسٹ قائد مخدم محی الدین کی سوانح حیات سے شدید متاثر ہوکر اس نوجوان نے بائیں بازو کی طلبہ تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی اور اپنا سیاسی سفر شروع کردیا۔ سال 2002 میں ورنگل سٹی پریسیڈنٹ کے بعد سال 2004 میں دو مرتبہ ضلع کے صدر رہے اور سال 2008 میں سکریٹری کا عہدہ سنبھالا ۔ ان کی ان صلاحیتوں اور حوصلے کو دیکھتے ہوئے پارٹی نے ہمیشہ ان کی ہمت افزائی کی اور سال 2008میں اسٹیٹ جوائنٹ سکریٹری اور سال2010 میں نیشنل کونسل کے رکن اور سال 2013 میں قومی صدر بن گئے ۔ سال 2001میں مخدوم محی الدین سے متاثر ہونے والا یہ نوجوان 18 سال میں ترقی کی منزلیں طئے کرتا چلا گیا۔ تلنگانہ کی تحریک کا ایک مضبوط حصہ بننے والا یہ نوجوان قائد آج ملک بھر میں آر ایس ایس کے لئے ایک کانٹا بنا ہوا ہے اور ملک بھر میں آر ایس ایس کی نفرت انگیزی اور زہر افشانی کیلئے یاترا، لانگ مارچ نکالنے کا بھی سہرہ ان ہی کے ذمہ جاتا ہے۔ 60 روز طویل یاترا جو کنیا کماری سے شروع ہوکر بھگت سنگھ کے شہر …… پر ختم ہوئی۔ نفرت کی سیاست کو آشکار کرنے میں بہت بڑا کام انجام دیا۔

جہاں تک تحریک تلنگانہ کا سوال ہے سید ولی اللہ قادری تین مرتبہ جیل جاچکے ہیں اور 45 دن جیل کی سزا کاٹی، کُل 150 مقدمات میں 600 مرتبہ ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔ وہ کاکتیہ یونیورسٹی طلبہ تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کنوینر بھی رہ چکے اور پولیس کی لاٹھی کو ان سے کچھ ایسا لگاؤ ہوگیا تھا کہ وہ ولی اللہ قادری پر برسنے میں دیر نہیں کرتی تھی۔ پولیس کی ظلم و زیادتیوں کا انہیں کافی عرصہ سے سامنا رہا۔ قومی صدر بننے کے بعد دہلی سے ان کی دوستی ہوگئی اور دہلی کو دہلانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ فارن یونیورسٹی بل سے لیکر نجیب جو آج بھی ایک معمہ بنا ہوا ہے ان پر حملہ کنہیا کی گرفتاری ، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے خصوصی موقف کی بحالی، علیگڑھ میں جناح کا تنازعہ، گاؤ رکھشکوں کے حملے، لو جہاد، گھر واپسی اور ہر مسئلہ پر دہلی میں جدوجہد کا آغاز کیا گیا۔حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی ریسرچ اسکالر روہیت ویمولہ کی موت ، حافظ جنید، اخلاق ، پہلو خاں، پنسارے ، داولکر جیسے دلت ، مسلم حملوں پر بھی قومی سیاست کو جھنجھوڑ دیا۔ نان نٹ فیلو شپ کے خلاف مرکزی حکومت کو مجبور کردیا گیا۔ 100دن مسلسل جدوجہد کا سہرا بھی انہی کے سرجاتا ہے۔
دنیا بھر کے125 ممالک سے ملک کے حالات پر ہمدردانہ خطوط حاصل کرنے کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے طلبہ تنظیموں کیلئے ایک نیا راستہ فراہم کردیا۔ بیرونی ممالک طلبہ تنظیموں سے رابطہ اور تبادلہ خیال قومی سطح پر ریاستی یونٹ کو ہدایت دینا اور کام سے جڑے رہنے کا ان کا طرز عمل اے آئی ایس ایف کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز بن گیا ہے۔ دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں موجودہ بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتے ہوئے انہوں نے ایک بڑا کارنامہ انجام دیا۔ جس کی بائیں بازو کے اعلیٰ قائدین نے بھی ستائش کی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سید ولی اللہ قادری کا کام کرنے کا طریقہ مخالفین کو بھی کافی پسند آتا ہے۔ انہوں نے اپنے دور میں الہ آباد، پنجاب کی یونیورسٹیوں میں زعفرانی کو ہٹا کر سرخ پرچم لہرادیا اور جے این یو کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بائیں بازو کا صدر کامیاب ہوا اور کنہیا کمار کی ایجاد بھی انہی کے دور میں ہوئی۔ قادری نے نہ صرف کنہیا کو ملک کے سامنے پیش کیا بلکہ کئی مرتبہ ان پر ہوئے حملے بالخصوص ہوائی جہاز میں کنہیا پر ہوئے جان لیوا حملہ میں ان کی جان بچائی۔

5سالہ دور میں 7 ممالک روس، چین، بنگلہ دیش، ساوتھ افریقہ، نیپال ، بھوٹان اور سری لنک کا دورہ کرتے ہوئے ملک کی نمائندگی پیش کی۔ انہوں نے بات چیت کے دوران اپنے مستقبل کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اشفاق اللہ خاں، بھگت سنگھ اور گاندھی کے اس ملک کو ناتھو رام گوڈسے کا ملک کبھی بننے نہیں دیں گے اور ان کا مقصد یہی ہوگا کہ وہ ملک کی تمام سیکولر جمہوری اقدار کی سیاسی و سماجی طاقتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کریں گے اور فرقہ پرستی و ہندوتوا کے خلاف اپنی لڑائی کو جاری رکھیں گے۔ انہوں نے ریاست تلنگانہ میں کے سی آر اور قومی سطح پر مودی کو اقتدار سے بیدخل کرنے کیلئے جاری جدوجہد سے متحدہ اور متفقہ طور پر جُٹ جانے کی اقلیتوں سے اپیل کی اور کہا کہ وہ ریاست تلنگانہ کے سیاسی دھارے میں شامل ہوں گے اور اپنا رول ادا کریں گے۔ انہوں نے اقلیتی نوجوانوں سے درخواست کی کہ وہ بائیں بازو میں شامل ہوکر حق کی لڑائی کا حصہ بنیں۔ سید ولی اللہ قادری سے 98493-65506 پر رابطہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ وہ تعلیم کے ذریعہ روزگار حاصل کرے گا ، تعلیم کے ذریعہ بہترین رتبہ ، ملازمت اختیار کرے گا تو وہ محدود ہی رہے گا۔ تعلیم سے قابلیت اور قابلیت سے قائدانہ صلاحیت ہی قوم کی تقدیر کو بدلنے کا موقع دے سکتی ہے۔ لہذا مسلم نوجوانوں سے میری اپیل ہے کہ وہ سیاسی میدان میں دلچسپی دکھائیں۔ اگر وہ سیاست میں سچائی کے ساتھ رہیں گے تو برے لوگوں کو اقتدار سے روک سکتے ہیں۔ اقتدار پر قبضہ کی فکر کرنا اس دور میں درست نہیں بلکہ اقتدار پر قابو رکھنا کافی اہمیت ہے۔ اور اقلیتی نوجوان بہتر سے بہتر کرسکتے ہیں ، ہمیں اپنی شناخت بنانے سے زیادہ مخالفین کی پہچان کو ظاہر کرنا ہے تاکہ مجبور، لاچار ، بے بس ، غریب ، پچھڑے ہوئے کچلے ہوئے ، دبادیئے گئے حقوق کی تلافی کا شکار دلت، آدی واسی، اقلیتی طبقات کے ساتھ انصاف ہوسکے اور جمہوری اقتدار برقرار ہے۔