سید رحمت علی

 

میرا کالم مجتبیٰ حسین
سید رحمت علی سے ہمارے کئی رشتے تھے اور ہر رشتہ کی بنیاد نہایت اٹوٹ اور مستحکم تھی ۔ یہ رشتے تہذیبی تھے اور ادبی بھی ، سماجی بھی تھے اور سیاسی بھی ۔ صحافتی بھی تھے اور نظریاتی بھی ، شخصی بھی تھے اور جذباتی بھی ۔ وہ مجھ سے عمر میں دس بارہ برس بڑے تھے اور یہ ان کی بڑائی تھی کہ انہوں نے ہمیشہ مجھ سے ایک بے تکلف دوست کا سا برتاؤ کیا ۔ وہ اس حیدرآبادی تہذیبی کے پروردہ تھے جس کی بنیاد شرافت ، مروت ، منکسر المزاجی، بھائی چارہ ، شائستگی اور وسیع المشربی کے ساتھ ساتھ حق گوئی اور راست گوئی پر رکھی گئی تھی ۔ یہ ایک ایسی صُلح کل والی معتدل تہذیب تھی جو اپنے آپ ہی پُل صراط پر سے بہ آسانی گزر جانے کا حوصلہ اور تجربہ رکھتی ہے۔ یہاں ان عناصر پر روشنی ڈالنے کا موقع نہیں ہے جن کی بنیاد پر اس بے مثال حیدرآبادی تہذیب کی تشکیل ہوئی تھی ۔ اس مخصوص حیدرآبادی تہذ یب کے پروردہ لوگ شائستگی اور بے ادبی کے درمیان پائے جانے والے بال برابر کے فرق کو بخوبی جانتے تھے اور اپنی اپنی حدوں میں سلیقہ سے سمٹ کر رہنے کو ضروری گردانتے تھے ۔ میانہ روی رواداری اور اعتدال پسندی کی روش پر چل کر اس حیدرآبادی تہذیب نے ترقی کی منزلیں طئے کی تھیں اور غیر منقسم ہندوستان میں ریاست حیدرآباد کی ان روایات کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ۔ انڈین یونین میں ریاست حیدرآبادکے انضمام کے وقت تک سید رحمت علی اس تہذیب میں اپنی زندگی کے پچیس برس گزارچکے تھے ۔ جاگیردارانہ نظام سے ایک جمہوری نظام کی طرف شروع ہونے والے سفر کے آغاز پر رحمت علی کی دوربین نگاہوں نے بہت پہلے آنے والی تبدیلیوں کی جھلک دیکھ لی تھی ۔ جہاں ہجرتوں کا آغاز ہوا ، وہیں بہت سوں کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ حالات سے کنارہ کش ہوتے چلے گئے ۔ اس افراتفری کے ماحول میں رحمت علی نے خاموش تماشائی بننا گوارا نہیں کیا ۔ انہوں نے محسوس کیا کہ کنارہ کشی اور لاتعلقی مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ بدلے ہوئے حالات میں ایک سلجھی ہوئی خوددار شمولیت ہی حوصلوں کی پستی کو بلندی عطا کرسکتی ہے ۔ یوں ان کا صحافتی سفر اور سیاسی سفر دونوں ساتھ ساتھ ہی شروع ہوئے۔ مرتضیٰ مجتہدی کے روزنامہ ’’اقدام‘‘ سے ان کا صحافتی سفر شروع ہوا، پھر ’’نظام گزٹ‘‘ اور ’’انگارے‘‘ سے ہوتا ہوا ’’ملاپ‘‘ تک پہنچا۔ اس سفر میں انہوں نے جذباتی صحافت اور جذباتی سیاست دونوں سے اپنے آپ کو دور رکھنے کے کامیاب جتن کئے۔

وہ سچ مچ نیچے کی سطح یا عوام کے بیچ سے ابھرنے والے grass root کے رہنما تھے۔ چنانچہ میونسپل کونسلر سے ملک کی پارلیمنٹ کے رکن بننے تک کا تاریخی سفر ان کی زینہ بہ زینہ ترقی کا ثبوت ہے ۔ وہ راتوں رات رہنما یا قائد نہیں بنے بلکہ سخت جدوجہد ، بے لوث کڑی محنت اور جذبۂ خدمت کے زیر اثر اپنے ایک ایک پل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس رتبہ تک پہنچے تھے ۔ ابتداء میں وہ کچھ عرصہ تک سوشلسٹ پارٹی سے بھی وابستہ رہے لیکن اس کے بعد کانگریس پارٹی سے جو وابستہ ہوئے تو آخری دم تک اس وابستگی کو برقرار رکھا۔ حالانکہ اس عرصہ میں بہت سوں نے چولے بدلے ، عقیدے بدلے ، پارٹیاں بدلیںاور بہت کچھ بدلا۔ سید رحمت علی جیسی ثابت قدمی کسی اور کے حصہ میں نہ آئی ۔ میں نے 1955 ء میں انہیں ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے سنا تھا ۔ وہ بہت اچھے مقرر تھے اوران کا ہر جملہ ان کے سامعین اور ان کے مداحوں کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنتا چلا جاتا تھا ۔ یہ میری طالب علمی کا دور تھا اور میں نے جلسہ کے بعد اپنا تعارف ان سے کرایا تھا ۔ 1956 ء میں جب میں نے ’’سیاست‘‘ سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا تو صحافتی برادری کے ایک ادنیٰ رکن کی حیثیت سے بھی میرا ان سے تعلق قائم ہوگیا ۔ ہر اچھی اور صحت مند عوامی تحریک سے رحمت علی نے اپنے آپ کو جوڑے رکھا ۔ سنا ہے کہ نامپلی میں ان کی ایک ہوٹل بھی تھی اور وہ حیدرآباد ہوٹل اونرس اسوسی ایشن کے سرپرست بھی تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سے اگر کسی ہوٹل میں ملاقاتیں ہوئیں تو وہ ’اورینٹ ہوٹل‘‘ تھی ۔ ایک زمانہ میں اورینٹ ہوٹل کو ایک ایسی مرکزیت حاصل ہوگئی تھی جہاں حیدرآباد کے شاعر ، ادیب ، داشنور ، فنکار اور سیاسی رہنما شام میں اکثر جمع ہوجایا کرتے تھے ۔ ان میں سے چند کے نام مجھے اب تک یاد ہیں۔ ٹی انجیا ، وینکٹ سوامی ، ایم ایم ہاشم ، ایم اے رشید وغیرہ ۔ رحمت علی ا گرچہ یہاں پابندی سے نہیں آیا کرتے تھے لیکن دس پندرہ دنوں میں دو ایک بار ضرور آجاتے تھے ۔ میں اکثر مذاق میں اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ رحمت علی اکیلے ایسے مالک ہوٹل ہیں جو خود اپنی ہوٹل کے کھانے سے پرہیز کرتے ہیں اور غیروں کی ہوٹلوں میں زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔

وہ حیدرآباد سائیکل رکشا یونین کے بھی سربراہ تھے ۔ ٹریڈ یونین سے لے کر بلدیہ حیدرآباد کے امور تک ان کا دائرہ عمل نہایت وسیع اور سرگرم تھا ۔ بلدیہ حیدرآباد کے کونسلر منتخب ہوئے ، یہاں تک کہ بلدیہ حیدرآباد کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے صدرنشین اور بعد میں حیدرآباد کے ڈپٹی میئر بن گئے ۔ بہت کم مسلمان رہنما انتخابی سیاست کے ذریعہ ایوان اقتدار میں پہنچتے ہیں۔ رحمت علی اپنی مقبولیت اور ہردلعزیزی کی بناء پر آصف نگر حلقہ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور آندھراپردیش اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر بھی بنے۔ 1980 ء میں وہ راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوکر دہلی آئے تو ان سے میرے نہایت قریبی مراسم استوار ہوئے ۔ مجھے حیدرآباد سے دہلی آئے ہوئے آٹھ برس ہوچکے تھے اور اس عرصہ میں دہلی جیسے ظالم شہر کے ادبی، تہذیبی اور سماجی حلقوں نے مجھ پر اپنی بے پناہ محبتیں نچھاور کی تھیں جو آج بھی میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ رحمت علی کی کوٹھی 12E فیروز شاہ روڈ پر تھی جو مرکزی دہلی کا خود بھی ایک مرکزی علاقہ ہے ۔ تقریباً ہر روز ان کے ہاں آنا جانا ہوا کرتا تھا ۔ اگر کسی دن میں نہ جاتا تو دوسرے دن ان کا فون آجاتا تھا کہ کل کیوں نہیں آئے ۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ اس زمانہ کی پارلیمنٹ میں میرے کئی شناسا اور کرم فرما رکن پارلیمنٹ بن گئے تھے ۔ وینکٹ سوامی ، کمال الدین احمد ، نرسا ریڈی ، گنگا ریڈی ، شیو شنکر ، روڈا مستری ، قاضی سلیم ، چوکاّ راؤ وغیرہ ۔ کتنے نام گناؤں ۔ رحمت علی کو میں نے کبھی بیکار نہیں دیکھا ۔ ہمیشہ کسی نہ کسی مسئلہ میں الجھے رہتے تھے اور لوگوں کا تانتا بھی بندھا رہتا تھا ۔ بلدیہ حیدرآباد کے رکن سے لے کر پارلیمنٹ کے رکن بننے اور اس کے بعد کے سفر تک بھی رحمت علی نے اپنی قلندرانہ شان اور بے نیازی کی آن بان کو برقرار رکھا ۔ جب وہ ڈپٹی میئر تھے تو تب بھی اپنی موپیڈ (Vicky Moped) پر نہ صرف خود سفر کرتے تھے بلکہ کسی نہ کسی حاجت مند یا ضرورت مند کو اپنی Moped کی پچھلی نشست پر بٹھا لیتے تھے ۔ وہ غریبوں ، ضرورت مندوں اور پریشان حالوں کے سچے بہی خواہ اور ہمدرد تھے ۔ کوئی مسئلہ اور کسی کا بھی مسئلہ ان کے علم میں لایا جاتا تو فوراً اس کو حل کرنے کی جستجو میں لگ جاتے تھے ۔

خود میرے احباب کے بھی کئی کام رحمت علی کے ہاتھوں ہی انجام پائے۔ خوشونت سنگھ میرے کرم فرما رہے ہیں اور دہلی میں ان سے اکثر ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں (یہ خوشونت سنگھ کی بڑائی ہی ہے کہ انہوں نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں ناچیز کے ذکر کو شامل رکھا، وہ بھی اُن دنوں راجیہ سبھا کے رکن ہوا کرتے تھے۔ ایک دن ملے تو کہنے لگے ’’ میں نے آج راجیہ سبھا میں تمہارے حیدرآباد کے ایک نئے رکن کی تقریر سنی ۔ کیا لاجواب مقرر ہے ۔ کیا تم انہیں جانتے ہو؟ ‘‘ میں سمجھ گیا کہ ان کا اشارہ رحمت علی کی طرف ہے ۔ جب میں نے ان سے اپنے مراسم کا ذکر کیا تو فرمایا ’’تم انہیں ایک دن میرے گھر کھانے پر لے آؤ۔ میں ان سے تفصیل سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘ دو چار دن بعد میں اور رحمت علی ان کے ہاں گئے تو خوشونت سنگھ کی گرم جوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی ۔ رحمت علی پان کے بے حد شوقین تھے اور ان کا مشہور و معروف پاندان اور پاندان کے دیگر ساز و سامان پر مشتمل ایک بڑا پرس ہمیشہ ان کے ساتھ رہا کرتا تھا ۔ حسب عادت رحمت علی نے اپنا پاندان کھولا تو خوشونت سنگھ کی آنکھیں چمک گئیں۔ بولے ’’آپ بھی پان کے شوقین ہیں۔ میں تو ان کا رسیا ہوں‘‘۔ رحمت علی خود اپنے ہاتھ سے پان بنایا کرتے تھے اور برسوں کے تجربہ اور عادت کی وجہ سے ان کے ہاتھ میں وہ ذائقہ پیدا ہوگیا تھا (جیسا کہ بعض حکیموں کے ہاتھ میں شفا ہوتی ہے) کہ جو بھی پان کی گلوری منہ میں رکھتا تھا اس وقت تک تعریف کے لئے اپنا منہ نہیں کھول سکتا تھا جب تک کہ وہ اس ذائقہ دار پان کو کھا نہیں لیتا تھا ۔ بعد میں میری جگہ پان نے لے لی اور خوشونت ان کے گہرے دوست بن گئے ۔ روڈا مستری جب بھی اپنے گھر پر کھانے کی دعوت رکھتی تھیں اور رحمت علی کو مدعو کرتی تھیں تو مجھ سے کہا کرتی تھیں ’’تم رحمت علی سے کہو کہ دعوت میں آتے ہوئے وہ اپنا پان کا ڈبہ ساتھ نہ لائیں۔ اکثر لوگ ان کے پان زیادہ کھاتے ہیں اور میرے گھر کا کھانا کم کھاتے ہیں‘‘۔

رحمت علی زندگی بھر کانگریس کلچر سے وابستہ رہے لیکن اس کلچر کی لازمی شرط یعنی چاپلوسی اور خوشامد کے چونچلوں سے کبھی نہ تو خود ملوث ہوئے اور نہ ہی کسی کو موقع دیا کہ وہ ان کی خوشامد کرسکے ۔ خودداری اور اپنی انا کی کڑی حفاظت کرنے والا ایسا شخص آج کے دور میں پیدا ہوجائے تو یہ خود ایک عجوبہ ہے ۔ یہ خوش بختی نہیں تو اور کیا ہے کہ میں نے اس عجوبے کو نہ صرف دیکھا اور پرکھا بلکہ اسے برتا بھی ہے ۔ میں نے ان کی زبان سے کبھی کوئی ’’حرف شکایت‘‘ نہیں سنا۔ نہ دوستوں کے سلسلہ میں نہ دشمنوں کے سلسلہ میں اور نہ ہی زمانہ کے بارے میں ۔ حالانکہ علامہ اقبال نے اپنے کلام کے ذریعہ اردو تہذیب کو خدا سے شکوہ کرنے کا سلیقہ بھی سکھا رکھا ہے ۔ پچھلے دس بارہ برسوں سے وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہوگئے تھے لیکن اپنے صحافتی بیانات کے ذریعہ اپنی آواز اور نقطہ نظر کو عوام تک پہنچایا کرتے تھے ۔ روزنامہ ’’سیاست‘‘ سے انہیں گہرا لگاؤ تھا اور ان کے بیشتر مضامین ’’سیاست میں ہی شائع ہوئے۔ سینئر صحافی منور علی کو وہ بہت عزیز رکھتے تھے جو روزنامہ ’’انگارے‘‘ میں ان کے رفیق کار تھے ۔ وہ اپنے بڑے بیٹے شوکتؔ کو بہت چاہتے تھے جو دوبئی کی ایک بینک میں اہم عہدے پر فائز ہے ۔ 1997 ء میں ، میں دبئی گیاتھا ۔ اگرچہ میں کسی اور کا مہمان تھا لیکن میرا زیادہ وقت شوکتؔ کے ساتھ ہی گزرتا تھا ۔ شوکت کی نہ صرف شباہت میں بلکہ اس کی سیرت اور اوصاف میں بھی مجھے رحمت بھائی ہی نظر آئے۔ رحمت علی زندگی بھر کرایہ کے مکانوں میں رہے ۔ کوئی قطعۂ اراضی بھی ان کے حصہ میں نہ آیا ۔ اپنی بے مثال عوامی خدمات کے عوض وہ چپ چاپ صرف دو گز زمین میں مٹی کی چادر اوڑھ کر روپوش ہوگئے ۔ نہ زبان پر کوئی حرف شکایت اور نہ دل میں کوئی کدورت۔ نہ صلہ کی تمنا نہ ستائش کی آرزو ۔ کیا یاد کروں اور کیا بھول جاؤں۔ پل دو پل کی بات نہیں، یہ نصف صدی کا قصہ ہے ۔ فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎
اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں
(5 جولائی 2009 ء)