ڈاکٹر احمدعلی شکیل
سید احمد ہنر ؔدکنی ادب کے اٹھارویں صدی کے نصف اول کا شاعر ہے ۔ ہنرؔ نے اپنی شاعری کا آغاز اس وقت کیا جب کہ گولکنڈہ اور بیچاپور کی سلطنتوں کی بساط اُلٹ چکی تھی اور اس عہد کے شعراء کو کسی دربار سے وابستگی یا سرپرستی حاصل نہیں رہی تھی ۔ ہنرؔ کے ہم عصر باکمال شعراء میں عارف الدین خاں عاجزؔ ، داؤد ؔ ، وجدیؔ ، قاضی محمود بحریؔ ، معتبر خاں عمرؔ ، ولی ؔ ، شاہ قاسم ؔ اور سراجؔ شامل ہیں ۔ ان قدیم شعراء کی شخصیت کے بارے میں ہماری معلومات کا ماخذ صرف قدیم تذکرے ہیں جو شمالی ہند میں لکھے گئے ۔ ان میں دکنی شعراء کے بارے میں بہت کم معلومات فراہم کی گئیں۔ شمالی ہند کے ان تذکروں میں صرف چند مشہور و معروف دکنی شعراء جیسے غواصیؔ ، نصرتیؔ ، عزلتؔ ، داؤد ؔ، ولیؔ اور سراجؔ کا ذکر سرسری انداز میں ملتا ہے ۔
دکن کے بعض تذکرہ نگاروں جیسے عبدالجبار خاں ملکاپوری ، لالہ لچھمی نارائین شفیقؔ ، خواجہ خاں حمیدؔ اور اسد علی خاں تمناؔ نے اکثر شعراء جیسے شاہ میران جی شمس العشاق ، برہان الدین جانم ؔ ، امین الدین اعلیٰ ؔ ، ابن نشاطیؔ ، وجدیؔ ، عشرتیؔ اور ہنر ؔکا ذکر تک نہیں کیا ۔ البتہ بیسویں صدی کے ربع اول کے بعد کے تذکرہ نگاروں جیسے سید شمس اللہ قادری ، ڈاکٹر زور ، عبدالقادر سروری ؔ نصیر الدین ہاشمی اور اکبر الدین صدیقی نے بہت سارے دکنی شعراء اور ان کے کارناموں کو ادبی دُنیا سے روشناس کرایا لیکن ہنرؔ کے حالات ِزندگی اور کلام سے متعلق کسی نے بھی تفصیل سے اظہارِ خیال کیا اور نہ ہی خود ہنرؔ کی تصنیف سے اس کی شخصیت اور فن پر کوئی روشنی پڑتی ہے۔
راقم الحروف کو ہنرؔ کے خاندان کا شجرۂ نسب ’’ انساب الاقرباء از میر غلام عابد ‘‘ قلمی کے ایک نسخہ کو دیکھنے کا موقع ملا ۔ یہ مخطوطہ فارسی میں ہے جو ۱۲۹۳ء میں لکھا گیا ۔ اس شجرۂ نسب سے ہنرؔ اور اس کے خاندان کے بارے میں کچھ تفصیلی معلومات فراہم ہوتی ہیں ۔
ہنرؔ کا پورا نام سید فدوی احمد خاں اور تخلص ہنرؔ ہے اور یہ خاندان آج بھی حیدرآباد کے پرانے شہر میں موجود ہے ۔ ہنرؔ کا تعلق سادات گھرانے سے ہے اور اس کا سلسلہ نسب ۳۰ واسطوں سے حضرت علیؓ سے جاملتا ہے ۔ ہنرؔ کے والد کا نام سید محمد عشرتیؔ اور والدہ کا نام امین بی بی صاحبہ تھا ۔ ہنرؔ کے والد عشرتی ؔکا وطن بصرہ تھا وہ اپنے خاندان سے شکر رنجی کے بعد ترکِ وطن کرتے ہوئے ایران چلا آیا اور یہاں اس نے فارسی علم و ادب میں کمال حاصل کیا ، یوسف عادل شاہ والی بیجاپور کے عہد میں وہ ایران سے بیجاپور پہنچا اور دربار سے منسلک ہوگیا۔ عالم گیر کی فتح بیجاپور کے بعد عشرتیؔ اور اس کے افرادِ خاندان حیدرآباد منتقل ہوگئے ہوں ۔ عشرتیؔ حیدرآباد ہی میں پیوند ِخاک ہوا ۔
ہنرؔ کی مثنوی ’’ نیہ درپن ‘‘ ایک ایسی مثنوی ہے جس کے بارے میں دکنی کے بہت کم محققین نے خامہ فرسائی کی ۔ دکن کے کم و بیش سارے محققین جن میں شیخ چاند ، سخاوت مرزا ، سید محمد شامل ہیں ، کسی نے بھی نا تو ہنرؔ کے بارے میں کچھ لکھا اور نہ ہی اس کی مثنوی ’’ نیہ درپن ‘‘ کے بارے میں کوئی معلومات بہم پہنچائیں ۔
ہنرؔ کے بارے میں سب سے پہلے بابائے اُردو مولوی عبدالحق نے اس طرح سے روشنی ڈالی ہے ۔ ’’ سید احمد تخلص ہنرؔ عشرتیؔ کے فرزند ہیں ان کی تصنیف سے دو کتابیں ہیں ایک ’’ نیہ درپن ‘‘ اور دوسری ’’ اوتاربن ‘‘ ۔
اُردو شہ پارے میں ڈاکٹر زور نے مثنوی نیہ درپن کو عشرتی ؔ سے منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ عشرتی ؔ ایک پرگو شاعر تھا اس کی مثنویوں سے ’’ دیپک پتنگ ‘‘ ، ’’ چت لگن ‘‘ ، ’’ نیہ درپن ‘‘ اور ایک دو ناقص مثنویاں راقم کی نظر سے گذر چکی ہیں ‘‘ ۔ اس کتاب میں ڈاکٹر زور نے ’’ میدانِ جنگ از نیہ درپن ‘‘ کے عنوان سے 18 اشعار لکھ کر عشرتیؔ کو سراہا ہے ۔
اُردو شہ پارے میں مذکور اس دعوے سے پروفیسر سروری اور اکبر الدین صدیقی نے اختلاف کیا ہے ۔ پروفیسر سروری لکھتے ہیں کہ ’’ نیہ درپن ‘‘ اسی عہد کی ایک مشہور تصنیف ہے جو غلطی سے عشرتیؔ کے نام سے منسوب کردی گئی ۔ یہ دراصل عشرتیؔ کے فرزند ہنر ؔکی تصنیف ہے ۔ اسی بیان پر محمد اکبر الدین صدیقی نے یوں اضافہ کیا ہے :’’ گولکنڈہ کے ایک مشہور شاعر سید محمد عشرتیؔ کے فرزند ہنر ؔنے پھول بن کے جواب میں جو مثنوی ’’ نیہ درپن ‘‘ کے نام سے لکھی تھی بعض وقت غلطی سے عشرتیؔ کے نام سے منسوب کردی گئی ۔ یہ مثنوی کافی شہرت رکھتی ہے ‘‘۔
زور صاحب اپنی دوسری تصنیف اُردو شہ پارے کی تصنیف کے 22 سال بعد اپنے بیان کی خود نفی کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں ۔ ’’ عشرتیؔ کے فرزند سید احمد ہنرؔ نے بھی اپنے باپ کی طرح کئی مثنویاں لکھی تھیں ۔ جن میں ’’ نیہ درپن ‘‘ بہت مشہور ہے جو سنہ ۱۱۴۴ھ میں تمام ہوئی تھی ‘‘ اور اسی بات کو نصیر الدین ہاشمی نے بھی کچھ اس طرح سے لکھا ہے ۔ ’’ سید احمد نام اور ہنر ؔتخلص تھا ۔ عشرتی ؔ کے فرزند تھے ۔ کئی مثنویاں ان کی یادگار ہیں ۔ ایک نیہ درپن ہے جو ۱۱۴۴ھ میں قلم بند ہوئی ہے ۔ یہ مثنوی ابن نشاطی ؔکے ’’ پھول بن ‘‘ کے جواب میں لکھی گئی ۔
ہنرؔ کی اس مثنوی کی تصنیف کا مقصد اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا تھا ۔ سبب ِتالیف کے باب میں وہ لکھتا ہے کہ ایک دن وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک دوست نے ایک فارسی داستان اپنے ساتھ لائی اور لوگوں سے کہا کہ اسے دکنی زبان میں نظم کرے اس شخص کی بات سن کر لوگوں نے ہنرؔ کی طرف اشارہ کیا اور اسے لکھنے پر مجبور کردیا ۔ مندرجہ اشعار سے شاعر کی بات کی صراحت ہوتی ہے ۔
اتھا یک روز عجب کچھ راحت افروز
مگر شادی کے تھا پُھلبن کا نو روز
جدھر دیکھے اُدھر تھی شادمانی
خوشی ہور خرمی ہور کامرانی
کھلیا اس دن مرے دل کا بھی پُھلبن
صفا پایا مرے سینے کا درپن
دیکھت خوش وقت ، وہنگام فراغت
ملے یاراں کی میرے دھر جماعت
ہوئی مجلس عجب رنگیں سہانی
کرن لاگے ہر یک نکتہ فشانی
یہ مثنوی رزمیہ اور بزمیہ کا حسین امتزاج ہے ، اس رزم و بزم کے امتزاج نے ایسے مرقع کھینچے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو عینی شاہد تصور کرتے ہیں ۔ پورا قصہ ابتداء سے آخر تک صاف ہے اور بہ یک نظر ذہن نشین ہوجاتا ہے ۔ مثنوی کا ہر کردار اپنا فرض نبھاتے ہوئے قصہ کو آگے بڑھاتا ہے ۔ کہانی میں جو بھی کردار ہمارے سامنے آتے ہیں وہ ابتداء سے آخر تک مربوط ہیں ۔
ہنرؔ نے ’’ نیہ درپن ‘‘ سنہ ۱۱۴۴ ھ مطابق ۱۷۳۱ء میں لکھی ۔ یہ وہ دور تھا جب دکنی زبان و ادب ایک ترقی یافتہ روپ میں اس کے سامنے موجود تھے اور یہی وجہ ہے کہ اس منجھی ہوئی دکنی زبان کو اس نے اپنی مثنوی میں پیش کیا ہے ۔ نیہ درپن کے ابیات کی تعداد تقریباً ۶۴۰۰ ہے اور اشعار کی اس کثرت کے باوجود ہمیں ہنرؔ کے فن کا جگہ جگہ اعتراف کرنا پڑتا ہے ۔ ہنرؔ کے دور تک دکنی شعراء بیجاپور اور گول کنڈہ کی سرپرستیوں میں پروان چڑھتے رہے ۔ اظہار ِابلاغ اپنے بلند معیارات تک پہنچ چکے تھے ۔ خواص و عوام میں ذوقِ سخن اس حد تک باشعور ہوگیا تھا کہ کسی کم درجہ کی شاعری کا مقبول ہونا دشوار تھا ۔ متقدمین شعراء کے فکر و خیال میں نادر ترکیبوں اور معنوی خوبیوں سے دکنی شاعری کو اس حد تک نکھار دیا تھا کہ بظاہر ارتقائے شعر کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اور خصوصاً سقوط ِبیجاپور اور گول کنڈہ کی افراتفری کے بعد کسی شاعر میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ کسی طویل تخلیقی کارنامہ کی صورت گری کرے اور اپنے فن کے جوہر دکھائے لیکن ہنرؔ نے اپنی مثنوی میں فن کے وہ جوہر دکھائے ہیں کہ ہمیں اس کے کمالِ فن کو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے ۔ اگر ہم اس کی مثنوی کو دکنی ادب کے خزانوں میں ایک گراں قدر اور بیش بہا اضافہ کہیں تو کچھ بے جا نہ ہوگا ۔ ہنرؔ کو فن شاعری اپنے باپ عشرتیؔ سے ورثہ میں ملا تھا ۔ متقدمین اور ہم عصروں کے مثالی نمونے اس کے سامنے تھے اس نے دکنی شاعری کے اس باوقار معیار کو اور اُونچا کیا اور یہی وجہ ہے کہ ’’ نیہ درپن ‘‘ اپنی سلاست اور روانی کے اعتبار سے ایک لافانی شاہ کار ہے ۔ جس میں شاعر نے اپنا پورا زورِ قلم دکھایا ہے ۔ ہنرؔ نے منظر نگاری ، کردار نگاری ، جذبات نگاری کے ساتھ ساتھ اس عہد کے تہذیبی و ثقافتی عناصر رہن سہن ، آداب ِمعاشرت ، رسوم و رواج کی ایسی منظرکشی کی ہے کہ اس کی باریک بینی ، سماجی مظاہر سے دلچسپی اور عوام و خواص کے جذبات کی عکاسی ، خوش اسلوبی کے ساتھ واضح ہوتی ہے ۔
یہاں اس بات کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ جن آداب ِمحفل ، رسم و رواج ، شائستگی اور تہذیب و تمدنی عناصر کی عکاسی نیہ درپن میں کی گئی ہے یہ سب کے سب آج بھی دکنی تہذیب میں جاری و ساری ہیں ۔ ہنرؔ ایک قادرالکلام شاعر ہے جس نے اپنی عہد کی تمدنی تاریخ کو مثنوی نیہ درپن کے ذریعہ محفوظ کردیا ہے ۔ یہ کہنا کچھ بے جا نہ ہوگا کہ وہ اپنے وطن کی ثقافت کا ایک تاریخ ساز شخصیت کا حامل تھا ۔ فن شاعری پر اسے پورا عبور حاصل تھا ۔ شعری محاسن پر اس کی نظر گہری تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے عہد کی سماجی زندگی کے سارے مظاہر کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیش کیا ہے ۔ شعری محاسن کی جھلکیاں نیہ درپن میں جگہ جگہ موجود ہیں ۔ صنائع لفظی و صنائع معنوی دونوں کو اپنے فن میں جگہ دے کر شاعر نے دکنی شاعری کے معیار کو بلند کیا ہے ۔ خصوصاً منظر نگاری میں جگہ جگہ ہنرؔ نے اچھوتی تشبیہات اور استعارے استعمال کیے ہیں ۔ بیان میں سادگی ، زبان میں روانی اور مواد کی پیش کشی میں تسلسل ، یہ تینوں خوبیاں ’’ نیہ درپن‘‘ میں جمع ہوگئی ہیں ۔ ہر مرحلہ پر ہنرؔ کا فن اپنی انتہائی بلندیوں کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔