یلاریڈی۔ یکم اپریل (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) سید ابراہیم کو اس مرتبہ پارٹی ٹکٹ نہ دینا ٹی آر ایس کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ چودہ سال پارٹی کیلئے انتھک محنت کرنے والے اقلیتی قائد کو مسٹر چندر شیکھر راؤ نے آسانی کے ساتھ دور کرنے کی بہت بڑی غلطی کی ہے ۔ ضمنی چناؤ میں سید ابراہیم کو JAC اور ٹی آر ایس قائدین کی سازش سے ہی کامیابی قریب سے گذر گئی اور بی جے پی نے اپنے قدم جمالئے۔ ضمنی چناؤ میں سید ابراہیم کے ساتھ کی گئی سازش سے تلنگانہ کی اقلیت بخوبی واقف ہیں۔ ایسے میں آنے والے عام انتخابات کے لئے محبوب نگر حلقہ اسمبلی سے دوبارہ امیدوار نہ بنائے جانے کی ٹی آر ایس پالیسی سے اقلیتوں میں تشویش ضرور پیدا ہوچکی ہے۔ 2009ء کے عام انتخابات میں مسٹر چندر شیکھر راؤ نے پارلیمانی نشست پر قبضہ کرنے کی غرض سے مسٹر سید ابراہیم کو اپنا ڈھال بنایا اور اب تلنگانہ حاصل ہوتے ہی انہیں اقلیتی ہمدردی کی شاید ضرورت ہی نہیں ہے۔ ضمنی چناؤ میں اگر سید ابراہیم نے شکست کا سامنا کیا تو اس کے پیچھے کس کی سازش تھی، کیا یہ چندر شیکھر راؤ کو نہیں معلوم؟ اس طرح کنارے پر آنے کے بعد ساتھ چھوڑ دینا ٹھیک ہے؟ مسٹر چندر شیکھر راؤ اس مرتبہ بھی محبوب نگر سے مقابلہ کرکے کامیاب ہوکر دکھائیں۔ سید ابراہیم کا کانگریس پارٹی میں شامل ہونا ہی ٹی آر ایس کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے جس کا بہت جلد انہیں احساس بھی ضرور ہوگا۔ اقلیتوں کیلئے صرف بڑے بڑے دعوے کرنا ہی نہیں عمل بھی کرکے دکھانا ہوگا۔
کے سی آر نے ابراہیم کو پارٹی سے دور ہونے پر مجبور کردینا، اقلیتی طبقہ میں تشویش پیدا کردی ہے۔ سید ابراہیم کی محنت کا ٹی آر ایس نے جو صلہ دیا ہے، اس کے بعد اقلیتی رائے دہندوں کو اب بیدار ہونا ہوگا، ورنہ ہمیشہ کی طرح اقلیتوں کا استحصال جاری رہے گا۔ ابھی انتخابی جنگ سامنے ہے اور ابھی سے کے سی آر نے بدنیتی کو ظاہر کرنا شروع کردیا ہے۔ آنے والے عام انتخابات میں اقلیتوں کو فیصلہ کن موقف اختیار کرنا ضروری ہے۔ ہر چناؤ میں ہر جماعت کو اقلیتی ووٹ کثرت سے یاد آتے ہیں اور انتخابات کے بعد انہیں اقلیتوں کے ہونے کا احساس تک نہیں رہتا۔ اس لئے بڑی دانشمندی کیساتھ اس مرتبہ اقلیتوں کو رائے دہی کے ذریعہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ علیحدہ تلنگانہ کے اعلان کے بعد یہ پہلا الیکشن ہے جس میں تلنگانہ کے اقلیتی رائے دہندوں کا استحصال سے روکنا ہوگا کیونکہ مسلمانوں کو صرف بیالٹ تک ہی محدود رکھا گیا ہے، ہمارے وجود کو محسوس کرانے کیلئے ہر مسلم رائے دہندے کو سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کے ذریعہ جواب دینا ہوگا۔