پروفیسر عتیق اللہ
مجھے اس بات کی خوشی ہے ، اور اس کا اظہار میں نے سیدہ جعفر سے بھی کیا تھا کہ ہندو پاک میں اتنی محنت جو ، اپنی نظم و ضبط پسند ، اتنا مرتب ذہن رکھنے والی کوئی اور خاتون مجھے نظر نہیں آتی ۔ گذشتہ کم و بیش چالیس برسوں سے وہ مستقلاً لکھتی آرہی ہیں ، بلکہ پختگیٔ عمر کے ساتھ ان کے ارادوں میں زیادہ استحکام اور ان کے منصوبوں میں زیادہ وسعت پیدا ہوتی ہے ۔ ادبی سیاست سے حاصل ہونے والی عارضی منفعتوں سے بے نیازی کو اگر اپنا وطیرہ بنالیا جائے تب ہی کوئی اتنا بڑا کارنامہ انجام دے سکتا ہے ۔ جو چار جلدوں پر مشتمل تاریخ ادب اردو کی شکل میں میرے سامنے ہے ۔ پاکستان میں جمیل جالبی کی لائبریری اور ان کے عملے کو دیکھ کر مجھے رشک آتا تھا ۔ ان کے وسائل کا دائرہ کافی وسیع تھا اور ہے ۔ باوجود اس کے جالبی جیسے محنت پسند اور بڑے اور بلند کوش منصوبوں کو بالاآخر پایہ تکمیل تک پہنچانے والے لوگ اب کہاں پیدا ہوں گے ۔ سیدہ جعفر کو نہ تو اتنے وسائل میسر آئے ہیں او رایک مشرقی خاتون ہونے کے ناطے نہ ہی مختلف لائبرریوں کی وہ خاک چھان سکتی تھیں ، پھر بھی انہوں نے اپنی محدود بساط میں جو کام کردکھایا ہے ، اس کی جس قدر تحسین کی جائے کم ہے۔
سیدہ جعفر کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ ان کی تنقید ہمیشہ تحقیق کی معیت میں اپنا سفر طے کرتی ہے ۔ دکنی ادب پر انھوں نے جتنا جو کچھ لکھا ہے ، اس کی قدر و وقعت ان کی تحقیقی کد و کاوش کے باعث ہی دوبالا ہوئی ہے ۔ تاریخ ادب اردو (ترقی پسند تحریک تک) سے قبل ’’تاریخ ادب اردو 1700 ء تک‘‘ وہ گیان چند جین کے ساتھ پہلے ہی لکھ چکی ہیں ۔ اگرچہ دونوں تاریخ ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں تاہم موجودہ کام صرف اور صرف انھیں کی محنت ، انھیں کی دانش اور انھیں کی کوششوں کا نتیجہ ہے ، اس لئے اس کی اپنی جگہ ایک خاص اہمیت اور منزلت ہے ۔
پہلی جلد کے مشمولات میں شمالی ہند میں اردو شاعری کی ابتدا اور نشو ونما (محرکات اور رجحانات) عہد میر (دور میر کے ادبی خد و خال) اٹھارویں صدی میں اردو نثر (ارتقائی منزلیں … اسالیب بیان) لکھنؤ میں اردو ادب کا فروغ (تہذیبی پس منظر اور ادبی افکار) ، ڈرامہ اور مرثیہ (مرثیے کا تہذیبی پس منظر) کو بنیاد بنایا گیا ہے ۔ اسی طور پر دوسری جلد اردو نثر کی ترقی (سیاسی اور تہذیبی پس منظر) دہلی میں اردو شاعری کا زمانہ عروج اور نثری کاوشیں (دہلی کا ادبی و تہذیبی ماحول) نثری کاوشیں (دہلی کی علمی و ادبی خدمات) سرسید اور ان کے معاصر نثر نگار (سیاسی اور علمی پس منظر) ، اودھ پنچ ، افکار و اسالیب کا تفاوت (تہذیبی اور ادبی تناظر) دور جدید کے تخلیق کار ، جدید شاعری ، نئی جہات ، جیسے عنوانات پر مشتمل ہے ۔ تیسری جلد کے جلی عنوانات ہیں ، اردو ڈرامے کا سفر ، مضمون نگاری، صحافتی خدمات اور دوسرے نثری اکتسابات ، اردو میں تحقیق ، تنقید ، طنز و مزاح ، ناول اور افسانے ۔ اسی طرح چوتھی جلد میں ناول اور افسانے میں گذشتہ جلد کے سلسلے کے تحت احمد ندیم قاسمی سے قرۃ العین حیدر تک کے فکشن کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ 19 ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی میں اردو شاعری ، ترقی پسند شعراء اور ان کے معاصرین کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔
جس کتاب کا اتنا بڑا خاکہ ہو ، اس سے عہدہ برآ ہونا اور وہ بھی کامیابی کے ساتھ عہدہ بر آ ہونا اتنا آسان نہ تھا ۔ تاریخ ادب پر کام کرنے والی کی سب سے بڑی دقت یہ ہوتی ہے کہ تبویب بندی وہ کس طرح یا کن بنیادوں پر کرے ، اس کے سامنے چار صورتیں ہوتی ہیں ۔ یا تو زمانے کو سامنے رکھ کر عنوانات قائم کرلئے جائیں یا کسی اہم تاریخی واردات سے کسی عہد کو منسوب کردیا جائے یا بڑے اور عہد ساز ادیبوں جیسے میر ،غالب اور اقبال وغیرہ کے ناموں پر بعض عہد کے عنوانات کو مختص کردیا جائے یا پھر کسی خاص ادبی حاوی رجحان یا تحریک سے بعض زمانوں کو وابستہ کرکے عنوانات قائم کرلئے جائیں ۔ مغرب میں ادبی تاریخوں کی ترتیب میں کم و بیش انھیں امور پر بنائے ترجیح رکھی گئی ہے ۔ ایک پانچویں صورت اصناف سے متعلق ہے ۔ بعض عہد ، بعض اصناف کے ساتھ وابستہ کئے جاسکتے ہیں ۔ سیدہ جعفر نے جس طور پر اس کا خاکہ بنایا ہے ، وہ ایک مکمل جلد پر مشتمل کتاب کے لئے تو نہایت مناسب تھا لیکن مختلف جلدوں میں ایک تاریخی تسلسل کا ہونا ازبس ضروری ہے تاکہ ادب کا قاری یا طالب علم عہد بہ عہد تاریخ وار جلدوں کو بہ آسانی یادداشت میں محفوظ بھی رکھ سکے اور اسے مطالعے میں بھی کسی طرح کے عدم تسلسل کا احساس بھی نہ ہو مثلاً پہلی جلد کے مشمولات میں شمالی ہند میں اردو شاعری کی ابتداء اور نشو و نما اور عہد میر کی شاعری کو موضوع بنایا گیا ہے جو افضل اور جعفر زٹلی سے نظیر اکبرآبادی تک کے شعراء کو محیط ہے ۔ اس کے فوری بعد اٹھارویں صدی میں اردو نثر پر بحث ہے ۔ جس کے بعد پھر لکھنؤ میں اردو ادب کا فروغ کے تحت انشاء سے محسن کاکوروی تک شعراء کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد ڈرامہ اور پھر مرثیہ جیسی شعری صنف پر تفصیل کے ساتھ بحث کی گئی ہے ۔ گویا اٹھارویں اور انیسویں صدی کو پورے طور پر پہلی جلد کے ساتھ خصوصیت نہیں دی گئی ہے ۔ یہ دونوں صدیاں پہلی اور دوسری جلدوں میں مشترک ہیں ۔ محض بعض بیسویں صدی کے اہم شعراء جیسے چکبست اور اقبال وغیرہ اسی دوسری جلد میں دور جدید کے تخلیق کار کے تحت شامل کرلئے گئے ہیں ۔ میری ناقص رائے یہ ہے کہ پہلی اور دوسری جلد کو ملا کر ایک جلد بنالی جاتی اور تیسری اور چوتھی کو ملا کر دوسری جلد میں بقیہ کو شامل کرلیا جاتا تو زیادہ مناسب تھا ۔ باوجود اس کے تاریخ پر کام کرنے والے کو جس طرح کی عملی دشواریوں سے سابقہ پڑتا ہے سیدہ جعفر اس سے بری نہیں ہیں ۔
سیدہ جعفر کے لئے سب سے مشکل کام بیسویں صدی کے ادیبوں کے سوانح اور ان کے تمام تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی کاموں کی تفصیلات کی فراہمی تھا ۔ کیوں کہ اٹھارویں اور انیسویں صدی اور اس سے قبل کے اردو ادب اور مختلف ادیبوں اور ان کے کارناموں پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے ۔ خود سیدہ جعفر کے لئے تاریخ کے یہ دورانیے معمول کا حکم رکھتے ہیں ۔ بیسویں صدی کے ادیبوں پر انھوں نے اپنی بہترین تنقیدی صلاحیت کا ثبوت فراہم کیا ہے ۔ مناسب موقعوں پر تقابل کو بھی راہ دی ہے ۔ جہاں کہیں استدلال کو توثیق کی ضرورت تھی حوالے بھی مہیا کئے ہیں ۔ جہاں کہیں ناگزیر تھا ،تصورات پر بھی بحث کی ہے ۔ مختلف نقادوں کی رایوں کے جھرمٹ میں ان کی اپنی رائیں بڑی قیمتی ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ سیدہ جعفر کی یہ تاریخ ، محض تاریخ نہ ہو کر تنقیدی تاریخ کہلانے کی مستحق ہے ۔