سیاسی کامیابی کے نئے حربے

تم مکرتے ہو مکرتے ہی رہو
ہم نہ بھولے جو لگی تھی کل شرط
سیاسی کامیابی کے نئے حربے
وزیراعظم نریندر مودی ان دنوں اپنے انتخابی وعدوں سے زیادہ سیاسی حریفوں کو شکست دینے کے حربوں پر توجہ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہار اسمبلی انتخابات کی تیاری کے لئے انہوں نے ریاست کے دو لیڈروں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے اتحاد کو ’’موقع پرستانہ‘‘ قرار دے کر بہار کے عوام کوخوفزدہ کرنے کی کوشش کی کہ نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے اتحاد کو ووٹ دیا گیا تو بہار میں جنگل راج دوم شروع ہوجائے گا۔ بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے نے بہار میں دوسری ریالی منعقد کرتے ہوئے عوامی مسائل پر پارٹی منصوبوں کو پیش کرنے کے بجائے سیاسی حریفوں کو نیچا دکھانے میں توانائی صرف کرنا شروع کیا ہے۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے مرکز کی مودی حکومت کو ’’ٹوئٹر حکومت‘‘ قرار دیا کیونکہ مودی صرف ٹوئیٹر پر پیامات لوڈ کرنے کی حد تک مصروف ہیں۔ بہار میں جنگل راج کے بارے میں عوام کو خوفزدہ کرنے والے مودی کیلئے لالو پرساد یادو کا یہ ریمارک کافی ہے کہ مودی کو منڈل راج دوم سے خوفزدہ ہونے والا وزیراعظم قرار دیا۔ بہار کی سیاست دراصل لفاظی اور نعرہ بازی کی سیاست ہوتی ہے۔ اس میں مقامی سطح کی سیاسی طاقتیں اہم رول ادا کرتی ہیں۔ بہار کے عوام کو ان کے بنیادی مسائل کی یکسوئی میں دلچسپی رکھنے والی پارٹیوں سے ہمدردی ہونی چاہئے۔ مرکز میں بی جے پی حکومت کو ووٹ دے کر مودی کو وزارت عظمیٰ کی ذمہ داری دینے والوں میں اگرچیکہ بہار کے رائے دہندے بھی شامل ہیں مگر اسمبلی انتخابات میں ان رائے دہندوں کو اس مرتبہ دوبارہ غلطی کرتے نہیں دیکھا جاسکے تو یہ ان کے ہی مسائل کی یکسوئی کی جانب کامیاب کوشش ہوگی۔ بہار میں عوام کے جو مسائل ہیں ان پر توجہ دینے کے بجائے اور ریاست کے وسائل کو استعمال کرنے کی جانب قدم اٹھانے کے بجائے احمقانہ منصوبے بنائے جائیں تو اس سے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہوگا۔ ملک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیاں اور آنے والے اسمبلی انتخابات ان دنوں منصفانہ تبصرے کے لائق ہیں تو پہلی پیشرفت بہار اسمبلی انتخابات کی ہے۔ یہ انتخابات مودی حکومت کی سوا سال کی حکومت کیلئے کڑی آزمائش ثابت ہوں گے۔ قومی حکومت اور اس کی پالیسیوں میں آر ایس ایس کی مداخلت کے الزامات کا اثر بہت جلد دیکھا جائے گا۔ بنیادی طور پر مرکز کی حکومت کو ریاستی امور میں ہمدردانہ تعاون کی ضرورت ہوتی ہے لیکن مودی حکومت نے اب تک صرف بی جے پی حکمرانی والی ریاستوں کے ساتھ ہمدردی کا زیادہ مظاہرہ کیا ہے۔ مودی حکومت کی بڑھتی بے حسی، کرپشن، بدانتظامی اور سیاسی بے سمتی نے ہندوستان کو اندھیروں کی جانب لے جانے کا کام شروع کیا ہے تو عوام کو بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس لئے لالو پرساد یادو نے مودی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے انہیں ایک نیا لطیفہ سے تعبیر کیا ہے۔ مرکز میں اب تک ترقیاتی کاموں میں مودی حکومت کی کارکردگی کسی لطیفہ سے کم نہیں ہے۔ عوام کا موڈ آئندہ عام انتخابات تک تیزی سے بدل جائے تو یہ تبدیلی بی جے پی کے لئے بھاری پڑ سکتی ہے۔ اگر مودی حکومت دیانتداری سے کام لینے اور سچ بولنے کی خوبیاں پیدا کرتی ہے تو سب لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ ملک کی ترقی کیلئے حکومت نے صحیح کام کرنا شروع کیا ہے مگر ایک سال 3 ماہ گذرنے کے بعد بھی بی جے پی اپنے انتخابی وعدوں کی جانب توجہ نہیں دے سکی ہے اور کالے دھن کی واپسی، رشوت کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا تو پھر حالات قومی سیاست کے ’’ضابطہ اخلاق‘‘ کے لئے سوالیہ نشان بن جائیں گے۔ وزیراعظم مودی کو ٹوئیٹر پر اپنے حریفوں کے خلاف لفظی جنگ میں مصروف دیکھا جارہا ہے تو لالو پرساد ان سے یہی سوال کریں گے کہ آخر انہوں نے اپنی حکومت کے سوا سال کے دوران کیا کارنامے انجام دیئے۔ بہار میں اسمبلی انتخابات اس سال کے اواخر میں ہوں گے لیکن یہاں جنتادل یو اور آر جے ڈی کے اتحاد نے بی جے پی کو تشویشناک صورتحال سے دوچار کردیا ہے۔ رائے دہندوں کواپنی ذہنی قوت کا ثبوت دیتے ہوئے ایک اچھی حکومت کو منتخب کرنے کی تیاری کرنی ہوگی۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ لالو پرساد یادو اور نتیش کمار کی متحدہ قیادت نے بہار میں ترقی کی راہ داری کو کشادہ کرنے میں مدد کی ہے مگر اس اتحاد کو دیرپا برقرار رکھا جاسکے گا یہ کہنا مشکل ہے۔