غضنفر علی خاں
آج ہندوستان میں انتخابی مہم نے سیاسی پارٹیوں میں ایک دوسرے کے خلاف گالی گلوج اور شخصی حملوں کا رجحان اتنا بڑھ گیا ہے کہ سن کر اور ٹی وی پر دیکھ کر کسی بھی مہذب ہندوستانی شہری کو اپنے ہندوستانی ہونے پر شرمندگی ہورہی ہے۔ سیاسی حمام میں اس وقت کسی اور چیز کی مقابلہ آرائی نہیں ہورہی ہے۔ مسائل اپنی جگہ دن بدن سنگین ہورہے ہیں۔ حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں۔ معیشت دگرگوں ہوگئی ہے۔ غرض ہر طرح کے مسائل ہیں۔ کسان ہر روز قرض کے بوجھ سے تنگ آکر مختلف ریاستوں میں خودکشی کررہے ہیں۔ ماں باپ کو اپنے بچوں کی فکر لاحق ہوگئی کہ ان کے خیال میں اسکول، مدرسہ، تعلیمی ادارے، بازار، گلی کوچے کچھ بھی محفوظ مقامات نہیں رہے۔ سیاستداں اور بڑی بڑی پارٹیوں کے لیڈر ان کے ان گمبھیر مسائل پر توجہ تک نہیں کرتے۔ انھیں قدرت کے بھروسہ پر چھوڑے ہوئے یہ موجودہ دور کے سیاسی لیڈر اور ان کے کارکن اس دہکتے سلگتے ہوئے ماحول میں صرف اپنی روٹیاں سینکنے میں مصروف ہیں۔ اگر سیاسی پارٹیاں اور لیڈر اپنے اپنے حقیر انتخابی مفاد کے حصول کے لئے مصروف ہیں تو بھی کوئی بات نہ ہوگی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اب ان کی (لیڈروں اور پارٹیوں کی) عقل اتنی ماند پڑگئی ہے کہ ان میں سے بعض کو تو یہ اندازہ تک نہیں کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنے خاص مقام کو کھوتا چلا جارہا ہے۔ جمہوریت اور ملک کو کمزور اور رسوا کرنے میں دیش کو چلانے والے یا اس کا دعویٰ کرنے والے بُری طرح ملوث ہیں۔ آج کے ماحول میں کسی منتخب لیڈر کو کمینہ، نیچ، اَن پڑھ جاہل گنوار کھلے عام قرار دینے کے بعد انتخابی مہم کا ایک مؤثر اور مفید حربہ سمجھا جارہا ہے۔ انتخابی مہم میں اس تباہ کن رجحان کو رواج دینے میں وزیراعظم مودی کا بڑا بلکہ سارا دخل ہے۔ انھوں نے بیرونی ممالک کے دوروں میں صاف طور پر اچھے ہندوستان بنانے کا تاج اپنے ہاتھوں اپنے سر رکھ دیا۔ کانگریس کی سابقہ حکومتوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے طرح طرح کے تبصرے کرتے کرتے مودی کی زبان نہیں تھکتی۔ ہر دورہ میں سابقہ حکومتوں پر وہ مختلف قسم کے الزامات دھرتے رہے۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق کانگریس نے بھی شائستگی کا دامن چھوڑ دیا۔ اب ملک کی دو بڑی پارٹیوں نے ڈسپلن کو کیا ترک کیاکہ ہر پارٹی اس راستے کو اپنے لئے مفید سمجھ کر اختیار کیا۔ وزیراعظم مودی کی ایک اور غلطی یہ بھی رہی کہ انھوں نے کبھی کسی ایسے ناخوشگوار تبصرہ کو غلط قرار نہیں دیا ان کی خاموشی آج انھیں کے لئے سیاسی عذاب بن گئی ہے۔ 72 سالہ آزاد ہندوستان میں کبھی کسی وزیراعظم کو اتنی گالیاں نہیں سننی پڑیں۔ اتنے غیر مہذب خطابات سے یاد نہیں کیا ہوگا جتنا کہ مودی کو نصیب ہوا ہے۔ اپوزیشن پہلے بھی تھی اور آج بھی ہے اور اپوزیشن کا کام ہی برسر اقتدار پارٹیوں اور اس کی حکومت پر لعن طعن کرنا ہے۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا ہے۔ بی جے پی اور اس کی حکومت کے تمام کل پُرزوں کو یہ سوچنا چاہئے کہ آخر انھیں اتنی فراخدلی سے کیوں چور، چوکیدار، اَن پڑھ گنوار جیسے الفاظ سے یاد کیا جارہا ہے۔ کسی بھی دور میں وزیراعظم کو ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہوں گی جتنی کہ مودی جی کو دی جارہی ہیں۔ کانگریس کے ایک لیڈر جن کا تعلق کیرالا جیسی خواندہ ریاست سے سے ہے اور وہ سابق ایک مرکزی وزیر تھرور نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’مودی شیو کی مورتی پر بیٹھے ہوئے ایک ایسے بچھو (Scorpion) ہیں جسے نہ اُڑایا جاسکتا ہے اور نہ چھیڑا جاسکتا ہے۔ یہ تبصرہ یقینا بعیداز اخلاق اور غیر پارلیمانی ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے بی جے پی کے ایک لیڈر اور سرکاری ترجمان نے کہاکہ ’’صدر کانگریس لال ڈوری (ہندو ہونے کے ثبوت کے طور پر) ہندوستان بھر کا دعویٰ کررہے ہیں جبکہ وہ اصولاً ہندو نہیں ہیں‘‘۔ دونوں باتیں ایسی ہیں کہ ہم شرمسار ہوکر رہ جاتے ہیں۔ نئی نسل کو کچھ اچھی وراثت دینے کے بجائے یہ گالی گلوج یہ ناوک و دشنام سکھائے جارہے ہیں اور یہی سیاستداں سرمایہ ہے تو بھلا نئی نسل کو کیا خاک اچھی باتیں بتائی جاسکتی ہیں۔ پہلے ایک دوسرے کا احترام ملحوظ رکھا جانا تھا۔ ان کے جذبات اور احساسات کو ملحوظ رکھا جانا تھا۔
ہماری عصری تاریخ Contemporary History میں ایسے کئی واقعات اور مثالیں مل سکتی ہیں کہ کس طرح اپوزیشن کا احترام کیا جاتا تھا۔ ایک بار پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا مرحلہ آیا (ماضی میں) اور تاریخ مقرر ہوگئی لیکن جب کانگریس کے سینئر لیڈروں کو پتہ چلا کہ بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی کے گھر اسی دن ان کی بیٹی کی منگنی یا شادی ہونے والی ہے تو کانگریس پارٹی نے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کے اپنے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے اس کام کے لئے ایک دن بعد کی تاریخ مقرر کی۔ سیاسی لیڈر کسی وقت (ماضی قریب کی بات) نوجوان نسل کے لئے آئیڈیل ہوا کرتے تھے ۔ ان کی سیاسی فکر اور نقطہ نظر کو تسلیم کیا کرتے تھے۔ آج کی بات اور ہے نہ تو آئیڈیل لیڈر باقی رہے اور نہ آئندہ نسلوں کی ذہنی تربیت کی کسی کو فکر ہے۔ آج کے دور میں لیڈروں کے لئے معدودے چند ایک کہ نئی نسل اور موجودہ نسل میں یہ تصور عام ہوگیا ہیکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں دولت بٹورنے کے علاوہ کسی کام سے قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نوجوان نسل کے اس خیال کو ہم غلط نہیں کہہ سکتے۔ وہ نسل جو تیزی سے ختم ہورہی ہے اس کا بھی ایک خاص مقام ہے۔ وہ سینئر سٹیزن ہیں جنھیں ماضی میں ایسے لیڈر ملتے تھے جو حلال و حرام میں فرق محسوس کیا کرتے تھے اور ہر ممنوعہ چیز سے گریز کیا کرتے تھے۔ رشوت ستانی اتنی عام نہیں تھی جتنی کہ اب ہے۔ اقدار مٹتے جارہے ہیں۔ اب کرپشن کو ایک فائن آرٹ بنادیا گیا ہے اور جائز و ناجائز کو حرف غلط کی طرح مٹادیا گیا۔ موجودہ لیڈروں میں یہ بات مضبوطی سے بیٹھ گئی ہے کہ انتخابات ایک بزنس اور ایک موقع ہے جس کے استعمال میں کوئی ہرج نہیں۔ جس قوم میں یہ منفی اور مضرت رساں رجحان پروان چڑھ گیا ہو اس سے کوئی توقع کیسے کی جاسکتی ہے، دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اندر ہی اندر اتنی کھوکھلی اور کمزور ہوگئی ہے اور کبھی بھی اس کا عالیشان محل کسی بھی وقت خدا نہ کرے دھڑام سے گرپڑے۔