تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
اسمبلی انتخابات نے سیاسی قائدین کو بے حد مصروف کردیا ہے ۔ صدر کانگریس راہول گاندھی کی انتخابی مہم اور حیدرآباد میں ان کا روڈ شو ظاہر کرتا ہے کہ عوام نے کانگریس قائد کو اہمیت دینی شروع کی ہے ۔ اپوزیشن بمقابلہ حکمراں پارٹی یہ انتخابات ایک خاص نوعیت کی لڑائی ہے جس میں کل کی دو کٹر آپسی سیاسی دشمن پارٹیاں آج اتحاد کرچکی ہیں ۔ کانگریس کا تلگو دیشم سے اتحاد حکمران پارٹی تلنگانہ راشٹریہ سمیتی کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ کو بے چین کر رکھا ہے ۔ اب انہیں اپوزیشن کے اس اتحاد اور اس کے قائدین سے بلا وجہ عناد ہے خاص کر صدر تلگو دیشم چندرا بابو نائیڈو سے انہیں عناد ہوا ہے ۔ اس کا اظہار بھی وہ کرتے آرہے ہیں ۔ مگر اس طرح کی سیاسی مخالفت کا اظہار بھی سلیقہ مانگتا ہے ۔ ان حکمرانوں کے ہاتھوں میں استرے آئے ہوئے ہیں جس کا استعمال اتنی بے احتیاطی سے کرنے لگے ہیں کہ وہ اپنے ہی کسی ضروری عضو جسمانی کو لہو لہان کررہے ہیں یعنی اپوزیشن قائدین کو نشانہ بنانے کی شدت میں وہ اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ وہ اپنی ہی پارٹی کے ناراض قائدین کی استرے بازی سے انجان ہیں ۔ کے سی آر نے چندرا بابو نائیڈو پر بیجا تنقیدیں شروع کی ہیں ۔ خاص کر ٹی آر ایس منشور کی اجرائی کے فوری بعد انہوں نے اپنے منشور کے بارے میں عوام کو واقف کروانے سے زیادہ پڑوسی ریاست کے چیف منسٹر کی خرابیوں کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نائیڈو ایک مانیٹر چھپکلی ہیں ۔ آندھرا کی دیوار سے چپک کر تلنگانہ میں جھانک رہے ہیں ۔ ان پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ تلنگانہ کے عوام اور آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے شہریوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ کے سی آر نے انتخابات کے پیش نظر تلنگانہ میں مقیم آندھرائی باشندوں کو اپنا بھائی قرار دیا اور کہا کہ یہ لوگ اب تلنگانہ کے شہری ہیں لہذا ان کا تعلق بھی تلنگانہ سے ہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے آندھرائی بھائیوں اور دوستوں سے ایک چیز کہنا چاہتا ہوں کہ وہ خود کو آندھرائی نہیں بلکہ تلنگانائی قرار دیں ۔ آپ خود کو آندھرا کا باشندہ تصور نہ کریں اب آپ لوگ تلنگانہ میں رچ بس گئے ہیں تو تلنگانہ کے ہی شہری بن کر رہیں ۔ میری چار سال کی حکمرانی کے دوران آپ لوگوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہونچائی گئی ہم لوگ بھائیوں کی طرح رہ رہے ہیں ۔ چندرا بابو نائیڈو یہاں آنے سے پہلے ہی سے آندھرائی عوام رہتے آرہے ہیں لیکن تلگو دیشم قائدین اور نائیڈو نے یہ خوف پھیلا رکھا تھا کہ اگر ٹی آر ایس اقتدار پر آجائے تو انہیں تلنگانہ سے نکال دیا جائے گا ۔ نگرانکار چیف منسٹر نے سوال کیا کہ کیا میں نے ایسا کیا ہے ؟ یہ نائیڈو ہی ہیں جو تلنگانہ میں مقیم آندھرائی باشندوں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں ۔ نائیڈو اپنی ریاست آندھرا میں انتخابی وعدے پورے کرنے میں ناکام ہیں اور چندرا بابو نائیڈو کو آندھرا کے عوام کے لیے منحوس سمجھا جاتا ہے ۔ آخر یہ منحوس تلنگانہ کو کیوں آرہا ہے ؟ کے سی آر کے اندر کافی اعتماد دکھائی دے رہا تھا اس لیے انہوں نے پر عزم طور پر کہا کہ وہ دوبارہ منتخب ہو کر آئیں گے اور اپوزیشن کا صفایا کردیں گے ۔ دھمکی آمیز لہجہ میں کہا کہ انہوں نے اپنی حکومت کی پہلی میعاد میں اپوزیشن کانگریس اور تلگو دیشم قائدین کی بدعنوانیوں کی جانب توجہ نہیں دی اب دوسری میعاد میں کانگریس اور تلگو دیشم قائدین کو دبوچ کر ان کی بدعنوانیوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور انہیں نانی یاد آجائے گی ۔ تلنگانہ میں سیاسی اتحاد کرنے والی کانگریس اور تلگو دیشم پارٹیاں خوش فہمی میں مبتلا ہو کر 70 تا 80 نشستوں پر کامیاب ہونے کا خواب دیکھ رہی ہیں جب کہ ٹی آر ایس نے 100 کے نشانہ کو چھولینے کا عزم کیا ہے اور اس پر کامیاب ہو کر دکھائے گی ۔ کے سی آر بظاہر اپنی پارٹی کی سیاسی قوت پر مطمئن نظر آرہے ہیں ۔ مگر اندر ہی اندر انہیں تلگو دیشم ، کانگریس اتحاد کا خوف بھی کھائے جارہا ہے ۔ اس خوف کا اثر ہے شائد کہ ٹی آر ایس کے منشور پر اس خوف کے سائیڈ ایفکٹ واضح دکھائی دے رہے ہیں ۔ کسی سیاسی پارٹی کا منشور عوام کو یہ بتاتا ہے کہ اس نے عوام کی بہتری کے لیے کن پالیسیوں اور اقدامات کو ضروری سمجھا ہے ۔ اصولی طور پر رائے دہندگان کو سیاسی پارٹیوں کے منشور دیکھ کر ووٹ کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ کانگریس نے الزام عائد کیا کہ ٹی آر ایس نے اپنے منشور میں وہی پالیسیاں شامل کی ہیں جو کہ اس نے اپنے منشور کے لیے تیار کی تھیں ۔ صدر پردیش کانگریس اتم کمار ریڈی نے الزام عائد کیا کہ کے سی آر نے کانگریس کے منشور کا سرقہ کرلیا ہے ۔ اب اس دعویٰ کی تصدیق تو رائے دہندے ہی کریں گے ۔ اگر گذشتہ انتخابات کی طرح اس انتخاب میں بھی اہم سیاسی پارٹیوں کے منشور مبہم ، غیر واضح وعدوں اور نعروں کی حکایت ثابت ہوں تو پھر ساری مشن بیکار جائے گی ۔ ٹی آر ایس سربراہ نے اگر اپنا منشور اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنے کی نیت سے تیار کیا ہے تو عوام انہیں نا اہل بھی قرار دے سکتے ہیں ۔ ٹی آر ایس کا یہ منشور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں خاموش ہے ۔ اس گونگے منشور کے ساتھ مسلمانوں کو راغب نہیں کیا گیا ۔ مسلمانوں کو مبینہ بے وقوف بنایا گیا لہذا اب کی بار مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔ ان انتخابات میں متحد ہونے والی دو اپوزیشن پارٹیاں کانگریس اور تلگو دیشم کل تک ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے تھے ۔ آج ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے ہیں ۔ یہ سب سیاسی تبدیلیوں کا مظہر ہے ۔ تلنگانہ میں یہ سیاسی اتحاد ہندوستانی سیاست میں آنے والی تبدیلی کا آئینہ بن جائے گا ۔ چند پارٹیوں نے کانگریس کو روکنے کی کوشش کی کہ وہ تلگو دیشم سے اتحاد نہ کرے کیوں کہ جب تلگو دیشم کا جنم ہوا تھا اس کے بانی این ٹی راما راؤ نے 1982 میں کانگریس کے زوال کی بنیاد ڈالی تھی ۔ تلگو دیشم کا واحد ایجنڈہ کانگریس کو تلگو ریاست سے بے دخل کرنا تھا کیوں کہ تلگو دیشم کے بانی این ٹی آر نے اس نعرے سے میدان سیاست میں قدم رکھاتھا کہ تلگو عوام کی عزت نفس کو کانگریس نے شدید ٹھیس پہونچائی ہے اب تلگو دیشم ہی تلگو عوام کی عزت نفیس کا احترام کرے گی ۔ تلگو دیشم ہی واحد پارٹی تھی جس نے 1984 میں کانگریس کا صفایا کردیا تھا ۔ عام انتخابات میں غیر منقسم آندھرا پردیش میں 42 لوک سبھا حلقوں کے منجملہ 30 پر تلگو دیشم کامیاب ہو کر مرکز میں دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر آئی تھی ۔ تلگو دیشم اور کانگریس میں انتخابی معاملہ صرف ایک سیاسی کہانی سے کم نہیں ہے ۔ لیکن اس دشمنی تو رائلسیما علاقہ میں دیکھی گئی تھی جہاں کانگریس اور تلگو دیشم کے قائدین ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ۔ اس خطہ میں دونوں پارٹیوں کی دشمنی نے کئی افراد کی جانیں لی تھیں ۔ 2017 تک 35 سال کے دوران کانگریس اور تلگو دیشم کے سینکڑوں کارکن ہلاک ہوئے تھے ۔ کانگریس کے 970 ورکرس اور تلگو دیشم کے 560 ورکرس کو ہلاک کیا جاچکا ہے ۔ کل کے دشمن آج دوست بن کر تلنگانہ میں متحدہ طور پر ٹی آر ایس کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ ریاست آندھرا پردیش کی تقسیم نے دو کٹر حریف پارٹیوں کو دوست بنادیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا دونوں پارٹیاں تلگو عوام کو اطمینان دلا کر ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے یا عوام بے وقوف بن کر ووٹ دیں گے ۔ کانگریس اور تلگو دیشم کے قائدین داخلی طور پر یہ تسلیم کررہے ہیں کہ ان کی دوستی زیادہ دیر قائم نہیں رہے گی ۔ البتہ اس دوستی کا فائدہ تلگو دیشم کو ضرور ہوگا اور وہ تلنگانہ میں اپنے قدم جمانے میں کامیاب ہوگی اور 2019 میں کانگریس کو مرکزی سطح پر کچھ قوت حاصل ہوتی ہے تو تلگو دیشم اس کا بھر پور ساتھ دے گی ۔۔