سیاسی راہ داریوں سے لے کر معاشرہ کی گلیاروں تک شاہ خرچیاں

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے رائے دہندوں یا آندھرا پردیش کے عوام کے ڈیٹا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے ووٹوں کے حصے بخرے کئے جارہے ہیں۔ اس ڈیٹا کے ذریعہ رائے دہندوں کے جسد خاکی سے نئی سیاسی کلوننگ اور من چاہی سیاسی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ان دنوں تلنگانہ اور آندھرا پردیش کی حکومتوں اور حکمرانوں کے لاڈلے بیٹوں کے درمیان ٹوئیٹر جنگ چل رہی ہے ۔ ٹی آر ایس کا الزام ہے کہ تلگو دیشم نے رائے دہندوں کے ڈیٹا کا سرقہ کرلیا ہے ۔ یعنی تلگو دیشم لیڈر اس ڈیٹا کے ذریعہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے لوک سبھا امکانات پر ضرب پہونچا سکتی ہے ۔ اینٹ سے اینٹ بجانے اور سیاسی بلاوڑ (بلّے ) کے دودھ پینے والے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔ تلگو دیشم کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ اس نے نوٹ برائے ووٹ اسکام کے بعد نوٹ برائے ٹوئیٹ کے ذریعہ ٹوئیٹر پر تلگو دیشم کے حق میں رائے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے بے دریغ روپیہ خرچ کرنا شروع کیا ہے ۔ سوشیل میڈیا کا استعمال کرنے کے لیے سیاسی پارٹیاں ’شاہ خرچی ‘ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جارہی ہیں ۔ ٹوئیٹر پر تلگو دیشم کی تعریف و ستائش والے پوسٹس کی بھر مار ہے جن کا گہرائی سے جائزہ لیا گیا تو پتہ چلا ہے کہ ’ ہیاش ٹیاگ ‘ کو ایسے لوگوں نے ٹوئیٹ کیا ہے جن کا آندھرا پردیش سے کوئی تعلق نہیں ہے یعنی بیرون ریاست ٹوئیٹر استعمال کنندگان کو یا تو کرایہ پر حاصل کیا گیا ہے یا انہیں رقم کے عوض ٹوئیٹ کرنے کے لیے روزگار فراہم کیا گیا ہے ۔ جن لوگوں نے تلگو ریاستوں کے حکمرانوں کے درمیان ٹوئیٹر جنگ چھیڑ دی ہے ۔ ان کا تعلق ان ریاستوں سے نہیں بلکہ یہ لوگ اترپردیش ، مہاراشٹرا ، راجستھان اور شمالی ہند کی مختلف ریاستوں سے ہے ۔ حیرت کی بات تو یہ بتائی گئی ہے کہ غیر تلگو داں یہ ٹوئیٹر جنونیوں نے تلگو اخبارات کے فرضی تراشے سمجھنے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر تلگو میں تبصرہ کرنے کے بجائے انگریزی اور ہندی میں ٹوئیٹ کررہے ہیں ۔ چندرا بابو نائیڈو کی تائید کرتے ہوئے چند گھنٹوں کے اندر ہی یکساں پیامات کو دھڑادھڑ پوسٹ بھی کررہے ہیں ۔ اسی طرح قومی سطح پر 2014 میں بی جے پی نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ رائے عامہ متحرک کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی ۔ اسی طرز پر دو تلگو ریاستوں کی حکمراں پارٹیوں کے قائدین بھی ایک دوسرے کے خلاف سوشیل میڈیا کا استعمال کررہی ہیں ۔ عوام کے ٹیکس کے ذریعہ حاصل کردہ ریاستی خزانے کی دولت کو حکمرانوں نے اپنی تشہیر کے لیے شاہ خرچیوں کا باپ کھول دیا ہے ۔ کیا عوام اتنے احمق ہوگئے ہیں کہ انہیں اپنے مکار لیڈروں کی چالوں کا اندازہ نہیں ہورہا ہے ۔ اس تیز رفتار دنیا اور سوشیل میڈیا کے باوجود اگر رائے دہندے خود کو نا سمجھ ثابت کریں گے تو یہ بڑا المیہ ہوگا ۔ اگر سیاستداں ہی سوچ کر کے عوام کو سوشیل میڈیا کے ذریعہ بے وقوف بنایا جاسکتا ہے تو عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سیاستدانوں کو سبق سکھائیں اور یہ بتادیں کہ وہ اتنے بھی نا سمجھ نہیں ہیں کہ ٹوئیٹر ، فیس بک ، واٹس ایپ پیامات کے بہکاوے میں آئیں گے ۔ سیاستدانوں کی حصول ووٹ کے لیے شاہ خرچیاں کیا رنگ لائیں گی یہ تو انتخابات کے بعد ہی معلوم ہوگا لیکن شہریوں کی شاہ خرچیاں بھی افسوسناک حد تک بڑھ رہی ہیں ۔ اپنی محنت کی کمائی کو جمع کرنے والے شہریوں کے سامنے جب ان کے ساتھی شہری اندھا دھند طریقہ سے شاہ خرچیوں میں ملوث ہوتے ہیں تو یہ ایک سماجی سانحہ سے کم نہیں ۔ حال ہی میں کریڈٹ کارڈ فراہم کرنے والی امریکی کمپنی ’ امریکن ایکسپریس ‘ نے انکشاف کیا تھا کہ شہریوں کی شاہ خرچیاں بڑھتی جارہی ہے ۔ شہریوں میں کفایت شعاری اور جمع بندی کا رحجان قطعی نہیں ہے ۔ نتیجہ میں بینکوں میں رقومات جمع نہیں کیے جارہے ہیں اور ہوٹلوں ، ریسٹورنٹس ، تفریحی گاہوں کو ترجیح دے کر خرچ بڑھائے گئے ہیں ۔ کتنے فیصد لوگ اس بات پر اختلاف کریں گے کہ اس زمانے کے لوگوں کی شاہ خرچیاں تباہی کی طرف لے جائیں گی ۔ ہمارے معاشرے کے اندر اب لوگوں کو اتنی فرصت ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اور اپنے اطراف واکناف ہونے والی خرابیوں کا نوٹ لے کر ٹوکیں ، کل تک ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول تھا اب موبائل فون ہے ۔ ہم میں سے کئی ایسے ہیں جو جلد باز بن گئے ہیں عجلت پسندی میں ہر ایک کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔ شارٹ کٹ کے عادی بن کر کیرئیر سے لے کر سڑک کراس کرنے تک ہر موقع پر جلدی کا مظاہرہ کررہے ہیں لیکن کچھ لمحہ رک کر یہ غورنہیں کرسکتے کہ شہریوں کی شاہ خرچی کا مزاج کس طرح بدل دیا جائے ۔ یہ متمول لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ قدرت نے انہیں دولت دے کر غریبوں کی سرپرستی کی ذمہ داری بھی دی ہے لیکن افسوس ہمارے معاشرہ میں اکثر متمول لوگ اس امتحان میں بری طرح ناکام ہورہے ہیں ۔ اس موضوع پر سوچنے کی زحمت کی جائے تو شاہ خرچیوں میں مصروف لوگوں کا ہاتھ روکنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ۔ شرط یہ ہے کہ اس معاشرہ کو سدھارنے کی فکر رکھنے والے بندے ہوں اور ایسے بندے معاشیات کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ اس معاشرے کے موڈ ، مزاج اور پریکٹسنر سے بھی واقف ہوں ۔ معاشرے کی بگڑی ہوئی خرابی کو دیکھنے سے گریز کرنے والوں کی تعداد بہت ہی کم ہے اس لیے خرابیاں اچھائی کی دیوار پھلانگ چکی ہیں ۔ یہ نئی نسل اس وقت زبردست تباہ کن دھماکے کے درمیان ہے ۔ یہ حالات مصیبتوں کا پیش خیمہ بھی ہوسکتے ہیں ۔ فضول خرچیاں ، ہوٹلوں کی زینت ، شادی خانوں کی رونق ، پان کی دکانوں کے جلوے ، رات دیر گئے کی بیٹھکیں کرنے والے یہ نوجوان صرف بزرگوں سے ’ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ‘ کی گزارش کر کے اپنے نفس کو دھوکہ میں مبتلا کررہے ہیں ۔۔
kbaig92@gmail.com