سیاسی جماعتوں کی موقع پرستیاں

وقت نے بدل دیا لوگوں کا معیار ذوق
ورنہ ہم بھی وہ لوگ تھے جو اکثر یاد آیا کرتے تھے
سیاسی جماعتوں کی موقع پرستیاں
انتخابات میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی ہر جماعت کے حقیقی رنگ کو بے نقاب کردیتی ہے ۔ اب جبکہ ملک میں عام انتخابات کیلئے وقت قریب آتا جا رہا ہے سیاسی جماعتوں کی تیاریاں نقطہ عروج پر پہونچتی جا رہی ہیں۔ مابقی وقت میں ہر جماعت اپنے لئے سازگار حالات بنانے میں جٹ گئی ہے ۔ ہر جماعت چاہتی ہے کہ انتخابات میں اسے زیادہ سے زیادہ رائے دہندوں کی تائید مل سکے اور زیادہ سے زیادہ نشستوں پر کامیابی حاصل کرتے ہوئے وہ اپنے لئے انتخابات کے بعد سودے بازی کرسکے ۔ہر لمحے بدلتے ہوئے موقف کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی بے چینیوں کا پتہ چلتا ہے ۔ ہر جماعت اپنے موقف میں تبدیلی کیلئے ہر وقت تیار رہتی ہے اور اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں رہتی کہ عوام کے درمیان اس کی امیج کیسی ہوگی اور عوام کس طرح سے اس کی باتوں پر یقین کرینگے ۔ اب جبکہ انتخابات کیلئے ہر گذرنے والا لمحہ تیاریوں کا وقت کم سے کم کرتا جا رہا ہے سیاسی جماعتوں کی ریشہ دوانیوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ اتر پردیش کے بعد ریاست بہار پر سبھی جماعتوں کی نظر ہے جہاں گذشتہ دس سال سے نتیش کمار عوام کی تائید سے حکمرانی میں مصروف ہیں۔ یہاں عوام کو رجھا کر انہیں تائید کیلئے تیار کرنے میں ناکامیوں کے بعد کچھ جماعتیں اتحاد اور گٹھ جوڑ کی سیاست کو ترجیح دے رہی ہیں۔ لوک جن شکتی پارٹی نے کانگریس کے ساتھ سودے بازی میں ناکامی کے بعد اب بی جے پی سے امیدیں وابستہ کرلی ہیں اور لوک جن شکتی پارٹی نریندر مودی کو بھی وزارت عظمی امیدوار کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہے ۔ یہ پارٹی بھی بی جے پی کے اس خیال کی تائید کرنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ نریندر مودی کو گجرات کے مسلم کش فسادات میں عدالتوں کی جانب سے کلین چٹ دیدی گئی ہے ایسے میں انہیں مزید تنقیدوں کا نشانہ بنانہ درست نہیں ہے ۔ یہ بی جے پی کا موقف ہے جس نے مودی کے امیج کو صاف کرنے کیلئے اختیار کیا تھا لیکن سکیولر ازم کا دم بھرنے والی جماعتیں بھی اپنی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے بی جے پی کے اس موقف اور خود نریندر مودی کو قبول کرنے پر مجبور ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

یہ وہی لوک جن شکتی پارٹی ہے جس کے سربراہ رام ولاس پاسوان نے جنتادل میں رہتے ہوئے بی جے پی کو شدت کے ساتھ تنقیدوں کا نشانہ بنایا تھا اور دعوی کیا تھا کہ بی جے پی رام کے نام کا سہارا لے کر ووٹ حاصل کرنے اور سیاسی دکان چمکانے کوشاں ہے۔ انہوں نے بی جے پی کو رام کی بجائے ناتھو رام کی پیرو جماعت قرار دیا تھا لیکن بعد میں وہ اٹل بہاری واجپائی کابینہ میں شمولیت کیلئے اپنے موقف میں نرمی پیدا کرنے پر مجبور ہوگئے تھے ۔ بہار میں جب اسمبلی انتخابات ہوئے اور کسی جماعت کو اکثریت نہیں مل پائی تو انہوں نے مسلمان کو چیف منسٹر بنانے کا نعرہ دیتے ہوئے راشٹریہ جنتادل کے ووٹ بینک کو متاثر کرنے کی کوشش کی تھی جس کی وجہ سے بی جے پی کو فائدہ ہواتھا ۔ گذشتہ برسوں میں بی جے پی سے دوری اختیار کرتے ہوئے اسے تنقیدوں کا نشانہ بنانے والے رام ولاس پاسوان اب سیاسی مجبوریوں کے آگے گھٹنے ٹیکتے نظر آر ہے ہیں اور انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی فکر نہیں ہے بلکہ وہ اپنی جماعت کیلئے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس سے گرین سگنل نہ پانے کے بعد انہوں نے بی جے پی کی زعفرانی جھنڈی کو پکڑنے پر بھی رضا مندی ظاہر کردی ہے ۔ اس سلسلہ میں بی جے پی قائدین بھی ایسا لگتا ہے کہ جنتادل یو کے ساتھ اتحاد کے خاتمہ کے بعد کسی ساتھی کی ضرورت محسوس کرنے لگے ہیں اور انہوں نے رام ولاس پاسوان کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو پوری فراخدلی کے ساتھ تھامنے ہی میں عافیت سمجھی ہے ۔

رام ولاس پاسوان پہلے قائد نہیں ہیں جنہوں نے مودی کو عدالت کی جانب سے کلین چٹ دینے پر قابل قبول قرار دیا ہے ۔ اس سے قبل این سی پی نے بھی مودی کے تئیں اپنے موقف میں نرمی پیدا کی تھی ۔ یہ بالواسطہ فرقہ پرستی ہے اور وہ ایک طرح سے اس طرح کی بیان بازی کے ذریعہ مہاراشٹرا میں کٹر ہندوتوا حامی ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ جب سیاسی جماعتیں اپنے مستقبل کو مستحکم کرنے کیلئے ملک اور قوم کے مستقبل سے بے فکر ہو کر بلکہ لا پرواہ ہوتے ہوئے اس طرح کی موقع پرستیاں اختیار کرنے لگ جائیں تو یقینی طور پر ملک و قوم کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے ۔ سیاسی جماعتیں اور قائدین اپنے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے ملک و قوم کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کیلئے بھی تیار ہیں۔ یہ انتہائی افسوسناک طرز عمل ہے جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کے عوام اور خاص طورپر سکیولر ذہن رکھنے والے رائے دہندوں کو ایسی صورتحال میں انتہائی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔