محمد نعیم وجاہت
نئی ریاست تلنگانہ کے سماجی، سیاسی اور معاشی توازن کے تعین میں عام انتخابات 2014ء کے نتائج کا بڑا دخل رہے گا۔ تلنگانہ ریاست میں مسلمانوں کی پوزیشن بنانے میں سیاسی نمائندگی نہایت ضروری ہے۔ انتخابات سے قبل قومی و علاقائی سطحوں پر ہونے والی تبدیلیوں کے باعث ابتداء ہی میں مسلمان سیاسی پارٹیوں کی خود ساختہ مجبوریوں کا شکار ہوگئے۔ حالانکہ ان انتخابات میں قومی اور علاقائی سطحوں پر اقتدار تک رسائی حاصل کرنے میں مسلمانوں کی تائید و حمایت فیصلہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کو نمائندگی دینے میں تحفظ ذہنی کا شکار ہوگئیں اور انہیں یہ خدشہ لاحق ہونے لگا کہ مسلمانوں کی طرف جھکاؤ کے نتیجے میں اپنی ہی پارٹی میں ناراضگی پیدا ہوگی اور پھر غیر مسلم رائے دہندوں کا رجحان ان پارٹیوں کی جانب بڑھ جائے گا جو فرقہ پرست پارٹیوں کی معاون ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیکولر سیاسی پارٹیوں نے لوک سبھا اور اسمبلی کیلئے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف امتیاز روا رکھا بلکہ مخالفت کا مظاہرہ بھی کیا۔ ساری ریاست تلنگانہ میں کانگریس، تلگودیشم اور ٹی آر ایس کی جانب سے صرف چار، چار مسلمانوں کو ٹکٹ دیا گیا ہے جن میں زیادہ تر امیدواروں کو حیدرآباد سے کھڑا کیا گیا ہے
جن کی کامیابی کے امکانات بالکل کم ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کو پارٹی خطوط پر خطِ اعتماد کے بجائے دانشمندانہ مظاہرہ کرتے ہوئے مسلم امیدواروں کو کامیاب بناتے ہوئے انہیں ایوان کا نمائندہ بنانے کیلئے متحدہ طور پر کوششیں کرنی چاہیئے تاکہ یہ مسلم نمائندے منتخب ہونے کے بعد ایوان میں تلنگانہ ریاست کی تعمیر میں مسلمانوں کو مناسب نمائندگی کیلئے آواز اُٹھا سکیں۔ ہمیں 2009ء کے عام انتخابات کے نتائج کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ تمام سیاسی جماعتوں نے علاقہ تلنگانہ سے مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے لیکن سوائے حیدرآباد میں مجلس کے سارے علاقہ میں ایک بھی مسلم قائد کامیاب نہیں ہوسکا جس پر سنجیدگی سے غور کرنے اور مستقبل کی حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری ذرا سی بھی غفلت 2009ء کی تاریخ دہرا سکتی ہے اور اگر ہم غفلت میں رہیں تو مسلمانوں کے پاس سوائے ہاتھ ملنے کے کچھ باقی نہیں رہ جائے گا۔ مسلم رائے دہندوں کو جذبات سے کام لینے کے بجائے ہوش و حواس سے کام لینے کی ضرورت ہے تاکہ تلنگانہ اضلاع سے مسلم نمائندوں کو اسمبلی ایوان اسمبلی روانہ کیا جاسکے کیونکہ ہر سیاسی جماعت نے مسلمانوں کو اب تک صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا ہے۔ تلگودیشم نیحلقہ اسمبلی نامپلی سے فیروز خاں، نرمل سے یسین بیگ بابر کوچوتھے امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے جبکہ ٹی آرایس نے شکیل کو بودھن سے امیدوار بنایا ہے۔ ان تمام جماعتوں میں ٹی آر ایس واحد جماعت ہے جس نے حلقہ لوک سبھا حیدرآباد اور کھمم سے دو مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا ہے یہ اور بات ہے کہ مذکورہ حلقوں میں ٹی آر ایس کا کوئی اثر ورسوخ نہیں ہے، اس طرح امیدواروں کو میدان میں اُتارناصرف ضابطہ کی تکمیل کے سوا کچھ نہیں۔
کانگریس نے بھی صرف چار مسلمانوں کو ہی ٹکٹ دیا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ تلگودیشم اور ٹی آر ایس نے پرانے شہر سے تین، تین مسلمانوں کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ کانگریس نے پرانے شہرسے ایک مسلم امیدوار کومیدان میں اُتارنے کے علاوہ محمد علی شبیر کو کاماریڈی، بابر سلیم کو راما گنڈم اور عبید اللہ کوتوال کو محبوب نگر سے ٹکٹ دیا ہے۔انتخابات کے موقع پر ہر سیاسی جماعت مسلمانوں کو ہتھیلی میں جنت دکھاتی ہے اور مقابلہ کرنے والے امیدوار بھی مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے معاملہ میں کوئی بھی موقع ضائع نہیں ہونے نہیں دیتے اور پھر نتائج کے بعد کامیابی حاصل کرنے والے امیدوار مسلمانوں کو دستیاب نہیں ہوتے ۔ دوسری طرف شکست سے دوچار ہونے والے امیدوار اپنی ناکامی کیلئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہر اسمبلی حلقہ میں مسلم رائے دہندوں کا تناسب 10 تا 50فیصد ہوتا ہے اس کے باوجود صرف مسلمانوں کو قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔ ماضی کے انتخابات کے بعد بھی مسلمانوں کو تنقیدوں کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ہوسکتا ہے کہ 2014 کے انتخابات کے بعد بھی مسلمان تنقیدوں کا سامنا کریں ۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں تمام سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کے ساتھ حسب روایت ناانصافی کی ہے۔ بی جے پی جو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کی مخالف نہیں ہے اس پارٹی نے ایک بھی مسلم قائد کو ٹکٹ نہ دیتے ہوئے پارٹی کے اقلیتی قائدین کی توہین کی ہے جبکہ اس مرتبہ بی جے پی ماضی کے مقابلہ میں زیادہ حلقوں سے مقابلہ کررہی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ بی جے پی کا تلگودیشم کے ساتھ اتحاد ہوا ہے باوجود اس کے بی جے پی نے ٹکٹوں کی تقسیم میں مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کردیا ہے۔ نئی ریاست تلنگانہ کی پہلی حکومت تشکیل دینے کیلئے ہر سیاسی جماعت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہی ہے۔ کانگریس اور سی پی آئی نے بھی انتخابی مفاہمت کی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ تلنگانہ تحریک کی روح رواں ٹی آر ایس پہلی مرتبہ تنہا مقابلہ کررہی ہے۔
دو مرتبہ اقتدار سے محروم رہنے والی تلگودیشم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ حیدرآباد میں منعقدہ علمائے و مشائخین کے اجلاس میں میناریٹی چارٹر کا اعلان کرنے والے صدر تلگودیشم پارٹی چندرا بابو نائیڈو نے ماضی میں بی جے پی کے ساتھ کئے گئے اتحاد کو تاریخی غلطی قرار دیتے ہوئے نہ صرف افسوس کا اظہار کیا تھا بلکہ فرقہ پرست جماعت بی جے پی سے مستقبل میںکبھی اتحاد نہ کرنے کا مسلمانوں سے وعدہ بھی کیا تھا۔ مگر ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی اقتدار کے لالچ میں چندرا بابو نائیڈو مسلمانوں سے کئے گئے وعدہ سے انحراف کرتے ہوئے بی جے پی سے اتحاد کرلیا اور مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کیلئے مساعی کا آغاز کردیا۔ تلگودیشم پارٹی کے غیور مسلم قائدین اس بات کو کیسے گوارا کرسکتے ہیں۔ تلگودیشم پارٹی کے بی جے پی کے ساتھ اتحاد پر سب سے پہلے جناب زاہد علی خاں نے بطور احتجاج تلگودیشم پارٹی اور پولیٹ بیورو رکنیت سے استعفی دے دیا جس کے بعد تلگودیشم کے دیگر مسلم قائدین بھی مستعفی ہوگئے۔ بی جے پی نے اپنے انتخابی منشور میں رام مندر کی تعمیر، یکساں سیول کوڈ کے علاوہ دوسرے موضوعات کو اہمیت دی ہے اور ہندوتوا کا پرچم تھام کر انتخابی مہم چلانے والے نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانے کی مہم میں چندرا بابو نائیڈو تعاون کررہے ہیں۔
2002ء میں ہوئے گجرات فسادات میں این ڈی اے کی تائید کرنے والے چندرا بابو نائیڈو نے بی جے پی کی اعلیٰ قیادت سے نریندر مودی کو چیف منسٹر کے عہدے سے برطرف کردینے کا مطالبہ کیا تھا اور پھر 12سال بعد وہی چندرا بابو نائیڈو نریندر مودی کووزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر قبول کررہے ہیں۔ چندرا بابو نائیڈو اقتدار کے لالچ میں ماضی کوبھلاسکتے ہیں مگر مسلمان اپنے بے گناہ بھائیوں کے قتل اوربہنوں کی عصمت ریزی کے واقعات اور موت کے ننگے ناچ کو ہرگزنہیں بھول سکتے۔ہوسکتا ہے اس سلسلہ میں چندرا بابو نائیڈو کی یادداشت کمزور ہوگی لیکن مسلمانوں کی یادداشت کمزور نہیں ہوسکتی۔چندرا بابو نائیڈو تجربہ کار قائد ہیں مگر بھروسہ مند قائد ثابت نہیں ہوسکتے کیونکہ انہوں نے اپنے وعدوں کو کبھی پورا نہیں کیا ہے۔ وہ اپنے سیاسی مفاد کیلئے کچھ بھی کہنے اور کچھ بھی کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں۔
2014 کے عام انتخابات مسلمانوں کیلئے آزمائش کی گھڑی ہے۔ مسلمانوں کو جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ 30اپریل مسلم رائے دہندوں کیلئے بہت بڑا امتحان ہے۔ مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اپنے آپسی اورنظریاتی اختلافات کو فراموش کرتے ہوئے متحدہ طور پر انتخابی حکمت عملی تیار کریں۔ تلنگانہ کے اضلاع سے پانچ سال تک ایوان اسمبلی میں مسلمانوں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی مگر اس مرتبہ مسلم امیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنانے اور متحدہ طور پر ووٹ دینے کی منصوبہ بندی تیار کریں۔
مسلم امیدوار کو خود مسلمانوں کی جانب سے ووٹ نہ دینے کا مسلم رائے دہندوں پر جو الزام ہے اس الزام کو غلط ثابت کر دکھائیں۔اس سلسلہ میں اولین ترجیح مسلم امیدواروں کو کامیاب بنانے کیلئے دی جانی چاہیئے جس کے لئے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر متحدہ طور پر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف سیکولر جماعتوں کے امیدواروں کو اہمیت دی جانی چاہیئے۔ ووٹ دینے کا فیصلہ کرنے سے قبل اس بات کو ذہن نشین کرلیا جائے کہ وہ جس پارٹی کو ووٹ دے رہے ہیں وہ پارٹی مابعد انتخابات این ڈی اے کی تائید نہ کرے۔ مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں خود مسلمانوں کو اس کا اندازہ نہیں ہے مگر سیاسی جماعتوں کو اس کا پورا اندازہ ہے۔ مسلمان خود اپنے ووٹ کی قدر کریں اور اپنے اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں تب ہی مسلمان اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔ اگرمسلم رائے دہندے مسلم امیدواروں کو کامیاب بنانے کی حکمت عملی میں کامیاب ہوگئے تو 2019ء کے انتخابات میں ایوانوں میں مسلمانوں کی مزید نمائندگی بڑھ سکتی ہے اور اس طرح سیاسی جماعتیں نمائندگی بڑھانے کیلئے مجبور ہوجائیں گے۔