سیاسی ترقی قسمت سے ملا کرتی ہے

تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
جون کا مہینہ اب تلنگانہ کے کیلنڈر پر بس محض ایک تاریخ نہیں بلکہ تاریخی وعدوں کی طویل فہرست کی یادیں بھی ہوں گی۔ ادھورے وعدوں کے ساتھ یوم تاسیس تلنگانہ کا جشن منانے والے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کا اب راستہ کوئی نہیں روک سکے گا لیکن ٹی آر ایس میں بغاوت کے بھاری بوٹوں کی دھمک کسی نہ کسی طرح کانوں میں گونجتی جارہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس بغاوت کی شکل ابھی نمودار نہ ہو۔ ٹی آر ایس کے قائدین اس وقت اپنے بارے میں کچھ بھی بدشگون بات سننے تیار نہیں ہیں، ہونا بھی نہیں چاہیئے کیونکہ تلنگانہ حاصل کرکے ان لیڈروں نے اپنی کرسیاں گرم کرلی ہیں۔ وعدے تو ہردور میں فراموش کرنے کیلئے ہی کئے جاتے رہے ہیں۔ ان وعدوں میں شہر حیدرآباد کو سنگاپور کے خطوط پر ترقی دینے کا اعلان بھی خواب ثابت ہوا۔ عوام کو سنگاپور کے طرز کی ترقی کے نام پر حیدرآباد کی اپنی شناخت، خوبصورتی اور پاکیزگی دور ہوتے جارہی ہے۔ سڑکوں کا براحال، ڈرینج کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کچرے کی نکاسی دھری پڑی ہے۔ اسٹریٹ لائٹس بند ہیں۔ گلی کوچے تنگ ہوتے جارہے ہیں۔ لوگوں نے گھروں کے سامنے تعمیراتی سامان کے ڈھیر لگادیئے ہیں تو کہیں تعمیراتی ملبہ ڈال دیا گیا ہے۔ گھروں میں صحن نہیں، پارکنگ کے لئے جگہ نہیں اس لئے گاڑیوں کو بے ترتیب طریقے سے گھروں کے سامنے کھڑا کردیتے ہیں۔ اس جنگل اور منگل کی کہانی میں چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ جشن کی تیاریاں کررہے ہیں۔

تلنگانہ کے دیہی علاقوں سے لیکر دارالحکومت حیدرآباد تک گلابی رنگ میں رنگ دیئے جائیں گے۔ ایک سال پہلے کی ہی بات ہے کہ جب تلنگانہ کے قیام کی پہلی سالگرہ منانے کی تیاری ہورہی تھی تو چیف منسٹر نے سوچھ حیدرآباد کا پروگرام شروع کیا تھا۔ بذات خود جھاڑو لے کر سڑک پر آئے تھے اور کہا گیا تھا کہ ہر ماہ کی 10تاریخ کو حیدرآباد کی صاف صفائی کا جائزہ لیا جائے گا۔ اس کے لئے ایک ’’لوگو ‘‘بھی تیار کیا گیا تھا ، اب ایک سال ہوچکا ہے مگر شہر کی حالت سے آپ سب واقف ہیں۔ سوچھ حیدرآباد کے لئے 200کروڑ روپئے خرچ کرنے اور مرکز سے 75کروڑ روپئے کی خصوصی امداد حاصل کرنے کا بھی اعلان ہوا تھا، لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور جی ایچ ایم سی والوں نے اس پروگرام کو بھی کچرے کی کنڈی میں ڈال دیا ہے۔ شہر کو صاف ستھرا بنانے کے لئے 425 زونس میں شہر کو تقسیم کیا گیا تھا، ان میں 17صنعتی علاقے اور 8کنٹونمنٹ علاقے بھی شامل تھے، لیکن اس ایک سال میں کچھ نہیں بدلا بلکہ پہلے سے زیادہ خراب کردیا گی ہے۔ شہریوں نے چیف منسٹر سے خواہش کی کہ براہ ِ کرم حیدرآباد کو سنگاپور بنانے کی چکر میں اس کو مزید مت بگاڑو بلکہ حیدرآباد پہلے جیسا تھا کم از کم اس کو اُسی حالت میں بحال کردو، وہی صاف ستھری سڑکیں، صاف ستھرا ماحول لوٹا دو۔ مگر حکومت ہے کہ اپنی ضد اور اپنی ناقص پالیسیوں کے ذریعہ حیدرآباد کو بدصورت بنانا چاہتی ہے اور اس کی ری انجینئرنگ پر توجہ دے رہی ہے اور اس کے ریونیو کو بھی ری ڈیزائین کیا جائے گا۔ پولیس اور بلدی نظم و نسق کی تبدیلی بھی لائی جانے کی بات ہورہی ہے۔

حیدرآباد کے لئے ایک طویل مدتی ویژن کے ساتھ عالمی سطح کا شہر بنانے کا منصوبہ تیار ہورہا ہے۔ تلنگانہ میں مزید اضلاع قائم کرنے کے منصوبہ کے ساتھ ہی حیدرآباد اور رنگاریڈی کو بھی 6 اضلاع میں منقسم کرنا چاہتے ہیں اور دیگر 8اضلاع تشکیل دیئے جائیں گے اور ان کا اعلان 2جون کو یوم تاسیس تقریب میں ہوگا۔ ملک بھر میں جملہ 681 اضلاع  ہیں اور ایک ضلع کی آبادی کا تناسب35 لاکھ رکھا گیا ہے جبکہ تلنگانہ میں 3.5 کروڑ کی آبادی ہے اور یہاں ہر ایک ضلع میں آبادی کا تناسب 15 لاکھ پر مشتمل ہے۔ صرف 10اضلاع ہی میں اگر تلنگانہ میں فی ضلع 15لاکھ نفوس کی آبادی رکھی جائے تو 24اضلاع ہوں گے۔ ہر ایک ضلع میں پانچ اسمبلی حلقے وجود میں آئیں گے۔ 24سپٹمبر 2015کو حکومت نے اضلاع کے قیام کا جائزہ لینے کیلئے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کمیٹی نے ہر ضلع کے مالیہ اور آمدنی کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کی ہے۔

لیکن نئے اضلاع کے قیام کیلئے جو مسائل اور نظم و نسق کی تقسیم کا مسئلہ ہوگا اس سے نمٹنے ٹی آر ایس حکومت قاصر ہے۔ اس لئے اب یہ منصوبہ بھی چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے دیگر منصوبوں کی طرح ردی کی نذر ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ سابق میں عثمانیہ دواخانہ کو منہدم کرنے کا منصوبہ روک دیا گیا، سکریٹریٹ کو منتقل کرنے کا منصوبہ بھی کھٹائی کا شکار ہے۔ سکریٹریٹ کوکبھی ایرہ گڈہ منتقل کیا جانے والا تھا تو کبھی پولو گراؤنڈ پر سکریٹریٹ کی عمارت بنائی جانے والی تھی۔ لیکن اب موجودہ سکریٹریٹ کو ہی دوبارہ تعمیر کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔ 25ایکڑ پر پھیلے ہوئے موجودہ سکریٹریٹ کی عمارت سے جب آندھرا پردیش کا سکریٹریٹ ضلع گنٹور کو منتقل ہوجائے گا تو یہاں عمارت خالی ہوگی اور اس عمارت کو تلنگانہ کے مختلف محکموں کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مگر چیف منسٹر نے موجودہ عمارت کو منہدم کرکے نئی عمارت بنانے کا خیال تیار کیا گیا۔ اس سکریٹریٹ کی 25ایکڑ اراضی ایک شاندار عمارت کی تعمیر کیلئے موزوں جگہ ہے۔ جب عہدیداروں کی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے چیف منسٹر کے سامنے تجویز رکھی تو انہوں نے اپنے سکریٹریٹ کی منتقلی کے منصوبہ کو ترک کردیا۔ اب اس موڈ میں کب تبدیلی آئے گی یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ جب ریاست کا حکمراں موڈی ہوتا ہے تو ہر شعبہ کیلئے پریشان کن صورتحال سے گذرنا پڑتا ہے۔ حیدرآباد کو انفارمیشن ٹکنالوجی کا اہم مرکز بنانے کی کوششیں بھی ماند پڑ گئی ہیں، آئی ٹی کمپنیوں میں روزگار کی شرح گھٹادی گئی ہے۔ اس سال کیمپس سلیکشن کی تعداد کم ہوئی۔
ریاست کے وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ کو سمجھدار اور چالاک سمجھنے والوں کو اب مایوسی ہونے لگی ہے

کیونکہ یہ وزیر تو صرف ٹوئٹر پر بڑی بڑی خبریں بنانے اور ہر آنے والے کل کیلئے نئے منصوبوں کا اعلان کرنے میں مصروف ہیں۔ٹوئٹر پر ان کے پیامات پڑھنے والے ان کے فالوورس کی تعداد بڑھ رہی ہے مگر ریاست کی آئی ٹی کمپنیوں کو پیداوار میں اضافہ کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ سوشیل میڈیا نیٹ ورک پر ان کے فالوورس اور فیانس کے اندر ایک عام احساس یہ پیدا کردیا گیا ہے کہ بہت جلد ان کے والد کے چندر شیکھر راؤ اپنے فرزند کی چیف منسٹری کا اعلان کردیں گے کیونکہ کے سی آر ان دنوں علیل رہنے لگے ہیں۔ چیف منسٹر بننے کا اعلان تو صرف کے سی آر ہی کریں گے اس لئے اب تک کے ٹی آر نے ٹوئٹر پر اس طرح کی کوئی بڑی خبر نہیں چھوڑی ہے۔ البتہ وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ عوام کو بہت جلد ایک بڑی خبر سننے کو ملے گی، مگر یہ بڑی خبر کیا ہے اس کا بے چینی سے انتظار ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کے ٹی آر از خود ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر ہونے کا اعلان کریں گے؟۔ ٹی آر ایس میں امکانی بغاوت کے تعلق سے جس طرح کی خبریں آرہی ہیں ان خبروں کا انجام کے سی آر کی جگہ کے ٹی آر لیں گے اور ہریش راؤ اپنا ایک علحدہ گروپ بناکر 1995 کی تلگودیشم کی تاریخ کو دہرایا جائے گا۔ چندرا بابو نائیڈو نے جب این ٹی راما راؤ کو پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی تو کیا یہ تاریخ دوبارہ دہرائی نہیں جاسکے گی۔ ٹی آر ایس میں فی الحال یوم تاسیس تلنگانہ کے جشن کا خمار ہے، جشن کے بعد کوئی نہ کوئی بدشگونی کی کیفیت ظاہر ہوگی۔ حکومت کے چند مقبول اور نامقبول اقدامات کے درمیان ٹی آر ایس پارٹی کے سیاسی شہیدوں میں کن کن کا نام لکھا جائے گا یہ بہت جلد معلوم ہوگا۔ قسمت سے ملنے والی اس سیاسی ترقی کو بعض قائدین ہضم نہیں کرپارہے ہیں تو ان سے کچھ نہ کچھ غلطیاں سرزد ہوں گی۔
kbaig.92@gmail.com