رشیدالدین
بی جے پی اور آر ایس ایس کیا واقعی دو علحدہ اور آزاد تنظیمیں ہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی ذی شعور اور معمولی سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اسے قبول نہیں کرے گا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی دراصل آر ایس ایس کا سیاسی شعبہ ہے اور اس کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس قیادت کے ہاتھ میں ہے۔ انتخابات کے موقع پر ہمیشہ آر ایس ایس اپنے سیاسی شعبہ کے پرچار میں کود پڑتی ہے لہذا ان دونوں کو جداگانہ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ نظم و نسق میں ہم خیال افراد کی ذہن سازی کا نتیجہ ہے کہ بیورو کریسی اور فوج میں اہم عہدوں پر فائز کئی شخصیتوں نے سبکدوشی کے بعد آر ایس ایس یا پھر بی جے پی کا رخ کرلیا جس کی تازہ مثال جنرل وی کے سنگھ ہیں۔ جنہوں نے فوج کے سربراہ کے عہدہ سے سبکدوشی کے بعد بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی اور آج مرکزی وزارت میں شامل ہیں۔ جب کبھی بی جے پی اقتدار میں رہی ، نظم و نسق میں موجود اس کے ہم خیال کسی نہ کسی طرح بے نقاب ہوتے رہے۔ ملک پر حکمرانی اور سیکولر اسٹیٹ کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے ناپاک منصوبوں کے ساتھ گزشتہ کئی برسوں سے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نظم و نسق کو ہر سطح پر زعفرانی بنانے میں مصروف ہے اور وقتاً فوقتاً ایسی مثالیں عوام پر عیاں ہورہی ہیں۔ ناقابل تردید حقائق کے درمیان آر ایس ایس ترجمان منموہن ویدیا کا یہ بیان مضحکہ خیز ہے کہ حکومت پر آر ایس ایس کا کوئی کنٹرول نہیں ۔ اگر کوئی عام آدمی اس طرح کی رائے کا اظہار کرے تو اسے عدم واقفیت کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے لیکن آر ایس ایس ترجمان کا دعویٰ کسی کو ہضم نہیں ہوگا۔ ریاستی اور قومی سطح پر نظم و نسق میں سنگھ پریوار کچھ اس طرح سرایت کرچکا ہے کہ اسے علحدہ اور پاک کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ کے خلاف پیش کردہ چارج شیٹ اس کی تازہ مثال ہے جسے خامیوں کے سبب عدالت نے قبول نہیں کیا۔ حالیہ عام انتخابات کی مہم کے دوران اپریل میں فساد سے متاثرہ مظفر نگر میں امیت شاہ نے اشتعال انگیز اور منافرت پر مبنی تقریر کی تھی۔
انہوں نے عام انتخابات کو مظفر نگر کا بدلہ لینے کا سنہری موقع قرار دیا تھا ۔ الیکشن کمیشن نے اس کا سخت نوٹ لیتے ہوئے حکام کو مقدمہ درج کرنے کی ہدایت دی۔ الیکشن کمیشن کی ہدایت کی تعمیل میں پولیس نے امیت شاہ کے خلاف مقدمہ تو درج کرلیا لیکن جب عدالت میں چارج شیٹ کی پیشکشی کا مرحلہ آیا تو کمزور اور نقائص سے پر چارج شیٹ داخل کی گئی جسے عدالت نے قبول کرنے سے انکار کردیا ۔ پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کو ایک طرف یو پی میں برسر اقتدار سماج وادی پارٹی کو خوش کرنا تھا تو دوسری طرف مرکز میں برسر اقتدار پارٹی کے قومی صدر کے خلاف وہ کس طرح جاسکتے تھے۔ لہذا چارج شیٹ ہی ایسی تیار کی گئی کہ امیت شاہ کو راحت مل جائے ۔ عدالت نے حیرت کا اظہار کیا کہ جن دفعات کا چارج شیٹ میں تذکرہ کیا گیا ، ان کے مطابق پولیس نے کارروائی نہیں کی۔ چارج شیٹ داخل کرنے سے قبل پولیس نے امیت شاہ کو گرفتار کرنے کی کوشش تک نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ جس شخص نے اترپردیش میں انتخابی مہم کی کمان سنبھال کر ریاست کی 80 میں 72 نشستوں پر پارٹی کو کامیابی دلائی ہو، اس کے خلاف کارروائی کرنا آسان نہیں اور پھر نظم و نسق میں سنگھ پریوار کے ہمدرد ہوں تو امیت شاہ کو راحت ملنا خلاف توقع نہیں ہے ۔
یقیناً ان عہدیداروں کی ہمت کی داد دینی چاہئے جو سماج وادی پارٹی حکومت میں رہ کر بی جے پی سے وفاداری نبھا رہے ہیں۔ بھلے ہی پولیس عہدیداروں نے نرم چارج شیٹ پیش کی لیکن عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے اور خامیوں کے سلسلہ میں پولیس کی سرزنش کے ذریعہ یہ ثابت کردیا کہ عدلیہ ابھی بھی آزاد اور غیر جانبدار ہے۔ اترپردیش میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کا سہرا عوام سے زیادہ ان افراد کے سر جاتا ہے جو نظم و نسق کے مختلف شعبو ں میں بی جے پی کے ہمدرد کے بھیس میں اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ ظاہر ہے کہ انہیں اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے امیت شاہ کی مدد کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ حکومت اترپردیش کی ذمہ داری ہے کہ نظم و نسق میں موجود ایسے زعفرانی ذہنیت والوں کا پتہ چلائے۔ ان عہدیداروں کے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے کمزور چارج شیٹ تیار کرتے ہوئے حکومت کو عدالت میں رسوا کردیا۔ اس کے بعد بھی آر ایس ایس کا یہ دعویٰ مذاق سے کم نہیں کہ حکومت پر اس کا کنٹرول نہیں ۔ مرکز توکجا اپوزیشن برسر اقتدار ریاستوں میں بھی آر ایس ایس کنٹرول کے ثبوت منظر عام پر آرہیں ہیں۔ آر ایس ایس ترجمان نے کم از کم یہ اعتراف کیا کہ سنگھ نے بی جے پی کے حق میں انتخابی مہم چلائی تھی ۔ کیا آر ایس ایس اس بات سے انکار کرسکتی ہے کہ مودی کو وزارت عظمی تک پہنچانے اور امیت شاہ کو پارٹی کی قومی صدارت پر فائز کرنے میں اس کا اہم رول ہے۔ ناگپور کے ریموٹ کنٹرول کے بغیر مودی حکومت ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکتی۔ عوام کی یادداشت اتنی بھی کمزور نہیں کہ وہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے اس بیان کو بھول جائیں جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی کی کامیابی کا سہرا آر ایس ایس کیڈر کے سر جاتا ہے۔ جنہوں نے گاؤں گاؤں پہنچ کر بی جے پی کی مہم چلائی تھی۔ بھاگوت نے مودی کے اس بیان سے اختلاف کیا تھا کہ امیت شاہ الیکشن کے ’’میان آف دی میچ‘‘ ہیں۔ اگر آر ایس ایس کا حکومت پر کنٹرول نہیں تو پھر ہر مسئلہ پر مشاورت کیلئے حکومت کے ذمہ دار سنگھ کے دروازے پر کیوں حاضری دیتے ہیں؟
اترپردیش کے آئندہ اسمبلی انتخابات میں امیت شاہ کے جانشین کے طور پر ابھرنے والے مہینت ادتیہ ناتھ کے خلاف کارروائی کیلئے الیکشن کمیشن نے ہدایت دی ہے۔ ادتیہ ناتھ کو اترپردیش میں لوک سبھا کی ا یک اور 11 اسمبلی حلقوں کے ضمنی چناؤ میں بی جے پی کی انتخابی مہم کی ذمہ داری دی گئی ہے اور وہ نفرت کے پرچار کے ذریعہ بی جے پی کو کامیابی دلانا چاہتے ہیں۔ انتخابی قواعد کی خلاف ورزی اور اشتعال انگیز تقاریر کے سلسلہ میں ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کی زہر افشانی کیا یو پی میں لوک سبھا کے نتائج کو دہرا پائے گی ؟ ملائم سنگھ یادو اور اترپردیش میں دیگر سیکولر طاقتوں کیلئے بھی ادتیہ ناتھ مستقبل میں چیلنج بن سکتے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی میں پولیس کس حد تک سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے ، یہ دیکھنا پڑے گا۔ کہیں ان کے مقدمہ کا حشر امیت شاہ کی چارج شیٹ کی طرح نہ ہوجائے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کی اشتعال انگیزی کو بڑھاوا دینے کیلئے میڈیا بھی برابر کا ذمہ دار ہے۔ مودی اور بی جے پی نواز میڈیا ادتیہ ناتھ کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر چار ریاستوں کیلئے بی جے پی کی انتخابی مہم چلا رہا ہے۔ اترپردیش کا لوک سبھا حلقہ مین پوری ملائم سنگھ کیلئے وقار کی نشست ہے۔ اگر وہاں بی جے پی کامیاب ہوجائے تو آئندہ اسمبلی الیکشن کیلئے اس کے حوصلے بلند ہوجائیں گے۔ اور اگر سماج وادی پارٹی اپنی نشست کو برقرار رکھے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ مودی لہر اقتدار کے 100 دن میں ہی دم توڑنے لگی ہے۔ نظم و نسق میں ہی نہیں بلکہ سیکولر جماعتوں میں بھی بی جے پی نے اپنی کس قدر گہری چھاپ چھوڑی ہے، اس کا اندازہ سابق چیف منسٹر دہلی شیلا ڈکشٹ کے بیان سے ہوتا ہے۔ شیلا ڈکشٹ نے کانگریس سے اپنی طویل وابستگی کے باوجود دہلی میں تشکیل حکومت کے سلسلہ میں بی جے پی کی تائید کی ۔ مسلسل تین مرتبہ دہلی کی چیف منسٹر رہنے والی شیلا ڈکشٹ نے جو عمر کے 76 ویں برس میں داخل ہوچکی ہیں۔ انہوں نے اپنے تمام سیکولر روایات و نظریات کو پامال کردیا ہے۔ اس طرح دہلی میں بی جے پی کو شیلا ڈکشٹ کی صورت میں ایک ہمدرد مل گیا۔ کیا شیلا ڈکشٹ اپنے دور کے ان اسکامس کی تحقیقات سے خوفزدہ ہیں جن کو کسی بھی وقت اچھال کر بی جے پی انہیں نشانہ بناسکتی ہے۔ دہلی میں تشکیل حکومت کیلئے بی جے پی کے پاس درکار اکثریت حاصل نہیں پھر بھی شیلا ڈکشٹ کی تائید سے ان اندیشوں کو تقویت ملتی ہے کہ بی جے پی نے شیلا ڈکشٹ کے ذریعہ کانگریس میں پھوٹ کی منصوبہ بندی کرلی ہے اور اسی حکمت عملی کے تحت انہیں کیرالا کے گورنر کے عہدہ سے استعفیٰ دلاکر دہلی لایا گیا ۔ نجمہ ہپت اللہ کے بعد شیلا ڈکشٹ دوسری کانگریسی قائد ہیں جو جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی آلہ کار بن گئیں۔ ان میں اگر ذرا برابر بھی سیکولرازم باقی ہو تو چاہئے کہ سیاسی سنیاس لے لیں ، بجائے اس کہ فرقہ پرست طاقتوں کو مضبوط کرنے میں اہم رول ادا کریں۔ کہیں شیلا ڈکشٹ کی نظر دہلی کی چیف منسٹر کی کرسی پر تو نہیں؟ سیکولرازم کا لبادہ اوڑھ کر بی جے پی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے شیلا ڈکشٹ نے جو بیان دیا ہے، اس نے سیکولر عوام کو مایوس کردیا ۔ دہلی میں تشکیل حکومت کیلئے بی جے پی کو 5 ارکان کی تائید ضروری ہے۔ شرومنی اکالی دل اور ایک آزاد رکن نے تائید کا یقین دلایا۔ اس کے باوجود بی جے پی کے پاس اکثریت نہیں۔ ان حالات میں تشکیل حکومت کیلئے سوائے توڑ جوڑ کی سیاست کے کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی نے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا ہے لیکن دونوں جماعتوںکے ارکان کی ا کثریت ایک سال کی مدت میں دوبارہ انتخابات کے حق میں نہیں۔ ظاہر ہے کہ عام انتخابات سے بچنے کیلئے ان جماعتوں کے ارکان بی جے پی کے لالچ کا شکار ہوسکتے ہیں۔ تشکیل حکومت کے سلسلہ میں امیت شاہ کی نگرانی میں جاری سرگرمیوں پر وزیراعظم نریندر مودی کی خاموشی بھی معنیٰ خیز ہے۔ نریندر مودی جو ہمیشہ اصول پسند سیاست کا درس دیتے رہے، اب وہ توڑ جوڑ کی سیاست پر خاموش کیوں ہیں؟ نفرت کی سیاست کرنے والوں پر منور رانا نے کچھ اس طرح تبصرہ کیا ہے ؎
سیاسی اینٹ سے رشتوں کی دیواریں بناتا تھا
محبت کی قسم کھاتا تھا تلواریں بناتا تھا