سیاسی اقدار، نظریات ، قوم پرستی کی باتیں نہ کیجئے … اب ہندوستان بدل گیا ہے!

شیکھر گپتا
ہمارے عوامی مباحثہ کی قلیل میعادیت کا اس حقیقت سے بہتر کوئی عکاسی نہیں ہے کہ اسے یہ مفروضہ تک محدود کردیا گیا ہے کہ نتیش کمار اور اُن کی پارٹی کا ایک سیاسی گروپ بندی سے اس کے نظریاتی مخالف کی طرف اجتماعی انحراف نے بہ الفاظ دیگر 2019ء الیکشن کو نریندر مودی اور امیت شاہ کے حق میں پکا کردیا ہے۔ اس کی مخالفت میں تاویل پیش کرنے کیلئے آپ کو یا تو انجام سے بے پروا نڈر بننا پڑے گا یا پھر آپ بہار میں غیرقانونی طور پر فروخت کی گئی ناجائز کشیدہ و مضر شراب کے نشہ میں ہوں گے۔ اس سیاسی بدلاؤ کا حقیقی ضمنی مفہوم 2019ء سے کہیں آگے تک برقرار رہے گا۔
اس طرح یہ ہندوستانی سیاست اور سماج اور مختصراً کہیں تو رائے عامہ میں تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے۔ اس کا مطلب اندرا گاندھی سے زیادہ طاقتور اور کامیاب سیاسی قدآور لیڈر کا اُبھار بھی ہے۔ عجلت میں اعتراض کرتے ہوئے یہ نہ کہیں کہ اندرا نے زیادہ ریاستوں پر حکمرانی کی، تین جنرل الیکشن جیتے۔ کیونکہ انھیں ایسی پارٹی سیاسی وراثت میں ملی جو پہلے سے اچھی طرح مستحکم اور برسراقتدار تھی جسے معمولی اپوزیشن کا سامنا تھا۔ مودی نے اپنا الیکشن نہ صرف (اُس وقت) خود اپنی پریشان حال پارٹی میں داخلی مخالفت بلکہ بڑے ووٹ بینک کے حامل کئی نظریاتی مخالفین کے خلاف بھی لڑتے ہوئے جیتا ہے۔ اب وہ اور صدر بی جے پی نے اپنی پارٹی پر اس سے کہیں زیادہ کنٹرول حاصل کرلیا ہے جتنا کبھی اندرا کے پاس رہا ہوگا۔ اپوزیشن 1952ء کے بعد سے (1984-89ء میں راجیو گاندھی کی بھرپور کامیابی کے بعد اس کی کمتر عددی طاقت پر نہ جائیے ) اپنے کمزور ترین موقف میں ہے۔ میڈیا زیادہ تر مرعوبیت کے معاملے میں گھٹنوں کے بل آگیا ہے ، حاشیہ پر رہتے ہوئے ہی مطمئن ہے، اور کوئی سوال پوچھنے سے تک خائف ہے جیسا کہ آر بی آئی نوٹ بندی والی کرنسی کی گنتی نو ماہ میں بھی کیونکر نہیں کرپایا جبکہ عام انسان تو اس قدر مدت میں ایک اور کو جنم دے سکتے ہیں۔جہاں تک عدلیہ کا معاملہ ہے، جب انڈین کرکٹ نہ چل رہی ہو تو وہ ایسے مقدمات میں مصروف رہتے ہیں جیسے کہ ہمیں قومی ترانہ اور اب قومی گیت کے احترام کا درس پڑھا رہے ہوں، نیز دریائے جمنا کے پاس رفع حاجت کی پاداش میں 5,000 روپئے کا جرمانہ عائد کرنا، وغیرہ۔ دستوری مزاحمت کا حالیہ عرصہ میں واحد موقع سپریم کورٹ کا نیشنل جوڈیشل اپوائنٹ منٹس کمیشن کو کالعدم کردینا رہا، جو خود اس کی آزادی کے تحفظ کا اقدام ہوا۔ اور بعض لوگ اس وائس چانسلر کے تعلق سے شکایت کررہے ہیں جو اپنے بے قابو کیمپس سے نمٹنے کیلئے سونیر ٹینک بنوانے کی اپیل کی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ انھوں نے اپنے کیمپس پر حقیقی ٹینک معہ گولہ بارود نہیں مانگا، یا پولیس کی حفاظتی کار کی خواہش نہیں کی ہے۔
یہ تو محض
چند حقائق ہیں جو ہمیں حالیہ عرصہ کی سیاست کے دوران دیکھنے میں آئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ کا مصنف کی ووٹنگ ترجیحات سے کوئی تعلق نہ ہونا چاہئے، تاکہ ہم کسی مدت کو اچھی یا خراب قرار دینے گریزاں ہوں گے۔ لیکن یہ مدت کچھ ایسی رہی ہے کہ اس نے ہماری سیاست کے تمام موجودہ مفروضوں، مساوات اور رابطوں کو بے اثر کردیا ہے۔ اس لئے ہم ہماری سیاست کی تصویر کچھ اسی طرح پیش کرسکتے ہیں کہ مابعد نتیش، اور مودی۔شاہ پراجکٹ کے تین سال بعد۔
انڈیا میں اب نئی قسم کی سیاسی ترکیب سامنے آئی ہے اور اسی کی مطابقت کا موڈ بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ کئی اقدار اور خیالات، بعض اچھے اور بعض اتنے اچھے نہیں یا فرسودہ، کمال فن اور اخلاق اور سب سے زیادہ اہم نظریہ کی باتیں، اب مردہ اور دفن ہوچکی ہیں۔ ہندوستان کی نئی نسل …اب ہمارے ووٹروں کی غالب اکثریت ہے… کو سکیولرازم کے محاسن کے تعلق سے مطمئن کرنا کٹھن ہے جبکہ اس خیال کا ہر علمبردار بدعنوان اور متنازعہ حکمران ہے۔ یا پھر بائیں بازو کو دیکھیں تو غیرمذہبی سکیولرازم والا اُن کا منافقانہ خیال عالمی سطح پر اس کی ناکام معاشیات سے پیچیدہ ہوگیا ہے۔

ایسے حالات میں اطمینان بخش قوم پرستی کے خیال کو پھیلانا، ناممکن ہے جب آپ کے قائدین 26/11 جیسے ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملہ پر سوالات اٹھا رہے ہوں، دہشت گردوں کو سزائے موت کے خلاف اظہار خیال کررہے ہوں حالانکہ اس کی تصدیق سپریم کورٹ نے کردی، یا باٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو فرضی قرار دینا جو بھلے ہی خود آپ کی حکومت کی نگرانی میں پیش آیا ، جس نے قوم کا اعلیٰ ترین گیلنٹری ایوارڈ مہلوک پولیس انسپکٹر کو دیا ہے۔ آپ اظہار خیال کی آزادی حاصل کا دعویٰ ضرور کرسکتے ہیں، لیکن اس کا استعمال آپ کی پارٹی کے لیڈر کے تعلق سے سچ کہنے کیلئے بھی کیجئے۔
جے این یو کو جانے والی سڑک کو اب اگر ساورکر یا گولوالکر سے موسوم کردیا جائے تو اس یونیورسٹی کے واقعات پر پیش آئے احتجاجوں کا نتیجہ کیسا لگے گا؟ یاد رہے کہ آپ نے جامعہ ملیہ میں آڈیٹوریم کو ایڈورڈ سعید سے موسوم کیا، وہاں جانے والی روڈ کو شاہراہِ ارجن سنگھ کا نام دیا۔ یا پھر موافق غریب حکمرانی میں آپ کی سوچ کو دیکھیں تو آپ بس نقص والی، تشہیری، ووٹ دلانے والی یوجنائیں پیش کرپائے جو زیادہ تر اپنے آباواجداد سے موسوم کئے گئے۔ سماجی مساوات کے پُرجوش وعدے کو ان تمام پارٹیوں کے ریکارڈ کی کسوٹی پر پرکھیں جو ’مہا گٹھ بندھن‘ کی خیالی ترکیب کا حصہ ہوں گی۔ کسی بھی مسلم، دلت، یا قبائلی لیڈر کو اُبھرنے نہیں دیا گیا، سوائے اُن کے جو خود اپنی چھوٹی سیاسی دنیا رکھتے ہیں۔ اور پھر فراخدلانہ پالیسی کے تئیں عہد آدھار کے معاملے میں لایعنی مخالفت تک گھٹ گیا، جو خود آپ کا آئیڈیا ہے۔
انڈیا میں عوامی موڈ کی بنیادی تبدیلی اس بات کی دلیل ہے کہ سیاست میں کیا درست ہے اس کی تشریح ایک نہیں بلکہ دو نسلوں کے ووٹرس نے کردی ہے۔ ماضی کی جڑیں تحریک آزادی کی سیاست میں پیوست رہیں۔ لہٰذا، نفس کشی اور قربانی، ضمیر کی آواز کو قبول کرنا، سیاسی راستی کا اعلیٰ ترین احساس یہ سب گزری باتیں ہیں۔ آج کا سکہ اقتدار و طاقت ہے ، اور یہ قابلیت کہ اسے کس طرح بروئے کار لایا جائے کہ کبھی ندامت کا اظہار بھی نہ کرنا پڑے۔ مودی کے سیاسی کوائف سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ٹسٹ میں آج کسی بھی دیگر سیاسی حریف کے مقابل کامیاب ہوئے۔ 2002ء فسادات کے بعد اٹل بہاری واجپائی کی طرف سے دباؤ ہونے کے باوجود مودی نے نہ خود استعفا دیا، اور نا ہی کسی دیگر کا استعفا طلب کیا۔ انھوں نے للت مودی اور ویاپم اسکینڈلس کو بالکلیہ بے پروائی سے نظرانداز کردیا۔ سمرتی ایرانی کو بھلے ہی کم اہمیت کے منصب کو منتقل کیا گیا، لیکن ان کی بازآبادکاری کا عمل جاری ہے۔ کیا مودی کے اندازِ کارکردگی کا مزید ثبوت چاہئے: انھوں نے اُس شخص کو تک برطرف نہیں کیا جو ان کی حکومت کو کئی دیگر سے کہیں بڑھ کر الجھن اور ہتک کا شکار بنایا … سی بی ایف سی چیئرمین پہلاج نہلانی۔

میں نے 2014ء الیکشن کے نتائج پر اپنے اولین تبصرہ میں کہا تھا کہ نیا ہندوستانی ووٹر نظریاتی سوچ کا حامل نہیں بلکہ اس کا ذہن کچھ اس طرح کا ہے: ’’میں تمہارا کچھ روادار نہیں‘‘ اور ’’اس میں میرا کیا بھلا ہے‘‘۔ بی جے پی کی مسلسل کامیابی کا مطلب نہیں کہ ہندوستانی سکیولرازم اور فراخدلی ختم ہوچکے ہیں۔ اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا ایقان پہلے کس قدرگہرا تھا؟ عین ممکن ہے کہ یہ زیادہ گہرا نہیں تھا۔ اس لئے اب بڑی اکثریت اس میں واجبیت محسوس کررہی ہے جو ہمیشہ ان کا ایقان رہا، لیکن پرانی نسل والے اخلاق، سیاسی راستی، یا منافقتوں کی وجہ سے وہ اپنے من کی باتیں کہنے سے گریزاں رہے۔ مودی۔ شاہ بی جے پی نے نئے انڈیا کو اُس پرانے بوجھ سے آزاد کردیا ہے۔ اور انڈیا کی غالب اکثریت نئے ماحول میں مگن ہے۔
اس معاملہ میں کوئی بھی اپوزیشن لیڈر یا گروپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ کانگریس نا کے برابر سکڑ گئی اور اگر وہ کرناٹک ہار جائے تو عملاً موت ہوجائے گی۔ تب پنجاب میں امریندر سنگھ خود کو نتیش کی طرح دو رُخی آزمائش میں پائیں گے، یکے بعد دیگر وہ مرکز کی طرف سے دباؤ اور لالچ کا سامنا کرتے رہیں گے، اور ہائی کمان کی مداخلت اور مشکوک نظروں سے نمٹنا پڑے گا۔ نوین پٹنائک، ممتا بنرجی، اروند کجریوال کچھ عرصہ برقرار رہیں گے لیکن طاقتور بی جے پی کو دور رکھنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ کیرالا کے معاملہ میں ہنوز کچھ وقت لگے گا، لیکن وہاں کانگریس سے بی جے پی کو کچھ جگہ مل جائے گی۔
یہ مناسب ہے یا نہیں مگر نتیش کو منحرف کہنا غیردرست ہے۔ بی جے پی کی طرف سے ان کی چھلانگ کی تشریح یہ زیادہ مناسب ہوسکتی ہے کہ وہ یکایک دباؤ کی کیفیت میں ناطہ توڑ گئے اور پھر بی جے پی کی آغوش میں چلے گئے۔ انھوں نے سیاسی حالات کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے یہی اقدام کو اپنے اور بہار کیلئے موزوں سمجھا ہے۔ اس طرح انھوں نے اپنی بقاء کو پائیدار کرلیا کیونکہ انھیں معلوم ہوچلا ہے کہ اب ’’میں پہلے، خودغرض اور سیلفی کے دلدادہ‘‘ ہندوستانی ووٹر کا زمانہ ہے۔ ابھی تک انھوں نے جو نعرے استعمال کئے، خاص طور پر سوشلزم اور سکیولرازم ان میں جنس کی کچھ کشش نہیں۔ ان کے پاس کوئی نئے افکار نہیں ہیں۔ لہٰذا، بہتر ہے سامراج طرز کا ہندوستانی راجا بن کر اپنی رعیت پر حکمرانی کے خالص اختیار سے دستبردار ہوجاؤ۔ بقیہ زیادہ تر اپوزیشن قائدین کو جلد یا بہ دیر یہی متبادلات کا سامنا ہوگا کہ اپنی علحدہ شناخت ترک کرو یا سیاسی منظر سے دفع ہوجاؤ۔ یا پھر اگر آپ تخیلی کمال رکھتے ہوں تو کوئی پُرکشش نئی ترکیب تلاش کیجئے۔