سیاسی افق پر تیزی سے ابھرتا تیسرا مورچہ

ظفر آغا
نریندر مودی ، نریندر مودی ، نریندر مودی ! آج سے کوئی مہینے ، ڈیڑھ مہینے قبل ہندوستانی میڈیا میں بس ایک ہی آواز تھی اور وہ تھی نریندر مودی کی آواز ۔ بلکہ یوں کہئے کہ ہندوستانی میڈیا گلا پھاڑ پھاڑ کر مودی کی خبر کم اور مودی کا پروپگنڈہ زیادہ کررہا تھا ۔ جو ٹی وی چینل کھولو یا جو اخبار اٹھاؤ بس نریندر مودی ہی نریندر مودی نظر آتے تھے ۔ حد یہ ہے کہ مودی کی تقریر میں ٹی وی چینل سیدھے ’’لائیو‘‘ بی جے پی ریلی لوگوں کو دکھاتے تھے اور میڈیا میں تو ابھی بھی مودی کا ہی رنگ چڑھا ہوا ہے لیکن کیا مودی کا رنگ پورے ہندوستان پر ویسے ہی چھا چکا ہے جیسا کہ میڈیا پر مودی کا رنگ چڑھا ہوا ہے ۔ اس سوال کا صحیح جواب تو اگلے لوک سبھا انتخاب کے نتائج آنے کے بعد ہی ملے گا لیکن پچھلے چار چھ ہفتوں میں اس ملک کا سیاسی پس منظر جس طرح تیزی سے بدلنا شروع ہوا اس سے اب یہ اندازہ ہونے لگا ہے کہ مودی ملک کے میڈیا پر بھلے ہی چھائے ہوئے ہوں ، لیکن مودی ملک کے سیاسی منظر نامہ پر ویسے حاوی نہیں جیسے کہ وہ ابھی کچھ عرصہ قبل تک نظر آرہے تھے ۔ آخر مودی پہلے کیوں چھائے نظر آتے تھے اور اب پچھلے چند ہفتوں میں ایسی کیا بات ہوئی جس سے مودی کا بخار کچھ کم ہوتا نظر آنے لگا ۔
پہلی بات تو یہ کہ 2013 دسمبر کے ماہ میں جو چار ریاستوں کے اسمبلی انتخاب ہوئے ان میں دہلی کے علاوہ ہر ریاست میں کانگریس اور بی جے پی کے درمیان سیدھا مقابلہ تھا اور سیاسی حقیقت یہ ہے کہ پچھلے دو برسوں میں کانگریس کی قیادت میں چلنے والی یو پی اے حکومت کی ساکھ اس قدر گر گئی ہے کہ بس پوچھئے مت ۔ حکومت بدعنوانی کے الزام میں چاروں طرف سے گھری ہوئی تھی ۔ حد یہ ہے کہ منموہن سنگھ حکومت کے اے راجہ جیسے وزیر بدعنوانی کے معاملہ میں جیل جارہے تھے ۔ پھر کانگریس کی قیادت میں بھی انتشار نظر آرہا تھا ۔ پارٹی میں یہ فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ کانگریس کی قیادت راہول گاندھی کریں گے یا نہیں ۔ الغرض کانگریس بہت کمزور ہوچکی تھی ۔ اس پس منظر میں تین ریاستوں چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں جو انتخاب ہوئے ان میں کانگریس کو منہ کی کھانی پڑی اور ان تینوں ریاستوں میں کانگریس کا واحد نعم البدل بی جے پی ہونے کی وجہ سے لوگوں نے بی جے پی کو شاندار طریقے سے انتخاب میں جتادیا ۔ اسکے برخلاف دہلی وہ واحد مرکزی زیر انتظام ریاست تھی جہاں پر بی جے پی کے ساتھ ایک نئی پارٹی یعنی عام آدمی پارٹی کانگریس کے نعم البدل کی شکل میں موجود تھی ۔ جبکہ دہلی میں بی جے پی بھی انتخاب کے میدان میں موجود تھی اور خود نریندر مودی دہلی میں گھوم گھوم کر انتخابی مہم میں شریک بھی تھے ۔ لیکن پھر بھی دہلی میں بی جے پی کو واضح اکثریت نہیں ملی بلکہ دہلی میں کیجریوال کی قیادت میں ایک نئی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ۔
دہلی انتخاب کے نتائج آئے نہیں کہ پورے ہندوستان میں یہ لہر سی چل پڑی کہ مودی کو روکا جاسکتا ہے اور ملک کی سیاسی حقیقت بھی یہی ہے کہ میڈیا نے ملک میں جو مودی کا ہوا کھڑا کیا تھا وہ زمینی حقیقت نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کانگریس کمزور ہوئی ہے

لیکن کانگریس کا نعم البدل پورے ملک میں محض بی جے پی یا نریندر مودی نہیں ہیں ۔ بی جے پی کی چناوی حکمت عملی شروع سے یہی تھی کہ کسی طرح اگلے لوک سبھا انتخاب کو کانگریس ۔ بی جے پی یا راہول مودی مقابلہ بنادیا جائے تاکہ کانگریس سے روٹھا ہوا ووٹر مودی کی قیادت میں بی جے پی کو ووٹ ڈالے ۔ لیکن بی جے پی کی یہ حکمت عملی دہلی انتخاب کے بعد سے کارگر ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے ۔ اسکا سبب یہ ہے کہ میڈیا غالباً جان بوجھ کر اس ملک کی علاقائی پارٹیوں کو بالکل بھول گیا تھا ۔ ہندوستان کی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ اب نصف سے زیادہ ریاستیں ایسی ہیں جہاں کانگریس اور بی جے پی جیسی قومی پارٹیوں کا کوئی اثر ہی نہیں ہے ۔ ہندوستان کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں پچھلے تقریباً دس بارہ برسوں سے کانگریس یا بی جے پی دونوں ہی بے اثر ہوچکی ہیں ۔ اسی طرح مغربی بنگال میں ان پارٹیوں کا کوئی نام لیوا نہیں ہے ۔ پھر تقریباً پورے جنوبی ہندوستان میں بی جے پی کے لئے کل دس سیٹیں بھی حاصل کرنا مشکل ہے ۔ لب لباب یہ ہے کہ اس پس منظر میں یہ تصور کرنا کہ اگلے لوک سبھا انتخاب میں محض بی جے پی اور کانگریس کے درمیان ایک میچ ہے جس میں مودی کی ٹیم بہت مضبوط ہے اور وہ راہول کی ٹیم کو ہرادے گی ، قطعاً درست نہیں ہوگا اور آخر اب ہندوستانی سیاسی افق پر سے غبار چھٹنا شروع ہوگیا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ محسوس ہونے لگا ہے کہ ہندوستان محض مودی کی کھیتی نہیں جس میں وہ جو چاہیں بوئیں اور جو چاہیں کاٹیں ۔
سچ تو یہ ہے کہ اب سیاسی افق پر ہندوستان کی تیسری سیاسی قوت یعنی تیسرا مورچہ بھی ابھر کر سامنے آرہا ہے ۔ اور یہ کوئی معمولی طاقت نہیں ہے ۔ اگر ہندوستان کی چودہ سیاسی پارٹیاں آپس میں مل کر انتخاب لڑیں گی تو کیا وہ ڈیڑھ دو سو پارلیمانی حلقوں پر بھی اثر انداز نہیں ہوسکیں گی ؟ ۔ موجودہ سیاسی پس منظر میں یہ تصور کرنا بھی حماقت ہوگی ۔ ملائم سنگھ یادو، مایاوتی ، پرکاش کرت ، شرد یادو ، نتیش کمار ، دیوے گوڑا ، بیجو پٹنائک ، ممتا بنرجی ، جیہ للیتا جیسے ایک درجن سے زیادہ علاقائی لیڈر کیا پارلیمانی انتخاب میں بے اثر رہیں گے ؟۔ ہرگز نہیں ! ملک کی سیاسی حقیقت یہ ہے کہ

اگلے لوک سبھا انتخاب میں مودی کا راہول سے کوئی سیدھا مقابلہ نہیں ہونے جارہا ہے بلکہ لوگ کانگریس سے تو ناخوش ہیں اور وہ نعم البدل ڈھونڈ رہے ہیں لیکن جیسا کہ دہلی انتخاب کے نتائج بتارہے ہیں کہ ملک کی عوام کا ایک بڑا حصہ بی جے پی کو اسکی فرقہ پرست سیاست کے سبب نعم البدل نہیں مانتا ہے ۔ اس لئے اگلے لوک سبھا انتخاب میں تیسرا مورچہ بھی اہم کردار ادا کرے گا جو ظاہر ہے کہ بی جے پی کے لئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوگا اس لئے میاں مودی خلیل خان کی طرح فاختہ اڑانا اب بند کردیں اور میڈیا مودی پروپگنڈہ بند کردے تو بہتر ہوگا ، کیونکہ مودی سارے ہندوستان کی آنکھوں کے تارے نہیں ہیں …!