ظفر آغا
عشرت جہاں کا خون رائیگاں نہیں گیا ! ممبئی کی اس گمنام لڑکی کو لقمہ ٔاجل بنتے ہوئے یہ گمان بھی نہ رہا ہوگا کہ اس کے ناحق قتل کے برسوں بعد بھی درجنوں افراد محض اسکے بارے میں لکھے گئے ایک مضمون پر اسکے اہل خانہ کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوجائیں گے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کوئی ڈیڑھ دو ماہ قبل راقم الحروف نے مرحومہ عشرت جہاں کی بہن مسرت جہاں کے ایک ٹیلیفون کا ذکر سیاست کے کالم میں کیا تھا ۔
اس کا لب لباب یہ تھا کہ عشرت کی سب سے چھوٹی بہن کی شادی ہونے والی ہے ۔ اسکے اہل خانہ پریشان ہیں کہ وہ اس شادی کو کیسے کریں ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ عشرت جہاں کے والد خود عشرت کے انتقال سے قبل ہی گزر چکے تھے ۔ یہ عشرت ہی تھی جو گھر کی ذمہ داری سنبھالے ہوئی تھی ۔ عشرت کی موت کے بعد ایک بے آسرا ماں ، دو بہنیں اور ایک چھوٹا بھائی گھر میں بچے تھے ۔ مسرت سے جو بن پڑا وہ اس نے کیا ۔ لیکن آخر اس کم عمری میں مسرت ایک شادی کا بار کیسے اٹھاسکتی ہے ۔ اس لئے یہ شادی گھر والوں کے لئے خوشیاں کم اور ذہنی پریشانیاں زیادہ لے کر آئی ۔ مسرت نے مجھ سے اس بات کا ذکر فون پر کیا ۔ مجھ کو اس بات پر بے حد غصہ آیا ، مسرت پر نہیں بلکہ پورے ہندوستانی مسلمانوں پر ۔ دل میں یہ خیال آیا کہ ہم عشرت کے تعلق سے روز خبریں پڑھتے ہیں ۔ سنگھ پریوار اور حکومت گجرات کو اس کے انکاؤنٹر پر گالی دیتے ہیں ۔ لیکن پندرہ بیس کروڑ ہندوستانی مسلمانوں میں سے ایک کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ آخر عشرت کا گھر اس کی موت کے بعد کیسے چل رہا ہوگا ۔
بس میں نے مضمون میں یہی لکھا ۔ اور یہ بھی لکھا کہ اگر اب بھی شرم آئے تو عشرت کے اہل خانہ کی مدد کیجئے اور اس کے ساتھ اپنا ای میل آئی ڈی بھی لکھ دیا ۔ یقین جانیئے میرا میل باکس عشرت کے اہل خانہ کی مدد کرنے والوں سے بھر گیا ۔ دو تین دنوں تک یہی حال رہا ۔ سعودی عرب ، کویت ، تقریباً ہر عرب ملک میں رہنے والے ہندوستانی اور خود ہندوستان سے حیدرآباد ، اورنگ آباد، لکھنؤ ، بہار کے کئی شہروں ، ممبئی اور نہ جانے کہاں کہاں سے عشرت کی مدد کے لئے میل آنے لگے ۔ جس کو دیکھئے وہ یہ پوچھ رہا تھا کہ آپ کا یا مسرت جہاں کا بینک اکاونٹ نمبر کیا ہے ۔ مجھ کو عشرت کی مدد کی رقم چھوتے ہوئے بھی ڈر لگ رہا تھا کہ کل کو کوئی الزام لگادے کہ کھاگئے ۔ کیونکہ ہماری قوم میں چندے پر زندہ رہنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ مسرت کا کہنا تھا کہ اگر وہ اپنا اکاونٹ نمبر دیتی ہے اور سعودی عرب سے آنے والے پیسے کو کوئی یہ الزام لگا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کی رقم ہے ۔ چنانچہ اب کیا کیا جائے ۔ کیسے عشرت کے اہل خانہ کی مدد کے پیسے جمع کئے جائیں ۔ میرے لئے یہ ایک اہم مسئلہ بن گیا ۔
اسی شش و پنج میں تھا کہ خیال آیا کہ خود سیاست کے ایڈیٹر جناب زاہد علی خاں صاحب سے بہتر مدد کون کرسکتا ہے ۔ کیونکہ میری نظر میں چندہ سے اگر کوئی شخص کارخیر انجام دیتا ہے تو وہ زاہد صاحب ہیں ۔ چنانچہ میں نے زاہد علی خاں صاحب کو فون لگایا اور اپنی الجھن بیان کردی ۔ زاہد صاحب فوراً بولے کہ آپ سیاست کے ملت فنڈ کا نمبر دے دیجئے ، کوئی فکر کی بات نہیں یہاں سارا پیسہ جمع ہوجائے گا اور پھر عشرت کے اہل خانہ کو حیدرآباد بلا کر چیک دے دیں گے تاکہ ان کو پولیس پریشان نہ کرے ۔ ارے صاحب ابھی اس گفتگو کو کوئی ہفتہ بیتا ہوگا کہ زاہد صاحب کا فون آیا کہ ایک لاکھ روپے جمع ہوچکے ہیں ۔ پھر پتہ چلا کہ ایک لاکھ تیس ہزار سے زیادہ ہوگیا ہے ۔ آخر مختلف اطراف سے آنے والی مدد کی رقم ایک لاکھ تہتر ہزار (1,73,000) ہوگئی ہے ۔ پھر زاہد صاحب اور میں نے طے کیا کہ اب عشرت جہاں کے اہل خانہ کو حیدرآباد بلا کر پوری رقم ان کے حوالہ کردی جائے ۔ چنانچہ پچھلے ہفتے عشرت کی والدہ اور اسکی بہن مسرت حیدرآباد آئیں اور زاہد علی خاں صاحب نے اپنے ہاتھوں سے دو لاکھ روپے کا چیک ان کے حوالے کیا ۔ یقین جانیئے عشرت کی روح مسکرا اٹھی ہوگی ۔ خدا آپ تمام افراد کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ آپ کی مدد سے اتنا بڑا کام ہوگیا ۔
لیکن سچ کہوں کہ زاہد علی خاں صاحب اور سیاست اخبار کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتا تھا ۔ اولاً سیاست اردو زبان کا وہ واحد اخبار ہے جسے نیٹ کے ذریعہ ساری دنیا میں اردو کے چاہنے والے پڑھتے ہیں ۔
یہ سیاست ہی تھا جس کی وجہ سے میرا مضمون ساری دنیا میں پڑھا گیا اور ہر جگہ سے مدد کے لئے لوگ آگے آئے ۔ پھر زاہد علی خاں صاحب ایک عرصے سے انتہائی ایمانداری سے ملت کے مشکل اوقات پر سیاست ملت فنڈ کے ذریعہ مدد کا کام کررہے ہیں ۔ عشرت جہاں کے اہل خانہ کی امداد کوئی سیاست کا پہلا امدادی کام نہ تھا ۔ اس قسم کے درجنوں کام سیاست اور زاہد علی خاں صاحب عرصے سے کرتے چلے آرہے ہیں ۔ مثلاً کچھ عرصہ قبل ورنگل شہر میں ایک مسلم نوجوان اپنی شادی کے عین ایک دن قبل برقی زد میں آکر اپنا ایک ہاتھ اور پاؤں کھو بیٹھا ۔زاہد علی خاں صاحب نے اپنی جیب سے 50,000 دے کر اس کی آناً فاناً مدد کردی ۔ اسی طرح حیدرآباد کے کانسٹیبل عبدالقدیر کی مدد فرمائی ۔ کافی عرصہ گزرا ایک پانچ برس کی بچی نسرین بانو کی ایک آنکھ کینسر سے ضائع ہوگئی تھی ۔ خبر پڑھتے ہی زاہد علی خاں صاحب نے اسکے آپریشن کے بعد آج تک اس کی مدد کرتے رہے ہیں ۔ پھر حیدرآباد کی ایک لڑکی سلوی فاطمہ پائلٹ بننا چاہتی تھی اس کا خواب سیاست کے ذریعہ شرمندہ تعبیر ہوا ۔ ان افراد کی مدد کے علاوہ جب جب ملت پر مشکل پڑی تو زاہد علی خاں صاحب اٹھ کھڑے ہوئے ۔ ابھی پچھلے ماہ سیاست کی جانب سے مظفر نگر فسادات متاثرین کی مدد کے لئے دس لاکھ روپئے بھیجے گئے اور مظفرنگر میں بچوں کے لئے ایک کمپیوٹر سنٹر اور ایک اسکول کھولا گیا ۔ گجرات فسادات کے متاثرین کی تین کروڑ روپے سے زیادہ مدد کی۔ سیاست اور زاہد علی خاں صاحب کی جانب سے اس قسم کے کارخیر کی ایک طویل فہرست ہے جس کو یہاں سمیٹ پانا ممکن نہیں ہے ۔ خدا سیاست ، زاہد صاحب اور ان کے تمام اہل خانہ کو اس طرح ملت کے کام میں مصروف رکھے اور ان کو ہر کامیابی سے نوازے ۔
لب لباب یہ کہ اگر ہم مسلمان اپنی پریشانیوں پر آنسو بہانا چھوڑ کر ایسے ہی اٹھ کھڑے ہوں جیسے میرے ایک مضمون پر آپ حضرات نے عشرت جہاں کے اہل خانہ کی مدد پر لبیک کہا تو ہماری ہر پریشانی حل ہوسکتی ہے ۔ لیکن شرط یہ ہے کہ ہر کار خیر اسی نیک نیتی سے ہو جیسے سیاست اور زاہد صاحب نے یہ کار خیر انجام دیا۔ مجھ کو خوشی ہے کہ میرا قلم کام آیا اور میں آپ سب کا ممنون ہوں کہ آپ نے کھل کر اس کارخیر میں حصہ لیا ۔