مفلسی نے چھین لی ہم سے ہماری ہر خوشی
پہلے سی یارو ہماری اب کہاں ہے زندگی
سیاستدانوں کی ترجیحات
متحدہ قومی محاذ (این ڈی اے) کی حکومت میں مہنگائی کا گراف کیوں بڑھتا ہے اس پر آر بی آئی کی تازہ رپورٹ کا مطالعہ کرنے والے ماہرین کی رائے غور طلب ہے۔ جس ملک میں حکمراں طبقہ کا معاشی منصوبہ ذاتی مفادات یا کارپوریٹ گھرانوں کو فوائد پہونچانے کی حد تک ہی کام کرنے لگتا ہے تو افراط زر اور مہنگائی کا آسمان تک پہونچ جانا یقینی ہوتا ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے مودی نے اس کہاوت یعنی گھر کی مرغی دال برابر کو سچ کر دکھایا ہے کیوں کہ آج مارکٹ میں مرغی کی قیمت فی کیلو گرام 160 روپئے ہے تو دال کی قیمت بھی فی کیلو گرام 160 روپئے کردی گئی ہے۔ گزشتہ سال اس دال کو عوام 70 روپئے فی کیلو حاصل کرتے تھے۔ اچانک دالوں کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ تشویشناک ہے۔ صرف دکھائی دینے والی اضافہ قیمتوں سے ہی پتہ چلتا ہے کہ مودی حکومت میں عوام کو مہنگائی کا شدید سامنا ہے مگر ان کی حربوں اور چالاکیوں کی سیاست نے عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھی ہے بلکہ عوام کو گاندھی جی کے 3 بندر کا درس دیا گیا ہے کہ نہ سن، بُرا نہ دیکھ، برا اور نہ بول برا۔ جب آنکھ، کان اور منہ بند کردیا جائے تو عوام اپنے ہاتھوں سے منتخب حکومت پر انگلیاں کیوں کر اٹھائیں گے۔ متحدہ قومی محاذ حکومت کو تاریخی اور روایتی اعتبار سے اپنے امیج کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ سابق میں اٹل بہاری واجپائی حکومت میں بھی این ڈی اے کو مسائل درپیش تھے مگر اس وقت حکومت کے پاس پارلیمان کے اندر اکثریت کا فقدان تھا۔ اس مرتبہ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھرنے کے باوجود پارلیمانی جمہوریت کی مضبوطی کی وجہ سے پریشان ہے۔ وجہ ہندوستان کے اندر جس سیاسی نظام کو فروغ دیا جارہا ہے وہ مابعد آزادی 67 سال بعد ایک بڑا چیلنج بن کر اُبھرا ہے۔ ملک میں کسی بھی سیاسی تبدیلی کے ساتھ بڑے چیالنجس بھی نمودار ہوتے ہیں۔ حالیہ مانسون سیشن کی کارروائی کو درہم برہم کرنے کا الزام اپوزیشن کانگریس کے سر تھوپ دیا گیا ہے۔ 18 روزہ پارلیمانی کارروائی بُری طرح ٹھپ رہی اور عوام کی ٹیکس کی شکل میں ادا کردہ دولت 150 کروڑ روپئے کو اس پارلیمانی کارروائی پر ضائع کردیا گیا۔ ایوان کی کارکردگی کو مفلوج کرنے کے عمل کا ساری قوم نے بھی مشاہدہ کیا ہے اور اب ایک خراب نظیر بننے جارہی ہے۔ وزیر پارلیمانی اُمور ایم وینکیا نائیڈو نے پارلیمنٹ سیشن میں اہم بلوں کی عدم منظوری پر افسوس ظاہر کرکے مانسون سیشن کو دوبارہ طلب کرنے کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کے علاوہ این ڈی اے کی حلف پارٹیوں سے بھی مشاورت شروع کی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے 2014 ء کے پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے لئے اپنی تشہیری ٹیم کا جس خوبی سے استعمال کیا تھا اب اس تشہیری ٹیم کو اپنی حکومت کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بھی استعمال کررہے ہیں۔ آر بی آئی کی سالانہ رپورٹ میں بھی مودی کی معاشی ناکامی کا ذکر کرنے سے گریز کیا گیا اور زیادہ تر مانسون کی کمی سے پیدا ہونے والی صورتحال پر توجہ دی گئی ہے۔ البتہ آر بی آئی نے مودی حکومت کو زرعی شعبہ پر توجہ دینے کا مشورہ دیا ہے کیوں کہ ملک میں جب اناج کی پیداوار میں کمی آئے گی تو آنے والے دنوں پیاز کی طرح دیگر ضروری اشیاء بھی عوام کی دسترس سے دور ہوں گے۔ ناکافی بارش نے ملک کی پیداواری صلاحیتوں کو کمزور کردیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی افراط زر کی شرح میں بھی تبدیلی درج کی جاتی ہے تو پھر عوام کو ہر شئے دوگنے داموں پر حاصل کرنے کے لئے مجبور ہونا پڑے گا۔ ہندوستان زرعی پیداوار میں خود کفیل ملک ہے مگر حکومتوں کی پالیسیوں اور عدم کارکردگی کی لت نے مسائل پیدا کئے ہیں۔ عوام کی عدم توجہ نے بھی حکومتوں کو من مانی کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ آگے چل کر جو صورتحال پیدا ہوگی وہ تشویشناک ہوگی۔ بدقسمتی سے اس ملک کے سیاستداں خواہ حکمراں پارٹی کے ہوں یا اپوزیشن سے تعلق رکھتے ہوں اپنے مخالفین سے نمٹنے اور انھیں ناکام بنانے اپنی ڈھاک بٹھانے پر توانائی وسائل اور وقت زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ عوامی مسائل پر توجہ کم کردیتے ہیں۔ کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے قائدین کے حالیہ رویہ سے یہی سب کچھ واضح ہوتا ہے کہ ان سیاستدانوں نے عوام کے مسائل سے زیادہ اپنے مفادات کے لئے ترجیحات کا تعین کیا ہے۔
ہند ۔ پاک تصادم کی صورتحال افسوسناک
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ کے منڈلاتے بادلوں نے سرحد پر کشیدگی کو ہوا دینے میں شدت پیدا کردی ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر الزام عائد کیا ہے کہ سرحدی فائرنگ، شلباری، مارٹر حملوں میں معصوم افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جمعہ کو ہونے والی فائرنگ پر پاکستان کی فوج کے سربراہ راحیل شریف نے ہندوستان پر دہشت گردی کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔ اس فائرنگ میں 6 پاکستانی شہری ہلاک ہوئے۔ جبکہ پاکستانی فوج کی فائرنگ میں جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں میں 3 ہندوستانی شہریوں کی ہلاکت اور کئی زخمی ہوئے ہیں۔ یہ فائرنگ اور شلباری دونوں ملکوں کے درمیان قومی سلامتی مشیران سطح کی بات چیت کی منسوخی کے ایک ہفتہ بعد ہوئی ہے۔ نیوکلیر طاقت کے حامل دونوں ملکوں کے درمیان اس طرح کی سرحدی کشیدگی کو فوری ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ مرکز کی مودی حکومت کے تعلق سے ان کے قائدین یہ کہنے لگے ہیں کہ پاکستان سے جنگ کے لئے مودی حکومت میں خفیہ منصوبہ بنایا جارہا ہے۔ اگر مودی حکومت کا خفیہ منصوبہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دیتا ہے تو اس سے جنوبی ایشیاء میں بدترین صورتحال پیدا ہوگی۔ امریکہ کے بشمول وہ تمام ممالک جو جنوبی ایشیاء کی ان دو نیوکلیر طاقتوں کے درمیان کشیدگی پر فکرمند ہیں، نئے تبدیل شدہ حالات پر تشویش ظاہر کررہے ہیں۔ پاکستان سے بات چیت کی پہل کرنے کے بجائے دونوں جانب دوریوں کو مزید تلخ بنانے والے عوامل سے گذر رہے ہیں تو یہ خطرناک صورتحال ہوگی۔ امریکہ نے حال ہی میں دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ اگرچیکہ بات چیت کی دوبارہ بحالی کی کوشش کو حوصلہ افزاء سمجھا جارہا تھا۔ مگر سرحدی کشیدگی اور جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں نے تلخیاں پیدا کردیں۔ اب ان تلخیوں کو جنگ کے دہانے تک لے جانے سے گریز کرنا ہی ہر دو کے مفاد میں ہوگا۔ دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم کارگل کے تجربات نظرانداز نہیں کرسکتے۔ اتفاق سے کارگل جنگ بھی بی جے پی لیڈر اٹل بہاری واجپائی کا اقتدار تھاا ور پاکستان میں نواز شریف وزیراعظم تھے۔ اس تاریخی غلطی کا احیاء برصغیر کو تباہی کی جانب لے جائے گا۔