ممکن ہے سفر ہو آساں ‘ ساتھ تو چل کے دیکھیں
کچھ تم بھی بدل کے دیکھو ‘ کچھ ہم بھی بدل کے دیکھیں
سکیولر اتحاد سے ایس پی کی علیحدگی
بہار میں آئندہ مہینوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ۔ سارے ملک کی نظریں بہار کے انتخابات پر ہے ۔ یہاں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہو رہی توڑ جوڑ ‘ سیاسی چالبازیوں اور رائے دہندوں کو رجھانے کا عمل شدت اختیار کرگیا ہے ۔ اب برسوں سے جو کام رکے رہے تھے اب وہ فوری عمل میں لانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔ رائے دہندوں کو سبز باغ دکھانے کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہے ۔ مرکزی حکومت بھی ہراج میں دی جانے والی بولیوں کی طرح ریاست بہار میں رائے دہندوں کو رجھانے کیئے 1,25,000 کروڑ روپئے کی بولی دینے پر مجبور ہوگئی ہے ۔ بی جے پی نے اس خصوصی پیاکیج کے اعلان سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے ۔ بہار کے چیف منسٹر نتیش کمار بھی اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگانے کی تیاریاں کرچکے ہیں۔ انہوں نے اپنے کٹر اور دیرینہ حریفوں کو تک اپنے ساتھ ملالیا ہے ۔ سابق چیف منسٹر و راشٹریہ جنتادل کے سربراہ لالو پرساد یادو نتیش کمار کے ساتھ ہوگئے ہیں اور اس میں ملائم سنگھ یادو کی سماجوادی پارٹی کو بھی شامل کرلیا گیا تھا ۔ ملائم سنگھ یادو کی پارٹی نے اب سکیولر اتحاد میں دراڑیں پیدا کرنے کا آغاز کردیا ہے ۔ بہار کے انتخابات سیاسی اعتبار سے جتنے اہمیت کے حامل ہیں اتنی ہی یہاں سودے بازیاںبھی ضرور ہونگی ۔ سکیولر قائدین کو یہاں اپنے اتحاد کو بچانے کیلئے ایک قطعی مقصد کا تعین کرنے کی ضرورت ہے ۔ باہمی طور پر ایک دوسرے سے کچھ اختلافات ضرور ہوسکتے ہیں لیکن ان کو بنیاد بناکر مقصد سے ہٹنے کا عمل سارے اتحاد کیلئے نقصان کا باعث ہوسکتا ہے ۔ ایک طرف فرقہ پرست طاقتیں اور فسطائی عناصر محض اقتدار حاصل کرنے کے مقصد سے اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مقصد کو پیش نظر رکھے ہوئے ہیں تو دوسری جانب سکیولر طاقتوں کے اتحاد کو بکھیرنے کی کوششیں شروع ہوگئی ہیں۔ یہ کوششیں نہ صرف اس اتحاد کیلئے مہنگی ثابت ہوسکتی ہیں بلکہ اس سے ملک اور خاص طور پر بہار کی مستقبل کی سیاست کا نقشہ ہی بدل کر رہ جائیگا اور سکیولر جماعتوں کے قائدین کو اسی بات کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔ سکیولر جماعتوں کے قائدین اگر موجودہ صورتحال میں بھی اپنی انا پرستی اور حرص و ہوس کو ترجیح دیتے رہیں تو پھر انہیں اس کے نتائج کا سامنا کرنے کیلئے بھی تیار رہنا پڑے گا ۔
بی جے پی کو جب سے مرکز میں اقتدار حاصل ہوا ہے اس کی نظریں فوری طور پر بہار پر آ ٹکی ہیں ۔ یہاں نتیش کمار کی قیادت والی حکومت کو بی جے پی سے دوری کے بعد لالو پرساد یادو اور کانگریس کی تائید حاصل ہوگئی تھی اور ضمنی انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہے جب سبھی جماعتوں نے بی جے پی کا مشترکہ مقابلہ کیا تھا ۔ ضمنی انتخابات میں بی جے پی کو منہ کی کھانی پڑی تھی ۔ اب اسمبلی کے انتخابات میں بھی اسی حکمت عملی کی ضرورت ہے اور شائد اسی کو محسوس کرتے ہوئے اتر پردیش میں اثر رکھنے والی سماجوادی پارٹی کو بھی یہاں سکیولر اتحاد میں شامل کیا گیا تھا تاہم حالیہ عرصہ میں سماجوادی پارٹی کے دوہرے سیاسی معیارات نے اپوزیشن کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کا کام ہی انجام دیا ہے ۔اب نشستوں کی تقسیم کے مسئلہ پر سماجوادی پارٹی نے سکیولر اتحاد سے دوری اختیار کرلی ہے ۔ اس کا الزام ہے کہ نشستوںکی تقسیم پر اس کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کیا گیا ہے ۔ پارٹی اب بہار کے انتخابات میں تنہا مقابلہ کرنے کے تعلق سے غور کر رہی ہے ۔ حالانکہ جے ڈی یو کے سربراہ شرد یادو نے اس مسئلہ کو حل کرلینے کا ادعا کیا ہے لیکن جب رشتوں میں دراڑ آجائے تو یہ پہلے جیسے شفاف نہیں رہتے ۔ شائد اس کے اثرات انتخابی نتائج پر بھی مرتب ہوں ۔ ابھی سیاسی توڑ جوڑ اور حکمت عملی کے تعین کیلئے وقت ہے اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے حالات کو قابو سے باہر ہونے سے ضرور بچایا جاسکتا ہے اور یہ کوشش پوری سنجیدگی اور خلوص نیت کے ساتھ ہونی چاہئے ۔ ظاہری کوششوں کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوسکتے ۔
بہار اسمبلی انتخابات کے بعد سیاسی اعتبار سے اہمیت کی حامل ریاستوں آسام ‘ اتر پردیش ‘ مغربی بنگال اور پھر کرناٹک اسمبلیوں کیلئے بھی انتخابات ہونے والے ہیں۔بی جے پی ان ریاستوں پر نظریں لگائے ہوئے ہے ۔ اسے اپنے متنازعہ منصوبوں کو رو بعمل لانے کیلئے ان ریاستوں میں سیاسی طاقت کو مستحکم کرنا ہے اور وہ اپنے مقصد کی تکمیل کیلئے ہر جائز و ناجائزطریقہ اختیار کر رہی ہے ۔ بی جے پی اور اس کی تائید کرنے والی فاشسٹ طاقتوں کا مقابلہ تمام سکیولر طاقتوں کے اتحاد کے ذریعہ ہی کیا جاسکتا ہے اور اس حقیقت کو ہر معقولیت پسند کو ذہن نشین رکھنے کی ضرورت ہے ۔ بہار میں بھی سکیولر اتحاد کے قائدین کو چاہئے کہ وہ اپنے مقصد کو پیش نظر رکھیں اور باہمی اختلافات اورذاتی انا پرستی کے خول سے خود کو باہر نکالیں۔ انہیں اپنے وقتی سیاسی فائدوں کی بجائے ملک کے سیاسی مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ورنہ فاشسٹوں کے عروج کی ذمہ داری انہیں جماعتوں پر عائد ہوگی ۔