سوال : جو لوگ سکرات میں ہوتے ہیں‘ ان کو کلمہ کی تلقین کی جاتی ہے ۔ شریعت میں تلقین کا کیا حکم ہے اور اس کا فائدہ کیا ہے ؟ اگر شریعت میں اس کی کوئی فضیلت آئی ہے تو بیان کریں؟
محمد معراج، فرسٹ لانسر
جواب : آخرت میں کامیابی و سعادتمندی کا دارومدار صرف اور صرف خاتمہ بالخیر پر ہے ۔ جن کا خاتمہ ایمان پر ہو وہی شحص کا میاب و کامران ہے ۔ اس لئے شریعت مطھرہ میں جو شخص قریب الموت ہو اس کو ’’ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کی تلقین کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ حکم مستحب ہے ۔ ردالمحتار ج : 2 ص : 78 میں ہے : لکنہ تجوز لما فی الدرایۃ من أنہ مستحب بالا جماع۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لقنوا موتاکم لا الہ الا اللہ فانہ لیس مسلم یقولھا عندالموت الا انجتہ من النار‘‘ یعنی تم قریب الموت افراد کو ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ کی تلقین کرو کیونکہ جو کوئی مومن موت کے وقت یہ کلمہ پڑھتا ہے۔ وہ دوزخ سے نجات پاجاتا ہے ۔ نیز آپ کا ارشاد گرامی ہے : من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ‘ ‘ یعنی جس کا آخری کلام ’’ لا الہ الا اللہ ‘‘ (کوئی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے) وہ جنت میں داخل ہوگا (ابو داؤد) اس لئے تلقین کرنا پسندیدہ ہے۔
دم دینے کے بجائے رقم صدقہ کرنا
سوال : میں ریاض میں مقیم ہوں، عمرہ کی نیت سے احرام باندھ کر روانہ ہوا لیکن بعض قانونی رکاوٹوں کی وجہ سے میں مکہ مکرمہ پہنچ نہیں سکا اور مجبوراً مجھے واپس ہونا پڑا، مجھے پہلے سے اطلاع تھی کہ اگر واپس ہوجائیں تو بغیر دم کے احرام نہیں کھول سکتے اس لئے فوری میں اپنے دوست سے ربط پیدا کیا اور ان سے خواہش کی کہ وہ میری طرف سے دم دیدیں۔ بہرحال ان سے رابطہ قائم کرنے میں بڑی دشواریاں ہوئیں اور میرے دوست کو بھی تکلیف ہوئی ۔ مجھے معلوم کرنا یہ ہے کہ اگر ہم جانور ذبح کرنے کے بجائے اس کی رقم صدقہ کردیں تو یہ قابل قبول ہے یا نہیں ؟
ای میل
جواب : اگر کوئی شحص احرام باندھنے کے بعد کسی رکاوٹ کی وجہ سے حرم کو نہ پہنچ سکے تو احرام سے نکلنے کیلئے دو چیزیں ضروری ہیں یا تو وہ قربانی کا جانور دم کو روانہ کرے اور وہ جانور ذبح ہونے کے بعد حلال ہوسکتا ہے یعنی احرام کھول سکتا ہے یا پھر وہ قربانی کے جانور کی قیمت روانہ کرے تو اس قیمت سے جانور خریدا جائے گا اور اس کو حرم میں ذبح کیا جائے گا ۔ اس قیمت کو صدقہ کرنا جائز نہیں، اگر وہ رقم صدقہ کردی جائے تو وہ احرام کی پابندیوں سے نہیں نکل سکتا۔ ردالمحتار جلد 2 کتاب الحج صفحہ : 650 مطبعہ دارالفکر بیروت میں ہے : (بعث المفرد) ای بالحج أو العمرۃ الی الحرم قھستانی قولہ (دما) سیاتی بیانہ فی باب الھدی … قولہ (او قیمۃ ) ای یشتری بھی شاۃ ھناک و یذیح عنہ ۔ ھدایۃ وفیہ ایماء الی انہ لا یجوز التصدق بتلک القیمۃ۔
اسلامی ذبیحہ کی حکمتیں
سوال : مغربی ممالک میں آج کل حلال حرام کا کوئی تصور نہیں عموماً گوشت حرام ہوتا ہے، بغیر ذبح کیا ہوا ہوتا ہے اور مسلمان بلا کسی پس و پیش حرام جانوروں اور بغیر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں(الا ماشاء اللہ)۔
الحمدللہ ہمارے حیدرآباد میں حلال گوشت کا اہتمام ہوتا ہے ۔ لیکن ذبح کے وقت جو طریقہ ہونا چاہئے اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ جانوروں کو تکلیف دی جاتی ہے ۔ براہ کرم شرعی نقطہ نظر سے جانور ذبح کرنے کا اسلامی طریقہ کیا ہے اور جانوروں کو ذبح کرنے کا مقصد اور فائدہ کیا ہے بیان کریں ؟
عقیل احمد، نامپلی
جواب : ذبح کا اسلامی طریقہ یہ ہے کہ جانور کو بائیں پہلو پر اس طرح لٹایا جائے کہ جانور کا رخ قبلہ کی طرف ہو۔ جانور کو ذبح کرنے کے لئے آلہ تیز ہونا چاہئے تاکہ وہ غیر ضروری اذیت سے محفوظ رہے ۔ بہت سے جانوروں کو ایک ہی دفعہ اکھٹا ذبح کرنا مکروہ ہے۔ اسی طرح یہ بھی مکروہ ہے کہ ٹھنڈا ہونے سے پہلے جانور کے کسی عضو کو کاٹ کر الگ کردیا جائے یا اس کی کھال اتار دی جائے۔
ذبح کی ان سب احتیاطوں میں (شرعی اصطلاح میں) ’’ حلال ‘‘ طعام کا تصور مدنظر ہے، یعنی جانور ، مجموعی طور سے زہروں سے پاک ہو اور ایسا ہو جس سے زندگی کی حالت میں کوئی کراہت یا نجاست یا کثافت خاص وابستہ نہ ہو۔ ذبح کیا ہوا جانور ہر زہریلے مادے سے پاک ہونا چاہئے اور کوشش یہ ہو کہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو اور جتنی تکلیف دی جارہی ہے اسے بشری ضرورتوں کے لئے اضطراری بات سمجھ کر ، خدا کے پاک تصور سے وابستہ کر کے ایک تمدنی اجازت کے طور پر روا سمجھا گیا ہے اور ایذا رسانی کے ہر شائبے سے پاک ہے۔
امانت کا تلف ہونا
سوال : زید نے ایک مشین اپنے دوست رشید کے پاس امانت کے طور پر رکھوائی۔ رشید اس کو ا پنے پاس حفاظت سے رکھا۔ بعد ازاں رشید نے ا پنے مکان کی تعمیر شروع کی ، مکان خالی کرنا تھا تو اس نے زید کی مشین اپنے دوست خالد کے گھر میں چند دن کیلئے رکھی ۔ خالد نے اس کو قبول کرلیا اور گھر میں رکھا اور میں خالد نے بلا ضرورت اس مشین کو کھول کر کچھ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہا جس کی وجہ سے مشین خراب ہوگئی۔ خالد کو بھی اس کا اعتراف ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس مشین کے نقصان کی پابجائی رشید کرے گا یا وہ خالدکے ذمہ ہوگی۔
ندیم اللہ ، کالا پتھر
جواب : مذکور السؤال مشین کے نقصان کا ضمان خالد کے ذمہ ہے کیونکہ وہ اس کے عمل سے تلف ہوا ہے، رشید نے سامان چونکہ ضرورتاً اپنے پاس سے منتقل کیا تھا اس لئے رشید پر اس کی ذمہ داری نہیں ہے، عالمگیری جلد 4 کتاب الودیعۃ باب ثانی میں ہے : وان اخرجھا عن یدہ عندالضرورۃ بان وقع الحریق فی دارہ فخاف علیہ الحرق او کانت الودیعۃ فی سفینۃ فلحقھا غرق او خرج اللصوص و خاف علیھا او ما اشبہہ ذلک فدفعھا الٰی غیرہ لا یکون ضامنا کذا فی فتاوی قاضیخان۔ اسی صفحہ میں ہے ۔ ولو استھلک الثانی الودیعۃ ضمن بالاجماع۔
صبح سویرے اٹھنا
سوال : مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ مسلم نوجوان کاہل و سست ہوگئے ہیں، وہ رات دیر گئے دوست و احباب کے ساتھ گفتگو کرتے رہتے ہیں، دیر سے سوتے ہیں، نتیجے میں دیر سے اٹھتے ہیں، کئی نوجوان لڑکے تعلیم یافتہ ہیں، کمانے کے قابل ہیں لیکن وہ سستی و عفلت میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں ، کماتے دھماتے نہیں، دکان عموماً دیر سے کھولتے ہیں، آپ سے گزارش ہے کہ اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رہنمایانہ ارشادات سے رہبری فرمائیں۔
عبدالوہاب، مہدی پٹنم
جواب : صبح سویرے جلد اٹھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا اور صبح خیزی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو پسند ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح سویرے اٹھنے والوں کے حق میں دعاء خیر فرمائی ہے۔ ’’ اے اللہ ! میری امت کو صبح کے اٹھنے میں برکت دے ‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ رزق کی تقسیم صبح سویرے ہوتی ہے۔
حضرت صخر ایک تجارت پیشہ صحابی تھے ، وہ ہمیشہ اپنا سامان تجارت صبح سویرے روانہ کرتے اور فرماتے ہیں کہ اس کی برکت سے مال کی اتنی کثرت ہے کہ رکھنے کو جگہ نہیں ملتی۔ (ابو داود، 3 ، 8 ، کتاب الجہاد 26-6 ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اوقات صبح سویرے ہی لشکر روانہ فرماتے اور سفر بھی و دیگر اہم کاموں کو رات کے آخری حصے میں انجام دینے کی ترغیب فرماتے۔
لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ فجر کی نماز کے ساتھ ہی اپنے کام و کاج کاروبار و تجارت و دیگر اہم امور کی انجام دہی میں مشغول ہوجائیں۔ رات میں زیادہ دیر تک بلا وجہ جاگنا پسندیدہ نہیں ہے، اس سے فجر کی نماز جو کہ فرض ہے چھوٹ جانے کا ندیشہ رہتا ہے اور رزق کی تقسیم کے وقت وہ خواب غفلت میں رہتا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات میں جلد سونے اور صبح جلد اٹھنے کی ترغیب دی ہے اور بعد نماز عشاء باہمی گفتگو و قصہ گوئی سے منع فرمایا ۔ پس فجر کی نماز ترک کرنا اور صبح دیر گئے تک سونا منحوسی ہے۔
اولاد کی ضد اور نافرمانی
سوال : میں ایک ماں ہوں جو دماغی طور پر بہت پریشان ہوں۔ شریعت کی رو سے میرے اس مسئلہ کا حل برائے مہربانی بتایئے۔ میرا ایک 16 سالہ لڑکا ہے ۔ بچپن سے تھوڑا بہت ضدی تھا لیکن میں اس کی بے جا ضد کو کبھی نظر انداز کی ۔ اچھی سے اچھی تربیت دینے کی کوشش کی ۔ گھر میں بھی اسلامی ماحول رکھتی ہوں۔ ٹی وی کمپیوٹر کے بے جا استعمال پر پابندی رکھتی ہوں۔ لیکن چار سال سے بچہ حد سے زیادہ ضدی ہوگیا ۔ پڑھائی بالکل چھوڑ دیا ۔کالج کو بھی پابندی سے نہیںجاتا۔ ٹی وی کمپیوٹر سیل فون پر وقت گزاری کرتا ہے ۔ بچپن میں بہت اچھا پڑھتا تھا لیکن اب دو ، تین بجے رات کو بھی کمپیوٹر پر ہی بیٹھتا ہے۔ میں روکوں تو مجھے بہت بے جا طریقے سے ماردیتا ۔ مجھے ڈھکیل دیتا۔ زور زور سے چیختا، اپنی بڑی بہن ، بھائی کو مارتا، گھر میں توڑنا پھوڑنا کرتا جو بھی چیز سامنے رہی اٹھاکر مار دیتا۔ مجھے لاتوں سے مارتا ، Internet کا کنکشن نکال دوں تو انٹرنیٹ کیفے پر چلا جاتا۔ گھرمیں ماشاء اللہ سب نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔ پر وہ نماز بھی نہیں پڑھتا۔ اللہ کے خوف سے ڈرتی ہوں۔ ماں باپ پر ہاتھ اٹھاتا یہ لڑکا ، اللہ تعالیٰ اس کی آخرت کیسی کرے گا۔ میں رو رو کر گڑگڑاکر اللہ کے حضور میں ہر وقت دعا کرتی ہوں۔ بڑے بزرگوں سے سمجھانے لگواتی ہوں۔ چار سال سے جو کبھی کوئی کچھ وظیفے پڑھنے کیلئے بتاتے ہیں، پابندی سے پڑھتی ہوں پر جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا جارہا ہے۔ دن بہ دن اس کی ضد ، نافرمانی ، غصہ بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ میں بہت الجھن میں ہوں۔ کوئی لوگ کہتے ہیںکہ اسے سفلی علم والوں کے اپس لے جائیے۔ اس پر شاید گندے اثرات ہوں گے لیکن میں جانا نہیں چاہتی ۔ مجھے اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ ہے۔ برائے کرم ایسی نافرمان اولاد کے سدھرنے کیلئے کچھ وظیفے ہے تو پڑھنے کیلئے بتائیے۔ شرعاً اس کے ساتھ میں کیا کرنا چاہئے ۔ شکر گزار ہوگی۔
نام ندارد
جواب : بچوں کی تربیت انتہائی اہم ہوتی ہے۔ بچپن ہی سے ان کی متوازن دیکھ بھال (یعنی حد سے زیادہ سختی یا بے جا لاڈ و پیار کے بجائے دونوں چیزوں میں اعتدال) اور اسلامی تربیت دینے سے آگے چل کر بچے اس حد تک ناخلف نہیں ہوتے۔ اب آپ اپنے بچے کی اصلاح چاہتی ہیں توپہلے انہیں بری صحبتوں سے بچائیں اور نرمی سے انہیں اللہ اور اسکے رسولؐ کے احکام اور ماں باپ کی عزت واحترام کے متعلق سمجھائیں۔ ساتھ ہی ساتھ درج ذیل عمل کرنے سے انشاء اللہ افاقہ ہوگا۔ (1) جب بچہ سوجائے تو اس کے کان کے پاس دھیمی آواز میں سورہ بروج کی آیت نمبر 17 تا 22۔ ھل اتاک حدیث الجنود سے لوح محفوظ تک سات روز تک ایک بار پڑھیں۔ (2) بچہ کا نام ذہن میں رکھ کر ہر نماز کے بعد سورہ احقاف کی آیت 15 واصلح لی فی ذریتی انی تبت الیک وانی من المسلمین پڑھکر دعا کریں۔ انشاء اللہ فائدہ ہوگا ۔ ہر وظیفہ سے قبل طاق عدد درود شریف ضرور پڑھیں۔