میرا کالم مجتبیٰ حسین
ہم شخصی طور پر کھدائی کی اہمیت کے زبردست قائل ہیں بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ یہ جو ہمارے سائنسداں آئے دن خلا کی تسخیر کے پروگرام بناتے جارہے ہیں اور نئے نئے سیاروں کی خبر لارہے ہیں تو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم سائنسی تجربات کے ذریعے خلا کے بارے میں انسان کی معلومات میں اضافے کے خلاف ہیں ۔ بیشک انسان کی سائنسی معلومات میں اضافہ ہونا چاہئے لیکن انسان کو بنیادی طور پر زمین سے جڑے رہنا چاہئے اور یہی سچی انسانیت ہے ۔ انسان کی تاریخ میں خیالی اور خلائی باتوں کے مقابلے میں زمینی سچائیوں کی ہمیشہ اہمیت رہی بلکہ جب تک آدمی کے پاؤں زمین پر ٹکے رہتے ہیں اس کی دماغی حالت بھی نارمل رہتی ہے ۔ ہر مسئلے کا حل ہوائی باتیں کرنے سے نہیں نکلتا بلکہ مسئلے کی گہرائی میں جانے پر نکلتا ہے ۔ یوں بھی آدمی آسمان کی طرف اُسی وقت جاتا ہے جب وہ زمین کے نیچے چلا جاتا ہے یا زمین کا حصہ بن جاتا ہے ۔ اسی لئے آدمی کو زمین کا رزق ہی کہا جاتا ہے لہذا کروڑوں برس سے انسان براہِ زمین آسمان کی طرف جاتا رہا ہے ۔ مانا کہ زمین پر جب بھی آفت آتی ہے تو آدمی آسمان کی طرف دیکھتا ہے لیکن جب تک دانہ خاک میں نہیں ملتا وہ گل و گلزار نہیں ہوتا ۔ اس لئے صوفیائے کرام نے خاک نشینی کو ہمیشہ اعلی و ارفع مقام عطا کیا ۔
معاف کیجئے ہم جب بھی کوئی ہلکی پھلکی بات کرنا چاہتے ہیں تو نہ جانے کیوں سنجیدہ باتیں بلکہ بہکی بہکی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں ۔ یہی دیکھئے کہ آج ہم نے یہ کالم اس ارادے سے لکھنا شروع کیا تھا کہ یہ جو برسات کے حالیہ موسم میں جگہ جگہ سڑکوں پر گہرے کھڈ پڑگئے ہیں جن میں پانی بھرا رہتا ہے اور جگہ جگہ ڈرینیج پائپ بچھانے کی خاطر کھدائیاں ہورہی ہیں تو ان کی وجہ سے سڑکیں آدمی کے استعمال کے قابل نہیں رہ گئی ہیں اور بلا مبالغہ پرسوں ہی ہم نے پرانے شہر کے ایک علاقے میں یہ منظر دیکھا کہ لوگ سڑکوں کی بجائے مکانوں کی چھتوں پر سے گزر رہے ہیں اور ایسی حرکتیں کررہے ہیں جوعموماً بندر درختوں پر کرتے رہتے ہیں ۔
بہرحال سڑکوں پر ہونے والی تکلیف دہ کھدائیوں کو دیکھ کر ہمارا ذہن زمین کی گہرائی اور خلا کی وسعتوں کی طرف چلا گیا اور وہاں سے تصوف کی طرف نکل گیا ۔ جب آدمی سڑکوں پر چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہتا تو وہ ایک جگہ بیٹھے بیٹھے تصور کے راستوں پر نکل جاتا ہے جہاں نہ ٹریفک جام ہوتی ہے نہ مین ہول کے ڈھکن کھلے رہتے ہیں اور نہ کسی گہرے کھڈ میں گرنے کے بعد ملک الموت کو وہیں بلواسکتا ہے ۔ بخدا ہم کھدائیوں کے خلاف نہیں ہیں ۔ ماہرین آثار قدیمہ نے نہ جانے کتنی ہی تہذیبیں زمین کے نیچے سے کھود کر برآمد کی ہیں ۔ ہڑپاّ وموہنجودارو ، بابل و نینوا ، مصر ، جنوبی امریکہ اور وسط ایشیا کی کتنی ہی تہذیبیں زمین کے نیچے صدیوں سے آرام کررہی تھیں جنھیں ماہرین آثار قدیمہ نے کھود کر نکالا ۔ یہ کھدائیوں کی ہی دین ہے کہ مشرق وسطی میں زمین کے نیچے سے جگہ جگہ تیل کے چشموں کا سراغ مل سکا ، سینکڑوں معدنیات زمین کے نیچے سے برآمد کی جاتی ہیں ۔ جن کی خاطر زمین کی گہرائی میں جانا نہیت ضروری ہوتا ہے ۔ پچھلے زمانے میں جب بینک نہیں ہوا کرتے تھے تو عام آدمی اپنی دولت بسا اوقات زمین کے نیچے ہی دفن کرکے رکھتا تھا ۔قدیم داستانوں کے مطابق بعض افراد اپنے فرمانبردار جنوں اور آسیبوں کو بوتلوں میں بند کرکے زمین میں دفن کردیتے تھے ۔ کھدائی کے بعد کبھی کوئی غلطی سے بوتل کو کھول دیتا تھا تو بوتل کا جن دہاڑتے ہوئے بوتل سے باہر نکلتا تھا اور کہتا تھا ’’میرے آقا آپ کے حکم کا منتظر ہوں ۔ بتایئے کیا چاہئے؟‘‘ ۔ افسوس کہ ہمیں ایسی بوتل اور ایسا جن کبھی نہیں ملا ورنہ ہم بھی اس سے کچھ ضروری چیزیں جیسے سبزی، دال ، سگریٹ اور تیل وغیرہ بازار سے منگوالیتے ۔
کُھدائی اگر کسی خاص مقصد یا نصب العین کے تحت کی جائے تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ۔ اگر آدمی ایسی کُھدائیاں نہ کرتا تو زمین کے اوپر انسان کا زندہ رہنا دشوار ہوجاتا ۔
لیکن یہ جو آئے دن سڑکوں پر انواع و اقسام کی کُھدائیاں ہوتی رہتی ہیں تو ہمیں ان پر ضرور اعتراض ہے ۔ ہمارے شہر کی زخمی سڑکیں جابجا لہولہان ہوچکی ہیں ۔ پتہ نہیں انھیں کون کھودتا ہے اور ان میں کھڈ پیدا کرکے چلا جاتا ہے ۔ ہمارے گھر کے سامنے کی سڑک چونکہ حالیہ برسات کے بعد چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہ گئی ہے اسی لئے ہمیں مجبوراؑ اپنا وقت گھر پر ہی گزارنا پڑتا ہے ۔ تاہم پچھلے ہفتے ہم نے اپنے لئے ایک مصروفیت یہ نکال لی کہ جب بھی کوئی پھاؤڑا اور کدال لے کر سڑک پر مصروف عمل نظر آیا ہم نے اس سے ضرور یہ پوچھا کہ وہ کون سے محکمے سے تعلق رکھتا ہے اور سڑک کو کیوں کھود رہا ہے ۔ چنانچہ کچھ لوگ ایک ساتھ مل کر ہمارے گھر کے سامنے کی سڑک کو کھودنے آئے تو ہم نے ان کا سلسلہ حسب نسب پوچھ لیا ۔ معلوم ہوا کہ محکمہ بلدیہ کی طرف سے آئے ہیں ۔ جب پوچھا کہ وہ سڑک کو کیوں کھود رہے ہیں تو نہایت مودبانہ انداز میں جواب دیا ’’ہمیں کیا معلوم کہ ہم یہ سڑک کیوں کھود رہے ہیں ۔ اس کے بارے میں ہمارے عہدیداران سے پوچھئے ۔ ہمارا کام تو صرف کھودنا اور حکم کی تعمیل کرنا ہے‘‘ ۔ اور ہم اس جواب سے مطمئن ہوگئے کیونکہ بلدیہ کا کام ہی کھودنا ہے اور اگر کوئی کھودنے سے منع کرے تو اعتراض کرنے والے کو کھودے ہوئے گڑھے میں گرا کر دفن کردینا ہے ۔ دوسرے دن ہماری سڑک پر کچھ لوگ پھر مصروف عمل نظر آئے تو پوچھنے پر پتہ چلا کہ ٹیلی فون کے محکمے سے آئے ہیں ۔ اتفاق سے ہمارا ٹیلی فون اس دن خراب تھا ۔ ہم نے ایک مزدور سے کہا ’’میاں اچھے وقت آئے ۔ ذرا ہمارا ٹیلی فون ہی ٹھیک کردو‘‘ بولا ’’ٹیلی فون کے لائن مین الگ ہوتے ہیں ۔ ہم تو صرف کُھدائی والے لوگ ہیں‘‘ ۔ ہم خاموش ہوگئے تو تیسرے دن سڑک پر جو لوگ نمودار ہوئے وہ بجلی کے محکمے کے نکلے ۔ چوتھے دن آب رسانی والے پھاوڑا اور کدال لے کر آگئے اور ہمارے گھر کے سامنے جو تھوڑی بہت سڑک باقی رہ گئی تھی اُسے کھودنے لگے ۔ ہم نے کہا ’’ظالمو! بھلے ہی ہمارے چلنے کے لئے کوئی سڑک باقی نہ رکھو لیکن کل کے دن کوئی بھولا بھٹکا محکمہ سڑک کھودنے آئے تو ہمیں اس قابل تو رکھو کہ اس مہمان محکمے کی خدمت میں تھوڑی سی سڑک کھودنے کے لئے پیش کردیں‘‘ ۔ مگر وہ باقی ماندہ سڑک بھی کھود کر چلے گئے ۔
اگلے دن ایک بزرگوار اچانک چلے آئے اور ہماری کھدی ہوئی سڑک پر زور و شور سے کدال چلانے لگے ۔ ہم نے پوچھا ’’قبلہ! آپ کس محکمے سے آئے ہیں اور کھدی ہوئی سڑک کو کیوں کھود رہے ہیں‘‘ بولے ’’جناب ! ویسے تو میرا تعلق محکمہ بلدیہ سے رہا ہے جس کا کام ہی اچھی بھلی سڑکوں کو کھودنا ہے ۔ میں کل ہی بلدیہ کی ملازمت سے ریٹائر ہوا ہوں‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’تو پھر تم آرام سے گھر میں بیٹھو اور عیش کرو‘‘ بولے ’’کیا کروں پچھلے چالیس برسوں کے عرصے میں صرف سڑکیں ہی کھودتا رہا ۔ اب سڑکیں کھودنے کی عادت ہوگئی ہے بلکہ سڑکیں کھودنا میری زندگی کا نصب العین ہے ۔ سڑکیں کھودنا ہی میری عادت ہے اور تپسیّا ہے‘‘ ۔ ایسے ہی ایک بے لوث ، قلندر صفت اور بے غرض کھودنے والے کی یاد ہمیں آگئی ۔ سنا ہے کہ ایک شخص کُھدائی کرنے لگا تو کھودنے کے جوش میں اسے یاد نہیں رہا کہ وہ زمین کو کھودتے کھودتے کہاں تک نیچے پہنچ گیا ہے ۔ شام ہوئی اور اندھیرا چھانے لگا تو دیکھا کہ زمین میں وہ اتنا نیچے چلا گیا ہے کہ اب اپنے طور پر باہر نکلنے کے قابل نہیں رہ گیا ہے ۔ بہت چیخا چلایا لیکن کسی کے کانوں میں اُس کی آواز نہیں پڑی ۔ رات بڑھی اور ایک شرابی کا ادھر سے گزر ہوا تواس نے اس غریب کی آواز سنی ۔ گڑھے میں جھانک کر دیکھا تو اُسے معلوم ہوا کہ ایک آدمی اندر پھنسا ہوا ہے ۔ شرابی نے لڑکھڑاتے ہوئے پوچھا ’’بھیّا کیا چاہتے ہو؟‘‘ آدمی نے جواب دیا ’’میں اس گڑھے میں پھنس گیا ہوں اور باہر نکلنے کے قابل نہیں ہوں ۔ مجھے کسی طرح باہر نکالو ۔ میں سردی کے مارے ٹھٹھر رہا ہوں‘‘ ۔ شرابی نے گڑھے کے اندر مٹی ڈالتے ہوئے کہا ’’اصل مسئلہ یہ ہے کہ تم پر مٹی نہیں ڈالی گئی ہے ۔ تبھی تو تم سردی کے مارے ٹھٹھر رہے ہو ۔ میں ابھی تم پر مٹی ڈالوں گا جب مٹی سے پوری طرح ڈھک جاؤگے تو ہمیشہ کے لئے سردی سے نجات پاجاؤگے‘‘۔
بہرحال حکومت کے بعض محکموںکا کام ہی سڑکوں کو کھودنا ہے ۔ انھیں اپنا کام کرنے دو ۔ ہمارے ہاں بعض محکمے ایسے ہیں جہاں کوئی کام نہیں ہوتا ۔ یہ کم از کم سڑکیں تو کھودتے ہیں ۔ ویسے مجموعی طور پر حکومت کا کام ہی عوام کی قبریں کھودنا ہے ۔ (ایک پرانی تحریر)