ابراہیم یافعی کی موت گولی لگنے سے ہوئی تھی

عثمانیہ ہاسپٹل میں دو گواہوں کا بیان قلمبندکیا تھا، تحصیلدار وحیدہ خاتون سے جرح
حیدرآباد ۔ /29 نومبر (سیاست نیوز) رکن اسمبلی چندرائن گٹہ حملہ کیس کی روزانہ اساس پر جاری سماعت میں آج تحصیلدار شریمتی وحیدہ خاتون نے اپنا بیان قلمبند کروایا۔ وکیل دفاع جی گرو مورتی نے اس گواہ پر جرح کی اور سماعت کل تک کیلئے ملتوی کردی گئی ۔ عدالت میں دیئے گئے بیان میں تحصیلدار کلکاچرلا منڈل ضلع وقار آباد نے بتایا کہ 2009 ء تا 2011 ء جون انہوں نے تحصیلدار اینکوسٹ کی حیثیت سے آر ڈی او حیدرآباد کے دفتر میں خدمات انجام دی ۔ انہوں نے بتایا کہ /30 اپریل 2011 ء کو چندرائن گٹہ پولیس نے انہیں ابراہیم بن یونس یافعی نامی نوجوان کا اینکوسٹ پنچنامہ کرنے کی درخواست کی جس پر انہوں نے عثمانیہ جنرل ہاسپٹل کے مردہ خانہ پہونچ کر وہاں پر موجود دو گواہ مرزا سرفراز بیگ ، محمد حامد اور دیگر کا بیان قلمبند کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ مہلوک ابراہیم یافعی کے جسم پر موجود نیوی بلیو ٹی شرٹ اور دیگر ملبوسات جو خون میں لت پت تھے حاصل کرلئے ۔ وحیدہ خاتون نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے اپنی رپورٹ میں یہ رائے دی ہے کہ موت کی وجہ گولی لگنے سے ہوئی ہے ۔ اس بیان کے بعد وکیل دفاع مسٹر جی گرومورتی نے ان پر جرح کا آغاز کیا جس کے دوران کئی سوالات کئے گئے ۔ جرح میں تحصیلدار نے بتایا کہ انہیں یاد نہیں ہے کہ  اسپیشل ایگزیکٹیو مجسٹریٹ کی جانب سے کی گئی مجسٹریل تحقیقات میں انہوں نے بتایا تھا کہ وہ گواہوں کے بیان کیلئے اویسی ہاسپٹل گئی تھیں اور وہاں سے دواخانہ عثمانیہ پہونچی۔ تحصیلدار سے اُن کے اسپیشل ایگزیکٹیو مجسٹریٹ حیدرآباد کے روبرو قلمبند کئے گئے بیان پر جرح کی گئی۔ انھوں نے یہ اعتراف کیاکہ جو بیان قلمبند کیا گیا تھا وہی اُن کے حوالے کیا گیا اور اس پر ان کے دستخط بھی ہیں۔ حلفیہ بیان کے پہلے پیراگراف میں کرائم نمبر کا تذکرہ ہے اور وہ سی آر پی سی کی دفعات سے پوری طرح واقف نہیں ہیں اور اُنھیں اِس بات کا علم نہیں ہے کہ ابراہیم یافعی کی موت سے متعلق ایک علیحدہ مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔ انھوں نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ مہلوک کے جسم پر دو گولیوں کے نشان اور زخموں کے نشان پائے گئے۔ شریمتی وحیدہ خاتون نے جرح میں یہ بتایا کہ انھیں وہ بیلسٹک سائنس سے واقف نہیں ہیں۔ گواہ نے مہلوک نوجوان کی ٹی شرٹ اور ملبوسات کی نشاندہی کی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اُن کے تجربے  سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گولی لگنے کا داخلی نشان چھوٹا اور نکلنے کا نشان بڑا ہوتا ہے اور انھیں پوسٹ مارٹم رپورٹ میں موجود تفصیلات جس میں مہلوک کے جسم پر زخموں کے نشان ہونے کا تذکرہ ہے سے واقف نہیں ہیں۔ گواہ نے جرح کے دوران مزید بتایا کہ انھوں نے چندرائن گٹہ پولیس کی درخواست پر انکویسٹ کیا اور پوسٹ مارٹم کے لئے عثمانیہ میڈیکل کالج کے فارنسک پروفیسر سے پوسٹ مارٹم کی ویڈیو گرافی کی درخواست کی تھی اور وہ پوسٹ مارٹم کے دوران مردہ خانے کے باہر تھیں۔ انھیں پوسٹ مارٹم کی سی ڈی حوالے نہیں کی گئی۔ شریمتی وحیدہ خاتون نے جرح کے دوران یہ بتایا کہ انھیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ دو فریقین زخمی ہونے پر دو علیحدہ مقدمات درج کیا جانا لازم ہے۔ عدالت نے اس کیس کی کارروائی کو کل تک کے لئے ملتوی کردیا۔