سڑکوں پہ آ کے وہ بھی مقاصد میں بٹ گئے

رشیدالدین

بابری مسجد اپنے قاتلوں کا تعاقب کر رہی ہے۔ بی جے پی کے سینئر قائد ایل کے اڈوانی کو پارٹی میں جس طرح سے رسوائی کا سامنا ہے ، اس نے اقلیتی رائے دہندوں کو بابری مسجد شہادت کی یاد دلادی ہے۔ ایل کے اڈوانی جنہوں نے رام مندر تعمیر کے مسئلہ پر ملک بھر میں رتھ یاترا کے ذریعہ نفرت اور فرقہ پرستی کی سیاست کو فروغ دیا تھا اور یہی صورتحال 6 ڈسمبر 1992 ء کو بابری مسجد کی شہادت کا سبب بنی۔ یہ وہی ایل کے اڈوانی ہیں جنہوں نے نفرت اور ہندوتوا کی سیاست کے ذریعہ دو ارکان پارلیمنٹ والی بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا لیکن آج پارٹی میں ہر قدم پر انہیں رسوائی کا سامنا ہے۔ صورتحال اس حد تک پہنچ گئی کہ اڈوانی کو ان کی پسند کی نشست دینے سے صاف انکار کردیا گیا۔

بابری مسجد کی شہادت سے لیکر آج تک نہ صرف این ڈی اے حکومت بلکہ پارٹی میں اڈوانی کیلئے رسوائی اور توہین ان کا مقدر بن چکی ہے ۔ انہیں نہ صرف پسندیدہ عہدوں سے محروم کردیا بلکہ کسی بھی اہم فیصلہ میں ان کی رائے کو اہمیت دینے سے نئی قیادت انکار کر رہی ہے۔ یہ اڈوانی کے ’’پاپ کی کمائی‘‘ نہیں تو اور کیا ہے جو انہوں نے بابری مسجد کی شہادت میں اہم رول ادا کیا تھا۔ ابھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اڈوانی کو سیکولر ہندوستان نے مکمل سزا نہیں دی اور زندگی کی آخری سانس تک پتہ نہیں پارٹی میں انہیں آئندہ رسوائی کے کن کن مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ دوسری طرف گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کے ذمہ دار نریندر مودی بظاہرگجراتی عوام کے انتقام سے بچ گئے لیکن عام انتخابات میں ملک کے عوام انہیں ضرور رسواء کریںگے۔ گجرات فسادات جس طرح ملک کی تاریخ کا بدنما داغ ہے لہذا قومی سطح پر ان کی رسوائی یقینی نظر آتی ہے کیونکہ مودی ملک کی سب سے اہم کرسی وزارت عظمی کے دعویدار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب ظلم حد سے گزرتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ کچھ یہی حال ملک کی تاریخ میں ظالم حکمرانوں کا ہوا۔ اگرچہ ملک کا بکاؤ میڈیا نریندر مودی کو رائے دہندوں کی اولین پسند کے طور پر پروجکٹ کر رہا ہے اور ٹی وی چیانلس پر مودی کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کچھ اس طرح کی جارہی ہے جیسے ٹی وی چیانلس پر مودی کی فیشن پریڈ ہو۔

اس بناؤٹی پروجیکشن اور فرضی اوپنین پولس کے باوجود بھی ہندوستان جیسی عظیم جمہوریہ کے رائے دہندے ہزاروں انسانوں کے قاتل کو وزارت عظمیٰ تک پہنچنے نہیں دیں گے۔ ہندوستان بنیادی طور پر سیکولرازم ، مذہبی رواداری اور تمام مذاہب کے ماننے والوں کے احترام کی پالیسی پر عمل پیرا ملک ہے۔ ملک کی ان روایات کو فرقہ پرست طاقتیں ہرگز تبدیل نہیں کرپائیں گی۔ ایل کے اڈوانی کیوں ہوتے ہیں ناراض اور پھر جلد کیوں مان جاتے ہیں ؟ ملک کے سیاسی حلقوں میں یہ سوال موضوع بحث بن چکا ہے ۔ اخبارات اور نیوز چیانلس میں سیاسی مبصرین الگ الگ زاویوں سے اپنی رائے پیش کر رہے ہیں۔ جب سے بی جے پی میں نریندر مودی کا قد بڑھنے لگا، کسی نہ کسی مسئلہ پر اڈوانی ناراض دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ناراضگی دراصل ان کے اندرونی کرب کو ظاہر کرتی ہے جو پارٹی میں جونیئر قائدین کی جانب سے نظر انداز کئے جانے کے سبب پیدا ہوا ہے۔

86 سالہ اڈوانی جو کبھی سنگھ پریوار کے پسندیدہ اور ملک میں ہندوتوا کا چہرہ سمجھے جاتے تھے، آج وہ اپنی پارٹی میں شناخت کے بحران کا شکار ہیں اور اپنے وجود کا احساس دلانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ نریندر مودی کے قد میں اضافہ سے تمام قائدین خوش ہیں، اڈوانی کے علاوہ اور بھی دیگر قائدین نریندر مودی کے پروجیکشن سے ناراض ضرور ہیں لیکن انہوں نے مصلحت کے تحت حالات سے سمجھوتہ کرنے میں عافیت محسوس کی ۔ یہ ان قائدین کی مجبوری بھی ہے کیونکہ بی جے پی کے سواء کوئی اور متبادل ان کے پیش نظر نہیں۔ ایل کے اڈوانی جنہوں نے گجرات فسادات کے موقع پر نریندر مودی کی پشت پناہی کی تھی، آج مودی کے نام کے ساتھ ہی ناراض کیوں ہورہے ہیں ؟ 2005 ء میں مودی اور اڈوانی میں دوریوں کا اس وقت آغاز ہوا جب پارٹی نے قومی سطح پر مودی کو اہمیت دینا شروع کی۔ ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار اڈوانی کے متبادل کے طور پر مودی کو عوام میں پیش کرنا چاہتا ہے۔ اڈوانی اپنے دورہ پاکستان کے بعد سے سنگھ پریوار کیلئے اچھوت ہوگئے کیونکہ انہوں نے پاکستان کے بانی محمد علی جناح کی مزار پر نہ صرف حاضری دی بلکہ انہیں سیکولر قائد قرار دیا تھا۔ آر ایس ایس کو اڈوانی کے متبادل کی تلاش تھی جو نریندر مودی کی صورت میں مکمل ہوگئی ۔ ظاہر ہے کہ اپنی اہمیت کو گھٹتا دیکھ کر اڈوانی کی ناراضگی فطری تقاضہ ہے ۔

یہ مقام عبرت نہیں تو کیا ہے کہ بی جے پی کل تک جنہیں سردار پٹیل ثانی اور آئرن میان (مرد آہن) کے خطاب سے نوازا گیا۔ آج نریندر مودی کے ساتھ ان القاب کو جوڑدیا گیا ہے۔ اڈوانی کو یہ بات شدت سے کھائے جارہی ہے کہ وہ وزیراعظم کی کرسی تک پہنچتے پہنچتے رہ گئے اور اب جبکہ بی جے پی کے اقتدار کیلئے ماحول سازگار دکھائی دے رہا ہے، ان کا چہرہ پارٹی کو بطور وزیراعظم پسند نہیں۔ سنگھ پریوار نے بتدریج ان کی اہمیت کو کم کردیا ۔ بی جے پی صدارت اور لوک سبھا میں قائد اپوزیشن کے عہدوں سے معزول کرتے ہوئے ان کے پاور سنٹر کے موقف کو چھین لیا گیا۔ اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ اڈوانی کو اپنی پسندیدہ لوک سبھا نشست کے حصول میں ناکامی ہوئی اور وہ پارٹی فیصلہ کے آگے سرنڈر ہوگئے۔ بتایا جاتا ہے کہ سنگھ پریوار نے واضح کردیا کہ اڈوانی گاندھی نگر سے مقابلہ کریں یا پھر گھر بیٹھ جائیں۔ آخر کار اڈوانی نے بادل ناخواستہ گاندھی نگر سے مقابلے کا فیصلہ کرلیا۔ کیا اڈوانی کی بار بار ناراضگی کا مقصد نریندر مودی کیلئے وزارت عظمی کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنا ہے؟ اڈوانی کی ناراضگی نئی نہیں ہے۔

پارٹی نے جس وقت مودی کو عام انتخابات کی مہم کی کمان حوالے کی تو اڈوانی نے پارٹی کے تمام عہدوں سے استعفیٰ دیدیا تھا، پھر بعد میں یہ مان گئے ۔ جس وقت مودی کو وزارت عظمی کا امیدوار بنایا گیا ، اس وقت بھی اڈوانی ناراض تھے۔ پارٹی نے جب نریندر مودی کو ملک کے ایک مثالی چیف منسٹر کے طور پر پیش کیا تو اڈوانی نے چیف منسٹر مدھیہ پردیش پرتھوی راج چوہان کی تعریف کی۔ اڈوانی دراصل مدھیہ پردیش کے بھوپال حلقہ سے مقابلہ کے خواہاں تھے تاکہ پرتھوی راج چوہان کے ہاتھوں محفوظ رہ سکیں۔ اڈوانی نے گاندھی نگر سے مسلسل پانچ مرتبہ کامیابی کے باوجود بھوپال کو اپنے لئے محفوظ تصور کیا جہاں گزشتہ 25 برسوں سے بی جے پی کا قبضہ ہے۔ شاید اڈوانی کو خوف ہے کہ مودی کی مخالفت کے نتیجہ میں گجرات میں انہیں ہرا دیا جائے گا ۔ ظاہر ہے کہ جب مودی پر اڈوانی کو بھروسہ نہیں تو پھر ملک کس طرح نریندر مودی پر بھروسہ کرسکتا ہے؟
جہاں تک مودی اور اڈوانی کے اختلافات کا معاملہ ہے، اس کی بنیادی وجہ وزارت عظمیٰ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو اس راہ میں رکاوٹ تصور کر رہے ہیں، پارٹی کی جانب سے مودی کی امیدواری کے اعلان کے باوجود بھی اڈوانی نے ہمت نہیں ہاری۔

ان کے تجزیے کے مطابق اگر بی جے پی کو تشکیل حکومت کے لئے درکار 272 نشستیں حاصل نہ ہوں اور صرف 170 تا 180 پر بی جے پی کی طاقت ٹوٹ جائے تو تشکیل حکومت کیلئے دیگر جماعتوں پر انحصار کرنا پڑے گا اور بیشتر جماعتیں تائید کیلئے نریندر مودی کو بحیثیت وزیراعظم قبول نہیں کریںگی۔ ایسے میں لاٹری اڈوانی کے نام اٹھ سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمر کے اس حصہ میں بھی وہ انتخابی سیاست سے سبکدوش ہونے تیار نہیں۔ اگرچہ پارٹی نے مختلف فیصلوں کے ذریعہ ان کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کردیا پھر بھی سیاست کی ڈور ان کے ہاتھ سے چھوٹتے دکھائی نہیں دیتی کیونکہ امید پر دنیا قائم ہے۔ بی جے پی میں داخلی بحران اور سینئر و جونیئر قائدین کی رسہ کشی سے نریندر مودی کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔ میڈیا کے پروجیکشن کے باوجود یہ صورتحال پارٹی میں انتشاری کیفیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر انتخابات میں بی جے پی کسی طرح تشکیل حکومت کے موقف میں آجائے تو آپسی خلفشار کے سبب حکومت برقرار نہیں رکھ پائے گی۔ جس طرح کرناٹک میں داخلی انتشار کے سبب بی جے پی حکومت زوال کا شکار ہوگئی، ٹھیک اسی طرح مرکز کا بھی حال ہوگا۔ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے وضع کردہ ڈسپلن کے تحت چلنے والی بی جے پی ڈسپلن شکنی کا شکار ہے۔ قائدین میں انتشار ہے تو دوسری طرف نریندر مودی میں خوف صاف طور پر جھلک رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اترپردیش کے وارانسی کے ساتھ گجرات کے وڈوڈرا حلقہ سے مقابلہ کا فیصلہ کیا۔

شاید انہیں ایک حلقہ سے مقابلہ کی صورت میں جیت کا یقین نہیں۔ اس خوف کو چھپانے یہ جواز پیش کیا جارہا ہے کہ 1980 ء میں اندرا گاندھی اور 1999 ء میں سونیا گاندھی نے بھی دو حلقوں سے مقابلہ کیا تھا ۔ جس وقت اندرا اور سونیا نے دو حلقوں سے مقابلہ کیا ، اس وقت کانگریس کا موقف کمزور تھا۔ اب جبکہ میڈیا کے مطابق مودی کی مقبولیت ہے اور ان کے نام سے بی جے پی اقتدار میں آئے گی تو پھر ایک حلقہ سے مقابلہ کافی تھا، گجرات کے سہارے کی ضرورت کیوں ؟ بی جے پی میں جسونت سنگھ جیسے سینئر قائد کی ناراضگی سامنے آئی ہے۔ جیسے جیسے انتخابات قریب ہوں گے اس طرح کی ناراضگیوں میں اضافہ کا امکان ہے۔ بی جے پی کی یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف کانگریس کے اہم قائدین میدان چھوڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کئی سینئر قائدین نے انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔ سینئر قائد سی کے جعفر شریف جنتا دل سیکولر اور جگدمبیکا پال نے بی جے پی کا رخ کرلیا۔ یو پی اے میں شامل کانگریس کے بعض حلیف پہلے ہی علحدگی اختیار کرچکے ہیں تو بعض تیسرے متبادل کی تلاش میں ہیں۔ کانگریس اور تیسرے محاذ کے برخلاف عام آدمی پارٹی بی جے پی کی اصل حریف دکھائی دے رہی ہے اور بی جے پی کو خوف بھی عام آدمی پارٹی سے ہی ہے۔ بی جے پی کے حالات پر یہ شعر صادق آتا ہے۔
سڑکوں پہ آ کے وہ بھی مقاصد میں بٹ گئے
کمرے میں جن کے بیچ بڑا مشورہ رہا