’’سپردگی کا یہ علم تمہیں ہوا کیا ہے ‘‘

نفیسہ خان
لڑکیوں کے دل موم کی شمع تو ہیں نہیں کہ چپ چاپ جلتے اور سلگتے رہیں۔ کبھی ایک چھوٹا سا چراغ بھی پورے گھر کو شعلہ پوش کردینے کا باعث ہوتا ہے ۔ یہی حال آج کل کئی ایک شریف گھرانوں کے افراد کے ساتھ ہورہا ہے، جنہوں نے باوجود تنگ دستی و غربت کے اپنی عزت و ناموس کو سنبھال رکھا تھا ، ان کی بیوی بیٹیوں نے شرم و حیا عصمت و عفت کی چادروں کو سر سے کبھی سرکنے نہیں دیا تھا ، اب بغاوت پر اتر آئی ہیں اور ان کے وہ قدم جو چوکھٹ سے با ہر رکھتے ہوئے بھی جھجکتے تھے ، اب سر جھاڑ منہ پھاڑ سڑکوں پر دندناتی پھر رہی ہیں، اپنی پیاس ، اپنی تشنگی کی تسکین کا وسیلہ ڈھونڈھنے کیلئے توقیر شرف و عزت کو قدموں تلے روند کر شرافت کی حدیں پار کر رہی ہیں۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ جس بندے کا انتخاب انہوں نے کیا ہے ، وہ اسے ایک باعزت ازدواجی زندگی ہرگز نہیں دے پائے گا ، یہ صرف ایک سراب ہے جس جذبہ کو محبت جیسا پاکیزہ لفظ کا نام دے کر گھر سے بھاگ کھڑی ہونے والی لڑکیوں کو اپنا شریک حیات منتخب کرنے کا یہ غلط فیصلہ ان کی زندگی کو اور زیادہ کٹھن و ہولناک کردے گا ، سچی محبت کرنے والا لڑکا اس کی یا اس کے خاندان کی عزت و آبرو پر حرف کبھی نہ آنے دے گا ، وہ پو رے احترام سے بیوی بناکر اپنے گھر لے جائے گا ، اس کو خاندان ، سماج کے سامنے سرنگوں نہیں کرے گا لیکن موجودہ حالات نے لڑکیوں کو یا تو شرافت کے دائرے میں گھٹ گھٹ کر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے یا پھر وہ بغاوت کا پرچم بلند کر کے اپنی انا ، خودداری ، پندار کی باتوں کو قصہ پارینہ جان کر ان سب کو اپنے پیروں تلے روند کر آگے بڑھنے پر مجبور ہوگئی ہیں کیونکہ صرف لڑکیوں نے نہیں سبھی لوگوں نے اپنی روش بدل لی ہے ۔ اخلاقی قدریں و رواج بدل گئے ہیں۔ لڑکیوں کی بے راہ روی کے ذمہ دار ماں باپ ، پڑوسی ، استاد اور سماج کا ہر فرد ہے ہم سب کا حوصلہ شکن عمل غلط راہوں پر گامزن ہر قدم کو بڑھنے سے روک سکتا ہے ۔ ہمارے صرف تماشہ بین بن کر رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ تعلیم یافتہ لڑکوں کی زند گیاں حصول روزگار کی جستجو تگ و دو میں گزر رہی ہے۔ بیروزگار کو کوئی لڑکی دیتا نہیں ہے ایسے میں لڑکے بھی شادی کا جھنجھٹ پالنے سے گریز کر رہے ہیں۔ عام طور پر یہ خیال پروان چڑھ رہا ہے کہ جب اسی روپئے لیٹر دودھ آسانی سے دستیاب ہو تو اسی ہزار کی بھینس پالنے کا درد سر کیوں مول لیں مگر ایک گھر گرہستی میں ضرور انگڑائیاں لیتا رہتا ہے۔ نوجوانوں کے جائز مطالبات ان کی فطری جسمانی خواہشات کی تکمیل نہ ہوپائے تو معاشرہ میں علتوں و گناہوں کو پنپنے کا موقع مل جاتا ہے ، خوف خدا اور خوف سماج دل سے دور ہوکر فحش ماحول بن گیا ہے تو ہم ایک دوسرے پر الزام دھرنے پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ شریف لڑکیاں عجز کامل بنیں اپنی شرافت کے حصار میں مقید ہیں، ان کی ذہنی تکلیف اور شدت کا ہمیں احساس ہے لیکن بہار کی منتظران جوانیوں کو خزاں کے سایوں سے بچانے سے ہم معذور و محروم ہیں ، شگفتہ پھولوں جیسی لڑکیاں جوانی کی راتیں امنگوں کے دن کے خیال خام میں مرجھا کر رہ گئی ہیں، اس عمر میں ہر کوئی بیشمار تمناؤں و آرزوؤں کے خواب لئے شعور کی سرحدوں میں قدم رکھتا ہے۔ ہر تمنا پوری ہو یہ ضروری تو نہیں لیکن خواہشات کے حصول و تکمیل ان کیلئے رنگ بہ رنگی تتلیوں کی طرح ہوتے ہیں، جن کے پیچھے نادان بچوں کی طرح دیوانہ وار دوڑتی دوڑتی تھک جاتی ہیں۔ خوش نصیب ہوتی ہیں وہ لڑکیاں جن کے ارمانوں کی کلیاں چٹک کر پھول بنتی ہیں، ورنہ موسم بہار کی منتظر آنکھوں میں ہم نے خزاں کے سائے ہی لہراتے دیکھے ہیں، ان لڑکیوں کی بے خواب آنکھوں میں درد و ملال کی پرچھائیوں کے علاوہ کوئی سکون پرور خواب ہے نہ خوشنوا نغموں کا الاپ ہے نہ محبت کے شیریں الفاظ کسی نے گوش گزار کہتے ہیں ، حالا نکہ چاہنے وار چاہئے جانے کی تمنا ہر دل میں ہوتی ہے لیکن ہر جذبے کو الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہوتا ہے ، کل تک جو باحیا، با ادب ، شرمیلی ، لجائی سی لڑکیاں تھے آج منہ کھولنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ کچھ تو شعلہ بیانی اور تلخ نوائی پر اتر آئی ہیں۔ شائد یہ مایوسی و محرومیوں کا ایک نف سیاتی رد عمل ہے۔ امید و بیم میں دوشیزگی و جوانی کے پینتیس 35 سال گزار دینا کتنا صبر آزما عرصہ ہوتا ہے ، یہ ان ہی سے پوچھیں جن پر گزر رہی ہے ۔ ان بچیوں پر گویا رحمتوں کا نزول ہونا بند ہوگیا ہے ۔ کچھ بدقسمت لڑکیاں ایسی بھی ہیں جن کی پیدائش و پرورش ایسے گھرانوں میں ہوئی جہاں کے ماحول میں دم گھٹ کر رہ جائے ، نہ صرف غربت بلکہ گالی گلوج ، شراب نوشی مختلف قسم کے نشہ کے عادی افراد خاندان میں پروان چڑھی لڑکیاں اپنے خیالات کو پاکیزہ کیسے رکھ سکتی ہیں، ان کے قدموں کا ڈگمگا جانا فطری عمل ہے، پھر بقول فیاض فاروق ؎

مفلسی روز یہاں بکتی ہے بازاروں میں
اور ہوس روز خریدار بدل دیتی ہے
اب اللہ سے دعائیں مانگنے کیلئے نہ ہاتھ اٹھتے ہیں نہ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ خدا سے شکایت بھی کریں بھی تو کس منہ سے جبکہ خود نمازی ، نہ شرعی احکام پر عمل پیرا ہیں نہ کبھی قرآن کو ہاتھ لگایا نہ تلاوت کی نہ ذکر الٰہی میں خود سر خیالات کو کچلنے کی کوشش کی ۔ اب بے راہ رو ہوکر سال پر سال گزار رہی ہیں ، بڑھتی عمر کے ساتھ منزل نظروں سے اوجھل ہوکر تمنائیں حسرتوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ چہرے سے رونق چھن گئی ہے ۔ مسکراہٹ پھیکی اور آنکھیں بجھی بجھی سی لگتی ہیں ۔ ہر جذبہ پر تاثر عکاس ہوتا ہے ، ان دیکھے ، ان چھوئے احساسات کا ، ان کے چہروں پر لکھی محرومیوں کی داستان سب کچھ بتا دیتی ہے، پچھتاوے و پشیمانی نے سر اٹھاکر جینے اور کسی سے آنکھ ملاکر بات کرنے کا حوصلہ بھی چھین لیا ہے۔ اپنوں کی طعنے زنی اور گناہوں کے بوجھ تلے وہ اپنی ذات کو حقیر سمجھنے پر مجبور ہیں لیکن اس دلدل سے نکلنے کا راستہ تو مسدود ہوگیا ہے۔ کرب و اندوہ کی پالی لڑکیاں حسرت ویاس بھری الم زدہ زندگیاں گزار رہی ہیں اور جو سنہرے خوابوں کو آنکھوں میں سموئے سجائے تمام حدبندیوں کو بھلانگ کر گھر کی محفوظ چار دیواریوں سے باہر نکل آئی ہیں ، قسمت نے ان کا ساتھ دیا تو گھر بسالیا ورنہ پھر وہی ما یوسیاں و محرومیاں ان کا نصیب بن گئیں، کاش روح کی پاکیزگی بدن کے تقاضوں پر غالب نہ آتی لیکن اب تو پاک روحوں کی تلاش بھی ممکن نظر نہیں آتی۔ جب تک میں حیدرآباد میں رہی ایسی زندگیوں کے بے شمار پہلوؤں سے قطعی نابلد تھی جب روزگار کی خاطر ، سماج سدھار کی خاطر ، مہیلا منڈلی چلانے کی خاطر ہر روز ہر ذات مذہب طبقے عہدوں رتبوں غریب امیر عورتوں سے اور ان کے ارکان خاندان سے واسطہ پڑتا رہا تو جانا کہ ایک لڑکی، ایک عورت کی زندگی میں کتنے اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں اور پھر بھی مورد الزام و بدنام وہی ہوتی ہے یہاں رہتے ہوئے یہ بھی مجھے معلوم ہوا کہ دیہات قصبوں میں زمینداری و دولت کی فراوانی کام کے سلسلے میں اپنے گھروں کے مردوں کو تو دور دراز مقام پر کام کرنے کی چھوٹ دے دیتے ہیں لیکن ان کے گھر کی عورتیں اپنے دیہات و گھر کی چار دیواریاں چھوڑ کر شوہر کے ساتھ نہیں جاسکتیں ، ایسے میں زمینداروں ، گتے داروں کو نئے مقام پر گھر سنبھالنے ، پکوان و کام کاج اور دوسری جملہ ضروریات کی تکمیل کیلئے ایک بانکی بائی کی ضرورت ہوتی ہے گویا دوسرے معنوں میں کنٹراکٹ بیوی چاہئے جن کے گھر سنسار کرنے کی مدت کا کوئی تعین نہیں ہوتا ۔ یہ بات بیویاں جانتی ہیں اور اہل خاندان بھی بخوبی واقف رہتے ہیں ۔ ایک بار مجھ سے ملنے قریب کے قصبے سے زمیندار کی بیوی سلوچنا آگئی ، میرے گھریلو کام پکوان میں ہاتھ بٹانے والی نرسماں جو خود بھی اسی دیہات کی تھی ، سلوچنا کو دیکھ کر لپک کر اس کے پیروں پر گر پڑی اور ’’دوراسائی ، دورا سائی ‘‘ کہتے ہوئے اپنی مسرت کا اظہار کرنے لگی ۔ سلوچنا نے جلدی سے اپنے پیر سمٹ لئے اور سختی سے منع کرنے لگی کہ اسے اس نام سے نہ پکارے کیونکہ وہ دوراسائی نہیں ہے بلکہ وہ پدا دورا کی بھاریا ہے (بڑے زمیندار صاحب کی بیوی ہے) اس دن ان ہی سے معلوم ہوا کہ دورائی اس عورت کو کہتے ہیں جو صاحب کی نور نظر تو ہو لیکن نہ اس سے شادی کی ہو نہ بیوی کا رتبہ دیا ہو ۔ پہلے یہ کام دیو داسیاں کیا کرتی تھیں اور آج کل اس طرح بھی کئی لڑکیاں و عورتیں گزر اوقات و گزر زندگانی کیلئے ایسی زندگی گزار رہی ہیں۔ آج انٹر میں پڑھنے والی کریمہ ایک غیر مسلم موچی کے ان پڑھ ، جاہل ، یومیہ مزدوری پر پٹرول پمپ پر کام کرنے والے لڑکے کے ساتھ فرار ہوگئی تو مجھے رہ رہ کر رحیم صاحب یاد آرہے ہیں جن کی دونوں لڑکیوں کی تعلیم پہلی جماعت سے دسویں تک میرے اسکول میں ہوتی تھی ، جب دونوں دسویں جماعت کامیاب کرچکیں تو وہ ٹی سی لینے اسکول آئے تو ان کا انداز کچھ اکھڑا اکھڑا سا لگ رہا تھا ، پہلے ہی سے وہ کریلا تھے ، آج تو گویا نیم کے پیڑ سے لپٹ گئے تھے ۔ میرا ماتھا ٹھنکا کہ شائد یہ رد عمل ہے بچیوں کی خواہش یا ضد کا کہ انہیں بھی جونیئر کالج میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ پڑھنے دیا جائے ۔ اس بات کو وہ باپ کی نافرمانی و گستاخی سے تعبیر کر رہے تھے ۔ کلاس ٹیچر کی شامت آگئی کہ تمام سرٹفکیٹس دیتے ہوئے اپنوں نے رحیم صاحب سے پوچھ لیا کہ ’’آپ نے گورنمنٹ جونیئر کالج کا داخلہ فارم تو لالیا ہے نا ؟ ‘‘ رحیم صاحب ماسٹر صاحب پر پل پڑے۔ ’’دیکھو سر تم لوگوں کے سومڑی صورتاں پوو بھر وسہ کر کے میں مرد بچے بچیاں مل کو پڑھنے کے اسکول کو نہیں بھیجا ‘‘۔ میں نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی کہ کم از کم تعلیم انٹر مقرر کی گئی ہے۔ رحیم صاحب دو سال کی تو بات ہے اور پھر فیس وغیرہ بھی نہیں کتابیں کاپیاں بھی مفت ملیں گی ‘‘۔ وہ ماسٹر صاحب کی طرف سے میری جانب پلٹے۔ ’’او میڈم۔ تم ایک شیرنی کے نادیہ جگہ اس کرسی پو بیٹھ کو اوپر کی منزل سے بڑی کلاسوں سے اترنے چڑھنے والے پر ایک بوٹے پوٹیوں پہ چیل کی نظر رکھتے تھے ، اسکول کے ایک میل کے احاطہ تک کسی ماں کے … کو قدم رکھنے کا دم نہیں تھا ، بول کے میں پانچ جماعتاں پڑھا سو والا بھی اپنی بچیوں کو دس جماعتوں تک تمہارے حوالے کر کے بے فکر تھا ، اب کالج میں لچے لفنگوں کے بیچ میں ڈھکیلو بولتے تم ۔ میں پانچویں فیل ہو کو چپلوں کی ایک چھوٹی دوکان چلا کو پانچ بچوں کو بیوی کو نئیں پال رؤں ، ویسائچ کوئی بھی ڈھونڈھ کو دونوں بچیوں کے ہاتھ پیلے کردیتوں ۔ ہمارے پاس عزت کے سوا کیا ہے میڈم ؟؟ ہم کو بڑے بڑے پڑھائیاں نکورے با۔ او میڈم میں تمہاری تعریف کروں اور تم انجان بیٹھیں کیا ؟ آپ میرے منہ پر میری تعریف ’’اور میرے اسٹاف کی برائی کر رہے ہیں، مجھے یہ گوارا نہیں ہے ‘‘۔ وہ کچھ نرم پڑے سلام کیا اور رخصت ہوگئے ۔ جنت نصیب رحیم صاحب کو کہ اجڈ گنواڑ تھے لیکن نیک ، دوکانداری و لین دین میں ایماندار تھے ، آج گیارہ سال بعد ان کی ایک لڑکی کو اس کا شوہر معہ بچوں کے اس کی ان پڑھ جاہل نادار ماں کے گھر چھوڑ گیا ہے اور وہ بھی معمولی گھریلو جھگڑے کی وجہ سے ماں کے گھر بھیج دی گئی جو ماں خود اپنے بیٹوں بہوؤں کی آپسی لڑائیوں سے بد حال و بیمار ہے اپنی لڑ کی اور اس کے بچوں کو بھاوجوں کے طعنوں سے کیسے بچا پائے گی ، کیسے انہیں پیٹ بھر کھلا سکے گی ؟ میں اس لڑکی کے ساتھ پڑھنے والی چند لڑکیوں کو دیکھتی ہوں کوئی آنگن واڑی کی ٹیچر تو کوئی آیا ۔ کوئی منڈل میں تو کوئی پرائیویٹ اسکولوں میں نوکریاں کر رہی ہیں، اپنے پیروں پر آپ کھرے رہنے کی تعلیم و صلاحیت کے ساتھ شوہر بچوں کے ساتھ خوشحالی سے گھر گرہستی چلا رہی ہیں، ایسے میں مجھے مرحوم رحیم صاحب کی بہت یا د آتی ہے جو بچیوں کی عزت و آبرو کو بچانے کی خاطر ان کی شادیوں کی فکر اور پس اندازی میں خاطر خواہ علاج نہ کرواسکے اور پہلے ہی دل کے دورے میں اس جہانِ فانی سے اچانک کوچ کر گئے ۔ اس شریف آدمی کے الفاظ کی اہمیت کا اندازہ ہورہا ہے ، میں سمجھ نہیں پارہی ہوں کہ وہ صحیح تھے یا آج کل کے والدین جنہیں زمانے کے ساتھ خود کو بدلنا پڑا ہے ۔ اپنی بچیوں پر پورا بھروسہ و اعتماد رکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیم کے لئے گا ؤں سے شہر ، پھر شہر سے دوسری ریاست وہاں سے دوسرے ملک کو بھی بھیجنے میں عار نہیں سمجھ رہے ہیں۔ تعلیم و روزگار کے حصول کی دوڑ میں انہوں نے کیا کھویا ہے کیا پا یا ہے ، آج برسوں تعلیم کے شعبہ میں کام کرتے ہوئے بھی میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہوں کہ خوش قسمت ہیں وہ لڑکیاں جو گریجویشن کے بعد اچھا شوہر ، اچھا سسرال پانے میں کامیاب رہیں، وہ لڑکیاں بھی میری نظروں کے سامنے ہیں جو منہ زور جوانی کے بر انگیختہ جذباتی طوفان میں بہہ کر آج متاع کوچہ و بازار بن کر ہر روز نئے گاہکوں کی متلاشی رہتی ہیں۔ لڑ کیوں کی نگرانی اور انہیں سنبھالنا نہ صرف ماں باپ بلکہ سماج کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے خواہ وہ کسی مذہب یا فرقہ سے تعلق نہ رکھتی ہوں اور میں سب بچیوں سے بس اتنا ہی کہوں گی کہ ؎
نگاہ ناز کی بے باکیاں نہ ہوں عریاں
نظر میں اپنی حیا کا لباس رہنے دے
تاکہ لوگ ان پر انگلی نہ اٹھائیں اور یہ نہ پوچھیں کہ ؎
سپردگی کا یہ عالم تمہیں ہوا کیا ہے !! ؟؟